اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 160
’’تم تیار رہنا۔ میں آدھی رات سے پہلے پہلے کسی بھی وقت تمہیں آکر لے جاؤں گا۔‘‘
ازابیلا کچھ متفکر ہوکر بولی ’’اگر تم آدھی رات نہ آئے تو کاؤنٹ کو میری گمشدگی کا علم ہوجائے گا اور اس کے آدمی سارے جزیرے میں میری تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے۔پھر ہمارا فرار ناممکن ہوسکتا ہے۔ کچھ دیر میں ازابیلا کے ساتھ رہا اور اسے تسلی دے کر میں واپس محل کی طرف چل پڑا۔ سارا دن اسی سوچ بچار میں گزار دیا کہ ایسی کون سی ترکیب ہوسکتی ہے کہ کشتی پر قبضہ کرلیا جائے اور اگر کاؤنٹ کے دو مسلح آدمی وہاں پہرہ دے رہے ہوں تو انہیں بھی معلوم نہ ہو تاکہ وہاں ہنگامہ کھڑا نہ ہوسکے۔
دن غروب ہوگیا تو کاؤنٹ نے مجھے محل میں سے باہر جاتے ہوئے بتایا کہ کشتی لے کر اس کے آدمی کے آنے کا وقت ہوگیا اور وہ گھاٹ پر جارہا ہے۔ وہ گھوڑے پر سوار ہوکر گھاٹ کی طرف روانہ ہوگیا۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 159 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس کے جانے کے بعد میں بھی جنگل میں سے ہوکر گھاٹ کی طرف روانہ ہوگیا۔ میں محل وقوع دیکھنا چاہتا تھا۔ اگرچہ سورج غروب ہوچکا تھا مگر دن کی روشنی باقی تھی۔ گھاٹ کاؤنٹ کے محل سے زیاہ دور نہیں تھی۔ میں ایک ٹیلے کی اوٹ میں نکلا تو سامنے ساحل سمندر پر لکڑیاں جوڑ کر بنائے گئے پشتے کے قریب کاؤنٹ تلوار لٹکائے ٹہل رہا تھا۔ وہ بار بار سمندر کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ابھی تک کشتی نہیں آئی تھی۔ سمندر پر غروب ہوتے دن کی سرخی سیاہی میں بدلنے لگی تھی اور جزیرے کے گنجان درختوں میں اندھیرا چھانا شروع ہوگیا تھا۔ میری نگاہیں بھی کھلے سمندر پر جمی تھیں۔
پھر مجھے دن کی رخصت ہوتی ہوئی الوداعی سرمئی دھندلی روشنی میں ایک بادبانی کشتی ساحل کی طرف آتی دکھائی دی۔
کاؤنٹ کی آنکھیں بھی اس کشتی پر جمی ہوئی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد کشتی ساحل پر گھاٹ کے پشتے پر آکر لگ گئی۔ اس میں سے تین آدمی نکلے، تینوں مسلح تھے۔ تلوار اور بھالے ان کے پاس تھے۔ ایک اونچے قد کے جوان مسلح آدمی نے آگے بڑح کر جھک کر کاؤنٹ کو سلام کیا۔ اس کا بایاں ہاتھ چوما اور کشتی کی طرف اشارہ کیا۔ کاؤنٹ اور وہ چند لمحے تک باتیں کرتے رہے۔ پھر وہ واپس محل کی طرف روانہ ہوگئے چونکہ ان کے پاس ایک ہی گھوڑا تھا، اس لئے وہ پیدل چل رہے تھے۔ یہ میرے اطمینان کی بات تھی۔ میں بھی تیزی سے واپس محل کی طرف چلنے لگا۔ میں ان سے پہلے محل میں پہنچ گیا اور اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گیا۔ تھوڑی دیربعد خادمہ نے آکر اطلاع دی کہ کاؤنٹ نیچے مجھے یاد کررہا ہے۔ نیچے دالان والے کمرے میں کاؤنٹ لمبی کرسی پر بیٹھا تھا اس کا خاص ادمی جو کشتی لے کر آیا تھا، اس کے قریب بڑے ادب سے کھڑا تھا۔ تلوار اس کی کمر سے لٹک رہی تھی اور سر پر کسی جانور کے لمبے پروں والی ٹوپی تھی۔ کاؤنٹ نے میرا اس سے تعارف کروایا اور کہا
’’اگر کبھی لزبن آنا ہو تو میرے محل کی طرف ضرور آنا۔ مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
رات کا کھانا ہم تینوں نے مل کر کھایا۔ پھر میں اجازت لے کر اپنے کمرے میں آگیا۔ اب میرا مشن شروع ہونے والا تھا، بلکہ شروع ہوچکا تھا۔ رات کا پہلا پہر گزرچکا تھا اور جزیرے پر گہری خاموشی اور تاریکی چھاگئی تھی۔ میں نے اپنے کمرے کا چراغ نہیں جلایا تھا۔ اندھیرے میں ہی کمرے سے نکل کر سیڑھیوں اور راہداری میں سے ہوتا ہوا محل کے عقبی دروازے سے باہر باغ میں آگیا۔ میں لمبے لمبے ڈاگ بھرتا جزیرے کے قبرستان کی طرف چلا جارہا تھا۔ قبرستان میں موت کا سناٹا تھا۔ صنوبر کے تناور درخت کے پاس مجھے ایک سایہ بے چینی سے ٹہلتا نظر آیا۔ غور سے دیکھا تو وہ ازابیلا تھی۔ وہ پھر خفیہ کمین گاہ سے باہر آگئی تھی۔ قریب گیا تو مجھے دیکھتے ہی اس کے بے چین چہرے پر اطمینان سا آگیا۔ اس نے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’مجھے سخت پیا س لگی ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’تم نے چشتمے پر جاکر پانی پی لیا ہوتا۔
وہ ہاتھ جھٹک کر بولی ’’پانی ۔۔۔ یہ پانی ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ پھر میری طرف چمکیلی آنکھوں سے دیکھا اور کہنے لگی ’’مجھے ایک بار تہہ خانے میں لے چلو۔ وہاں سیکورے میں میرا ایک خاص مشروب رکھا ہے۔ اس کے پینے سے میری پیاس بجھ جائے گی۔ خدا کے لئے مجھے ایک بار ۔۔۔ صرف ایک بار زمین دوز تہہ خانے میں چلے۔‘‘
میں نے اسے بتایا کہ وقت بہت تنگ ہے اور کاؤنٹ کسی بھی وقت تہہ خانے میں پہنچ سکتا ہے۔ وہ سر جھٹک کر بولی
’’وہ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ تم مجھے وہاں لے چلو، بس سیکورے کا مشروب پی کر تمہارے ساتھ واپس چل دوں گی۔‘‘
میں مجبو رہوگیا۔ اسے ساتھ لیا اور جزیرے کے اس حصے میں آگیا جہاں شکستہ چبوترے پر بوسیدہ تابوت پڑا تھا۔ میں آگے آگے تھا۔ جلدی سے تابوت کے اندر داخل ہوکر تاریک سیڑھیاں اترتا نیچے تہہ خانے میں آگیا۔ دو ایک بار پیچھے سے ازابیلا کا ہاتھ مجھے اپنے کندھوں پر محسوس ہوا۔ میں نے کوئی خیال نہ کیا۔ ہم اس کمرے میں کھڑے تھے جہاں یاک جانب سے زرد روشنی اندر آرہی تھی اور دیوان خالی پڑا تھا۔ میں نے پلٹ کر ازابیلا سے کہا ’’جلدی سے اپنا مشروب پئیو اور یہاں سے نکل چلو۔‘‘ اس وقت میں نے ازابیلا کی آنکھوں میں ایک ایسی خونخوار چمک دیکھی کہ ایک پل کے لئے میرے جسم میں بھی دہشت کی لہر دوڑ گئی۔
میں ایک قدم پیچھے ہٹا تو ازابیلا ایک چیخ مار کر مجھ پر جھپٹ پڑی۔ اس نے میری گردن اپنے ہاتھوں میں دبوچ لی۔ اس کی گرفت کسی جانور کی گرفت کی طرح مضبوط تھی۔ وہ میرا کچھ نہیں بگاڑسکتی تھی مگر میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ مجھ سے کیا چاہتی تھی۔ میں نے کوئی حرکت نہ کی اور اپنی جگہ سے بالکل نہ ہلا۔ میری بے حسی سے ازابیلا کا حوصلہ بڑھ گیا۔ وہ سمجھی کہ میں دہشت زدہ ہوگیا ہوں۔ اس نے اپنا منہ میری گردن پر رکھ کر اپنے دانت میری کھال میں چبھودئیے۔ بہت جلد اسے احساس ہوگیا کہ معاملہ الٹ ہے۔ میں اس کے مذموم عندیے کو سمجھ گیا تھا۔ میں نے اسے پیچھے جھٹک دیا اور اسے جھنجھوڑتے ہوئے کہا
’’ازابیلا! ازابیلا! کیا تم بھی خون آشام چڑیل بن چکی ہو۔ ہوش میں آؤ۔‘‘
ازابیلا حقیقت میں خون آشام چڑیل کا روپ اختیار کرچکی تھی۔ اس کا چہرہ ڈراؤنا ہوگیا تھا۔ آنکھیں اوپر کو چڑھ گئی تھیں ہاتھوں کی انگلیاں مڑگئی تھیں۔ اس کے حلق سے ایک ڈراؤنی آواز بلند ہوئی اور دلان نما کمرے کے مغربی ستونوں کے اندھیرے میں سے اچانک کاؤنٹ اور خون آشام خادمہ نکل کر میری طرف لپکے۔ ازابیلا نے میری طرف اشارہ کرکے چیخ کر کہا
’’کاؤنٹ! اس کے بدن میں خون نہیں ہے۔‘‘
میں ازابیلا کے کردار کی اس کایا پلٹ پر ششدر ہوکر رہ گیا۔ ابھی میں سنبھل نہ سکا تھا کہ کاؤنٹ اور خادمہ نے بھی مجھ پر حملہ کردیا۔ کاؤنٹ نے مجھے بازوؤں سے پکڑلیا اور خادمہ نے وحشیانہ انداز میں اچھل کر میری گردن میں اپنے دانت گاڑھ دئیے پھر فوراً ہی اپنی گردن پیچھے جھٹک دی اور چیخ نما آواز میں بولی
’’اس کے جسم میں خون نہیں ہے۔‘‘
کاؤنٹ نے دھکا دے کر مجھے زمین پر گرانے کی کوشش کی۔ وہ اگر ساری زندگی اپنی اسی کوشش میں لگا رہتا تو بھی اس میں کامیاب نہیں ہوسکتا تھا۔ میں نے کاؤنٹ کو ستون کی طرف جھٹک دیا۔ وہ لڑھکتا ہوا ستون سے جاٹکرایا۔ خادمہ اور ازابیلا بھی اس کی طرف لپکیں۔ کاؤنٹ فرش پر سے اٹھا اور جدھر اندھیرا تھا اس طرف دوڑا۔ وہ دونوں بھی جدھر کاؤنٹ گیا تھا۔ ادھر کو لڑکھڑاتی ہوئی چل پڑیں۔ ازابیلا اپنے آپ کو خادمہ کی گرفت سے چھڑانے کے لئے کوئی کوشش نہیں کررہی تھی۔(جاری ہے)