اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 161

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط ...
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 161

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ازابیلا کو اس خونی ماحول سے نکالنے کا اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہ خون آشاموں کی اس ٹولی کا حصہ بن چکی تھی اور اسے وہاں سے نکال کر انسانوں کی بستی میں لے جانا غیر انسانی فعل تھا۔ میں تہہ خانے کے دلان میں اکیلا رہ گیا۔ تینوں کون آشاموں کے جانے کے بعد کونے سے آتی زرد روشنی بجھنا شروع ہوگئی۔ اس جانب سے ایک بار پھر کسی زخمی بلی کے کراہنے کی ڈراؤنی آوازیں آنے لگی تھیں۔ میں تہہ خانے کی جالی دار ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے گزر کر سیڑھیوں میں آگیا۔ سیڑھیاں چڑھ کر تابوت کے سوراخ میں سے باہر نکلا تو دیکھا کہ رات کی تاریکی کم ہورہی تھی اور مشرقی آسمان پر صبح کاذب کی کافوری جھلکیاں پھیل رہی تھیں۔
میں جزیرے کے درختوں سے گزرتا گھاٹ کے قریب آگیا۔ دونوں مسلح سپاہی کشتی کے قریب ہی ریت پر سورہے تھے میں ان کے پاس سے گزرتا تو ان کی آنکھ کھل گئی انہوں نے تلواریں کھینچ کر مجھے للکارا۔ میں نے ان کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور اچھل کر کشتی میں بیٹھ گیا۔ انہوں نے مجھ پر حملہ کردیا۔ یہ ان کی حماقت تھی۔ میرا ارادہ ہرگز ہرگز ان کو قتل کرنے کا نہیں تھا اور میں نے انہیں واپس چلے جانے کو بھی کہا۔ مگر وہ مجھ پر تلواریں برسانے لگے۔ ان کی تلواروں کے وار میرا تو کچھ نہ بگاڑ سکے لیکن تھوڑی دیر بعد ریت پر ان کی اپنی لاشیں پڑی تڑپ رہی تھیں۔ میں نے چپو سنبھالے اور کشتی کا رُخ کھلے سمندر کی طرف کردیا۔ ابھی ہوا کی رفتار مناسب نہیں تھی۔ چنانچہ میں دور تک چپوؤں کی مدد سے کشتی کھینچتا چلا گیا۔ جب کاؤنٹ کا منحوس جزیرہ کافی پیچھے رہ گیا تو سمندر کے وسط میں آنے کے بعد ہوا کے جھونکے چل نکلے۔ میں نے کشتی کا بادبان کھول دیا اور اسے شمال مغرب کی طرف چلانے لگا۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 160 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
کاؤنٹ کے بیان کے مطابق میری کشتی کو تیسرے روز پرتگال کے ساحل پر پہنچ جانا چاہیے تھا لیکن ایسا نہ ہوا۔ مجھے سمندر میں سفر کرتے پانچ روز گزرگئے تھے اور ساحل ابھی تک دکھائی نہیں دیا تھا۔ میں سمجھا کہ میں راستے سے بھٹک گیا ہوں اور اب خدا جانے کہاں سے کہاں جانکلوں۔ سمندر میں دس روز تک بھٹکنے کے بعد ایک روز جبکہ آسمان پر گھنی گھٹائیں چھارہی تھیں اور سورج غروب ہوچکا تھا مجھے دور سے ساحل کی سیاہ لکیر دکھائی دی۔ میں کشتی کو ساحل کے رخ پر رکھے ہوئے تھا اور سمندر کی لہریں اب تیزی سے ساحل کی طرف بڑھتے ہوئے میری کشتی کو آگے ہی آگے کھینچے لیے جارہی تھیں۔ رات ہو چکی تھی جب میری کشتی ساحل کے ساتھ جاکر لگ گئی۔ ساحل پر جگہ جگہ سرو اور ایلوا کے درختوں کے جھنڈ کھڑے تھے۔ میں اندھیرے میں بھی ان درختوں کو پہچان سکتا تھا۔ سرو کے درختوں کو دیکھ کر مجھے خیال ہوا کہ میں پرتگال کی سرزمین پر نہیں ہوں کیونکہ پرتگال میں سرو کے درختوں کی اتنی بہتات نہیں ہے۔ میں نے کشتی کو وہیں ساحل پر چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی ٹیکریوں میں چلنے لگا۔ کچھ دور جانے کے بعد مجھے با ئیں جانب کھجور کے درختوں کا ایک جھنڈ دکھائی دیا۔ یہ درخت اس امر کی نشانی تھی کہ میں اندلس کی سرزمین پر پہنچ چکا ہوں کیونکہ کھجور کید رخت اندلس میں ہی مسلمانوں نے پہلے پہل آکر لگائے تھے اب مجھے اس کی تصدیق کرنی تھی۔ میں کھجور کے جھنڈ کی طرف بڑھا۔ آدھی رات کا سکوت طاری تھا۔ کھجو رکے جھنڈ میں ایک چھوٹا سا صحرائی چشمہ جاری تھا جس کا پانی ستاروں کی روشنی میں دھندلا نظر آرہا تھا۔
میں چشمے کے کنارے بیٹھ گیا اور منہ ہاتھ دھونے لگا۔ اچانک عقبی ٹیکریوں کی جانب سے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ ایک لمحے کے لئے میں نے سوچا کہ یہ کون لوگ ہوسکتے ہیں۔ ٹاپوں کی آواز چشمے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ میں کچھ سوچ کر درختوں کے پیچھے اندھیرے میں جاکر چھپ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں تین گھڑ سوار نمودار ہوئے انہوں نے ہسپانوی انداز میں لمبے لبادے اوڑھ رکھے تھے، کمر کے ساتھ تلواریں لٹک رہی تھیں۔ میں نے درخت کی اوٹ سے غور سے دیکھا۔ یہ دو مرد تھے اور ان میں سے ایک حسین عیسائی لڑکی بھی موجود تھی چونکہ میں اندھیرے میں بھی عام انسانوں کے مقابلے میں زیادہ بہتری سے دیکھ لیتا ہوں اس لئے مجھے اس لڑکی کے بشرے سے محسوس ہوا کہ وہ کسی اعلیٰ خاندان کی چشم و چراغ ہے۔ مگر اس کا لباس مسلمان لڑکیوں جیسا نہیں تھا۔ اس نے عیسائیوں کا لباس پہن رکھا تھا۔ دونوں سوار چشمے پر آکر رک گئے۔ انہوں نے لڑکی کو بھی نیچے اتار لیا۔ انہوں نے لڑکی کو ایک طرف زمین پر بٹھادیا اور ہسپانوی زبان میں منہ ہاتھ دھونے اور پانی پینے کے لئے کہا۔ وہ خود بھی منہ ہاتھ دھونے لگے۔ گھوڑے پانی پی رہے تھے۔ لڑکی نے منہ ہاتھ دھوکر اپنے بالوں کو جھٹکا۔ پھر ان میں آہستہ آہستہ انگلیاں پھیرتی ہوئی بولی
’’ڈان پیڈرو! تم مجھے ناحق واپس لے جارہے ہو، میں وہاں نہیں رہوں گی۔‘‘
اس ہسپانوی نے جس کا نام ڈان پیڈرو تھا، غصیلی آواز میں کہا
’’عذرا! تم نے ایک مسلمان نوجوان کے ساتھ گھر سے نکل کر ہماری ناک کٹوادی ہے۔ سارے خاندان کو بے عزت کیا ہے۔ تمہارا باپ تمہیں زندہ نہیں چھوڑے گا۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم تمہیں اس کے پاس لے جائیں۔‘‘
دوسرا ہسپانوی بولا ’’اگر اس نے تمہیں سزا نہ دی تو ہم تمہیں ہلاک کر ڈالیں گے۔ تم نے ہماری عزت اور وقار خاک میں ملادیا ہے۔‘‘
اس لڑکی کا نام عذرا تھا۔ عذرا نے شان بے نیازی سے گردن کو ایک طرف خم دیا اور بولی ’’تم چاہے میرے ٹکرے اڑادو مگر میں عبداللہ بن علی کی ہوں اور ہمیشہ اس کی محبت کا دم بھرتی رہوں گی۔‘‘ اس پر ہسپانوی ڈان پیڈرو نے غصے میں آکر تلوار کھینچ لی۔ اس کے ساتھی نے فوراً اس کا ہاتھ تھام لیا۔
’’نہیں ڈان پیڈرو، یہ ہمارے چچا اور اپنے باپ کی امانت ہے ہمیں اسے زندہ حالت میں اس کے باپ تک پہنچانا ہے۔ ہم نے اس کا وعدہ کررکھا ہے۔ اپنے غصے پر قابو پاؤ۔‘‘
ڈان پیڈرو نے تلوار دوبارہ نیام میں کرلی اور گھوڑے پر سے کمبل اتار کر نیچے ریت پر بچھانے لگا۔
’’ہم یہاں باقی رات آرام کریں گے۔ اس کے ہاتھ باندھ دو۔‘‘
عذرا کے ہاتھ پشت پر باندھ دئیے گئے۔ اس کے لئے ذرا ہٹ کر زمین پر موٹا کمبل بچھادیا گیا۔ ڈان پیڈرو نے تحکمانہ لہجے میں کہا ’’یہاں سو جاؤ۔ شاید یہ تمہاری زندگی کی آخری رات ہو۔‘‘ عذرا نے بالوں کو جھٹک کر کہا ’’زندگی اور موت خداوند کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
چار قدم کے فاصلے پر دونوں ہسپانوی جو عذرا کے قریبی رشتے دار تھے لیٹ گئے انہوں نے عذرا کے پاؤں میں بھی ایک رسی ڈال کر اپنے پاؤں میں باندھ لی تھی تاکہ اگر وہ فرار ہونے کی کوشش کرے تو انہیں پتہ چل جائے۔ میں خاموش تماشائی بنا یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ رات گزرتی جارہی تھی۔ کچھ دیر تک آپس میں باتیں کرنے کے بعد دونوں ہسپانوی سوگئے۔ ان کے ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز سنائی دینے لگی۔ عذرا نے لیٹے لیٹے سر اٹھا کر ان کی طرف نگاہ ڈالی۔ شاید وہ فرار ہونے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ مگر مجبور تھی اس کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے۔ اس نے اپنا سر دوبارہ نیچے ڈال لیا۔ 
ساری کہانی میری سمجھ میں آگئی تھی۔ یہ کسی ہسپانوی جاگیردار کی بیٹی تھی جو کسی مسلمان نوجوان عبداللہ بن علی سے محبت کرتی تھی اور شاید اس کے ساتھ گھر سے فرار ہوگئی تھی اور یہ لوگ اسے دوبارہ پکڑ کر لائے تھے۔ خدا جانے عذرا کے محبوب عبداللہ بن علی کا کیا حشر ہوا تھا۔ زندہ تھا یا مرگیا تھا لیکن عذرا کی باتوں سے مجھے اندازہ ہوا تھا کہ وہ مرا نہیں ہے۔ بہرحال میں نے عذرا کی مدد کرنے کا فیصلہ کرلیا کیونکہ اس کی باتوں سے ثابت ہوچکا تھا کہ وہ عبداللہ بن علی سے محبت کرتی ہے اور اپنی مرضی سے اس کے پاس گئی تھی۔ جو لوگ نہ صرف یہ کہ محبت کرتے ہیں بلکہ محبت میں اپنی جان کی بازی لگا دیتے ہیں۔ ان کی مدد کرنا میرا اولین فرض تھا۔ میں نے ہمہ تن گوش ہوکر سنا۔ دونوں ہسپانوی سرداروں کے ہلکے ہلکے خراٹوں کی آواز ابھی تک آرہی تھی۔چاروں طرف رات کا اندھیرا تھا۔ انہوں نے وہاں کوئی الاؤ بھی روشن نہیں کیا تھا۔ ان کی باتوں سے یہ بات بھی تقریباً ثابت ہوچکی تھی کہ میں اندلس کی سرزمین پر ہوں۔‘‘
میں بڑی احتیاط کے ساتھ کھجو رکے درختوں کی اوٹ سے نکلا، میں آہستہ آہستہ گھٹنوں کے بل چلتا ہوا ہسپتانوی دوشیزہ عذرا کے سرہانے کی طرف آگیا۔ وہ جاگ رہی تھی مگر اس نے اپنا سر نیچے کر رکھا تھا، مجھے یہ بھی اندیشہ تھا کہ مجھے اچانک دیکھ کر خوف سے اس کی چیخ بھی نکل سکتی تھی۔ میں ذرا سی آہٹ پیدا کیے بغیر گھٹنوں کے بل چلتا ہوا اس کے قریب آکر رک گیا۔ میں نے پہلا کام یہ کیا کہ جلدی سے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر اس کے ہونٹوں پر مضبوطی سے جمادیا۔ پھر اس کے کان میں ہسپانوی زبان میں کہا ’’عذرا، میں تمہاری مدد کرنے آیا ہوں۔ بالکل خاموش رہنا۔‘‘ اس کے ساتھ ہی میں نے سب سے پہلے نہایت احتیاط سے اس کے پاؤں کی رسی کھول ڈالی۔ میرے رسی کھولنے سے عذرا کی تسلی ہوگئی کہ میں کوئی غیبی امداد ہوں۔ اس کے بعد میں نے اس کے ہاتھ کو بھی رسی کی بندش سے آزاد کردیا۔ عذرا اٹھ کر بیٹھ گئی اور اندھیرے میں اپنی چمکیلی آنکھوں سے میری طرف تکنے لگی اس کی آنکھوں میں مسرت آمیز حیرت تھی۔ میں نے اشارے سے اپنے پیچھے آنے کو کہا۔ وہ میرے پیچھے چلنے لگی۔ ہم کھجوروں کے جھنڈ میں آگئے۔ اب اس نے سرگوشی کی
’’تم کون ہو؟ تمہارا لباس ہسپانوی نہیں ہے۔‘‘
میں نے اسے سرگوشی میں جواب دیا ’’میں کوئی بھی ہوں، اس کی تم فکر نہ کرو۔ اس وقت تمہیں یہاں سے نکالنا ہے میرے ساتھ آؤ۔‘‘
عذرا نے ایک بار پھر سرگوشی میں کہا ’’ہمیں گھوڑے نکال کر لے آنے چاہئیں۔‘‘(جاری ہے)

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 162 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں