اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 159
ہم رات کی تاریکی میں بھیگے ہوئے جھاڑ جھنکاڑ اور جنگلی جھاڑیوں کے درمیان سے ہوکر گزررہے تھے۔ میں نے ازابیلا سے بلی کے رونے کی آواز، ناگوار بو اور پھر بلی کے سینے میں پیوست خنجر کے بارے میں پوچھا جس کا اس نے ان الفاظ میں جواب دیا کہ ان باتوں کے متعلق اسے خود کچھ معلوم نہیں ہے۔ ہم صنوبر اور سرو کے اونچے، تناآور اور گنجان درختوں میں داخل ہوگئے۔ یہ قدیم پرتگالی قبرستان تھا جہاں اندھیرے میں مجھے قبروں کے گرے پڑے کتبے دکھائی دئیے، چبوترے ٹوٹے ہوئے تھے اور قبروں پر لگی ہوئی پرانی صلیبیں ایک طرف کو جھک گئی تھیں۔ ازابیلا اس قبرستان کے نشیب و فراز سے واقف تھی۔ وہ مجھے قبرستان کے عقب میں لے گئی۔ یہاں صنوبر کا ایک سال کوردہ گھنا درخت تھا جس کے تنے کا گھیر کافی بڑا تھا۔ اس درخت کے تنے میں جڑوں کے درمیان ایک گہرا شگاف بنا ہوا تھا۔ جسے جنگلی جھاڑ جھنکاڑ نے چھپا رکھا تھا۔ ازابیلا نے جھاڑیوں کو پیچھے ہٹایا تو درخت کے تنے کا شگاف واضح ہوگیا۔ ازابیلا بولی
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 158 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’میں اس شگاف میں زیادہ سے زیادہ ایک دن چھپ سکتی ہوں۔ اس کے بعد ہوسکتاہے کہ کاؤنٹ کے آدمی مجھے یہاں بھی تلاش کرلیں۔ تمہیں کل کے دن میں شام تک یہاں سے فرار ہونے کی کوئی آخری ترکیب سوچ کر اس پر عمل کرنا ہوگا۔ دوسری صورت میں ہمارا پکڑے جانا یقینی ہوگا اور پھر ہم اپنے آپ کو مگر مچھوں کا لقمہ بننے سے نہیں بچاسکیں گے۔ ہوسکتا ہے کاؤنٹ میری جان بخشی کردے مگر وہ تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا۔میں اب بھی تمہیں یہی مشورہ دوں گیکہ تم واپس محل میں چلے جاؤ اور مجھے زمین دوز تہہ خانے میں چلے جانے دو۔
میں نے ازابیلا سے کہا کہ مجھے ایک دن کی مہلت دو۔ پھر میں نے اسے درخت کے تنے کے شگاف میں چھپادیا۔ یہ تنا اندر سے اتنا کھوکھلا تھا کہ وہاں دو تین آدمی بڑی آسانی سے چھپ سکتے تھے۔ میں نے تنے کے منہ پر جنگلی جھاڑیوں اور درختوں کی گری پڑی شاخیں اتھا کر ڈال دیں اور ازابیلا کو ایک بار پھر اسی جگہ چھپے رہنے کی تاکید کرکے واپس محل کی طرف روانہ ہوگیا۔
محل بدستور تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ میں عقبی دروازے سے ہوتا ہوا دوسری منزل پر اپنے کمرے میں آکر پلنگ پر لیٹ گیا اور غور کرنے لگا۔ دوسرے روز کاؤنٹ کے بیان کے مطابق اس کے خاص آدمی کو مجھے لے جانے کے لئے کشتی لے کر آنا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ مجھے ہر حالت میں اس کشتی پر قبضہ کرنے کے بعد ازابیلا کو وہاں سے نکال کر لے جانا ہوگا۔ ازابیلا کی جان کی حفاظت بہر ضروری تھی۔ کاؤنٹ کے آدمی اور وہ خود اپنے آپ کو میرے آگے بے بس پاکر ازابیلا کو ہلاک کرسکتا تھا۔ اسی ادھیڑ بن میں رات گزرگئی۔ صبح ہوئی تو میں نیچے آگیا۔ محل میں سوائے دو نوکروں اور ایک خادمہ کے اور کوئی نہیں تھا۔ تھوڑی دیر میں کاؤنٹ بھی آگیا۔ وہ صاف ستھرے لباس میں تھا۔ اس نے مجھے صبح بخیر کہا اور پوچھا کہ رات کیسے گزری۔ اس کے بشر سے ٹپک رہا تھا کہ وہ رات بھر جاگتا رہا ہے۔ اتنے میں خون چوسنے والی خادمہ بھی ناشتے کا طشت تھامے آگئی۔ اس کی آنکھیں بھی شب بیداری سے گلابی ہورہی تھیں۔
میں نے ناشتہ کرتے ہوئے کاؤنٹ سے پوچھا کہ بندرگاہ سے اس کا خاص آدمی کشتی لے کر جزیرے پر کس وقت پہنچنے وال اہے۔ کاؤنٹ نے صاف ستھرے رومال سے اپنے ہونٹوں کو بڑی نفاست کے ساتھ پونچھا اور بولا
’’شام تک اس کے پہنچنے کی امید ہے۔ میں خود بھی چاہتا ہوں کہ تم بندرگاہ پر پہنچ جاؤ کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم یہاں اداس ہوگئے۔‘‘
میں جانتا تھا کہ کاؤنٹ مجھے جلدی سے جلدی وہاں سے کیوں نکالنا چاہتا ہے۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا
’’نہیں کاؤنٹ ایسی بات نہیں ہے۔ تمہاری مہمان نوازی او راس پر سکون محل کے سکون ماحول نے میرے دل کو موہ لیا ہے۔ میں یہاں کئی مہینے رہ سکتا ہوں۔‘‘
اس پر کاؤنٹ کے چہرے پر ناگواری کے احساسات ابھر آئے پھر بھی مسکراتے ہوئے کہا
’’میرا غریب خانہ تمہارے لئے حاضر ہے مگر۔۔۔ مگرمیں خود ازابیلا کے اعتکاف میں بیٹھنے کے بعد دو ایک روز میں یہاں سے لزبن چلا جانا چاہتا ہوں۔ اپنی بھانجی کے بغیر میرا دل بہت غمگین ہے۔ میرے جانے کے بعد تم خود کو یہاں بہت اکیلا اکیلا محسوس کرو گے۔ لزبن پہنچ کر مجھے ضرور ملنا میں تمہیں شہر کی سیر کراؤں گا۔‘‘
میں سب کچھ سمجھ رہا تھا کہ وہ میرے وہاں رہنے پر کیوں پریشان ہوگیا ہے۔ میں نے جلدی سے کہا
’’کاؤنٹ، تمہاری میزبانی کا شکریہ میں خود زیادہ دنوں تک نہیں رہ سکتا مجھے اندلس اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے جاکر ملنا ہے جو میرے اندلس نہ پہنچنے پر پریشان ہوں گے۔‘‘
اس کے بعد میں نے باتوں ہی باتوں میں پتہ چلالیا کہ اس کا خاص آدمی کشتی لے کر جزیرے کے شمال کی جانب ایک گھاٹ پر اترے گا۔ اس کے ہمراہ مسلح محافظ بھی ہوں گے۔ جو گھاٹ پر ہی ٹھہریں گے۔ کاؤنٹ کی زبانی معلوم ہوا کہ اگرچہ محل میں دو تین چوکیدار ہی تھے مگر محل کے پیچھے ایک خاص مقام پر اس کا ایک حفاظتی دستی ہر وقت چوکس رہتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ جب بحری ڈاکوؤں نے قلیع پر حملہ کیا تو اس وقت یہ حفاظتی دستہ کہاں تھا؟
کاؤنٹ نے کہا ’’بحری ڈاکوؤں کی تعداد زیادہ تھی۔ پھر بھی میرے جانبازوں نے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کیا اور کچھ مارے بھی گئے لیکن بحری ڈاکوؤں کا مقابلہ کرنا کوئی آسان بات نہیں ہوتی یہ بڑے چھٹے ہوئے شمشیر زن ہوتے ہیں۔ اب میرا ارادہ ہے کہ بندرگاہ سے فوج کی ایک خاص نفری بھرتی کرکے یہاں اپنی حفاظت کے لئے رکھوں ۔‘‘
ناشتے کے بعد کاؤنٹ بحری جہاز کی تزئین و آرائش کا کہہ کر ساحل سمندر کی طرف چلا گیا۔ اس کے جانے کے کچھ دیر بعد میں نے دو روٹیاں اور پھل کاغذ میں لپیٹا اور قبرستان کی طرف آگیا۔ ازابیلا تنے کے شگاف میں نہیں تھی، مجھے تشویش ہوئی، دیکھا تو وہ درختوں کے درمیان میں چلی آرہی تھی۔ میں نے اسے دبے لہجے میں ڈانٹا کہ اس طرح کھلے بندوں جزیرے میں نہیں پھرنا چاہیے۔ وہ مسکرائی اور بولی
’’کاؤنٹ کو میرے بارے میں آج آدھی رات کے بعد پریشانی شروع ہوگی جب وہ مجھے زمین دوز تہہ خانے میں نہیں پائے گا۔ ابھی تک وہ مطمئن ہے کہ میں تہہ خانے میں لیٹی ہوں۔‘‘
میں نے ازابیلا کو روٹی اور پھل دئیے تو اس نے بتایا کہ جزیرے میں اس نے جنگلی پھل کھا کر چشتمے کا پانی پی کر اپنی بھوک پیاس دور کرلی ہے۔ میں نے کہا اسے دوپہر کے لئے اپنے پاس رکھو، تمہیں پھر بھی تو بھوک لگے گی۔ ازابیلا گھاس پر بیٹھ گئی اور کہنے لگی ’’مجھے بھوک اب نہیں لگتی مگر پیاس بہت لگتی ہے۔‘‘
میں نے اسے بتایا کہ کاؤنٹ نے تصدیق کردی ہے کہ اس کا آدمی دو مسلح نوجوانوں کے ساتھ کشتی لے کر شام کو جزیرے پر پہنچ جائے گا۔ وہ مجھے جلد سے جلد یہاں سے رخصت کرنا چاہتا ہے۔ ازابیلا نے مسکرا کر پوچھا ’’تم اس کی راہ میں رکاوٹ ہو۔ تمہاری وجہ سے اسے اپنے راز کے طشت ازبام ہونے کا خطرہ ہے۔‘‘
ازابیلا کے چہرے پر گشتہ روز والی نقاہت اور کمزوری نہیں تھی، وہ بڑی ہشاش بشاش تھی۔ ظاہر ہے وہ کاؤنٹ کی قید سے آزاد ہوگئی تھی اور آزادی ہمیشہ مسرت و شادمانی کا پیغام لاتی ہے۔ وہ مجھ سے دریافت کرتی رہی کہ میں نے کشتی پر قبضہ کرنے کی کیا ترکیب سوچی ہے، کیا منصوبہ بنایا ہے؟ میرے دماغ میں ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں تھا، میں نے اسے تسلی دی کہ بہرحال آج رات ہم اس جزیرے سے نکل جائیں گے۔(جاری ہے)