”تتلیوں کے تعاقب میں“ 

Aug 20, 2024

ڈاکٹر فوزیہ تبسم

  

شگفتہ ہاشمی سے میری ملاقات کئی برسوں پر محیط ہے۔ معلمہ کی حیثیت سے تو میں انہیں جانتی تھی مگر ان کے شعری مجموعہ ”تتلیوں کے تعاقب میں“  پڑھنے کے بعد ایسا لگا کہ جیسے اُن کی شاعری بلکہ اُس کا ہر مصرعہ اُس کی اپنی سرگزشت ہے۔ شگفتہ غزل تتلیوں کے تعاقب میں عرصہ دراز پہلے روانہ ہوئی تھیں یہ عمر کا وہ حصہ ہے کہ جب تتلیاں کبھی کتابوں کی زینت بن جاتی ہیں اور کبھی اُس کے تعاقب میں انسان خوشبو وادیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ جہاں پھولوں کی مہک رنگوں کی دھنک انسانی جذبوں کو نئے ڈھنگ سکھا دیتی ہے۔

شگفتہ غزل ہاشمی ملک کے نامور شاعرنقش ہاشمی کی صاحبزادی ہیں اور ہمارے ملک کے نامور شاعر، معلم اور کالم نگار مظہر جعفری کی زوجہ ہیں۔ ان کا گھرانہ آج بھی علم و ادب کی آبیاری کررہا ہے۔ ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں کہ یہ ایسا گھرانہ ہے جس کا ہر فرد علم و دانش کی صفات سے مالامال ہے۔

میرے نزدیک شاعر شعور و آگہی کا نمائندہ ہوتا ہے وہ عالمِ اسباب و تعلقاتِ زندگی سے رشتہ جوڑ کر دنیا کے نظام،حُسنِ فطرت اور انسانی معاشرت و تہذیب اور رویوں کو سمیٹ کر بیان کرتا ہے جہاں ہم اپنی ذات اور حسنِ فطرت کا موازنہ کرتے ہیں۔ہم شگفتہ ہاشمی کو اُن کی توانائیوں کے ساتھ یوں دیکھ سکتے ہیں۔

کہانی بے مزہ بھی ہو تو یہ فن ہے مصنف کا

وہ اس کا خوبصورت سا کوئی عنوان لیتے ہیں 

وہ مجھ کو چھین لینا چاہتا ہے خود مجھی سے ہی

غزل جو دیوتا ہوتے ہیں بھاری دان لیتے ہیں 

شاعری الہامی کیفیات کا نام ہے شگفتہ کی شاعری میں ہم ان تمام کیفیات سے گزرتے ہوئے زندگی کی حقیقتوں کی سچائیوں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں تخیلات حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں، شعر ملاحظہ ہو:

اک گاؤں کی پاگل لڑکی

پتھر سے سرپھوڑ رہی تھی

پردیسی کی چاہت پا کر

ساری رسمیں توڑ رہی تھی

مر ہی نہ جاؤں رستہ تکتے

ہاتھ وہ کیسے جوڑ رہی تھی

پگلی نار چکوری ہو کر

چاند کی جانب دوڑ رہی تھی

شگفتہ نے اپنے لفظوں کو اعتبار بخشا ہے وہ غربت، امارت، طاقت اور انسانی جذبہ و احساس کا ایسا عالم اور فضاء بناتی ہیں کہ بہت سے راہ گزاروں کے انکشافات کھلنے لگتے ہیں۔

پھر موسمِ بہار سے مہکا ہے پھول پھول

دکھ اُن کا ہے جو شاخ سے پتے جھڑے ملے

بھولی ہے رستہ پھر کوئی پنہارتی غزل

ساحل پہ آج پھر کئی ٹوٹے گھڑے ملے

ان اشعارکو پڑھ کر مجھے مصطفےٰ زیدی کا یہ شعر یاد آ گیا:

کچے گھڑے نے جیت لی ندی چڑھی ہوئی

مضبوط کشتیوں کو کنارہ نہیں ملا

شگفتہ غزل کے وقت، حالات و واقعات سے پوری طرح آگاہ ہیں ان کی شاعری اُداس منظر، ملال اور نئی کہانیاں بیان کرتی نظر آتی  ہے جو سماجی تغیر کی طرف اشارہ ہے۔

نہ کچھ ایسا نہ کچھ ویسا ہوا ہے

نہ جانے سانحہ کیسا ہوا ہے

ہیں گم سم شہر کی سب شاہراہیں 

کوئی تو واقعہ ایسا ہوا ہے

ان کی شاعری معاشی اور سیاسی اسباب سے پیدا ہونے والی صورت حال کی بھی غمازی کرتی ہے، آج ہمارا ملک جس معاشرتی، تہذیبی اور سماجی سطح پر بددیانتوں اور فریب کاریوں سے گزر رہا ہے اس کی عکاسی کچھ یوں کرتی نظر آتی ہیں:

آندھی میں کوئی دیپ جلانا نہیں اب کے

سوچا ہے در و بام سجانا نہیں اب کے

برسات یہ ڈھا جائے گی کچے گھروندے

لگتا ہے کہ ساون کا ڈھکانا نہیں اب کے

شگفتہ کی شاعری زندگی کی شاعری ہے وہ حسن و عشق گل و بلبل کی شاعری نہیں کرتیں وہ زمانے کے بدلتے رجحانات کی بھی ترجمانی کرتی ہیں ان کے اشعار عورت کے جذبات و احساسات کی بھی عکاسی کرتے ہیں۔

بھنور میں ہوں سفینہ چاہتی ہوں 

میں جینے کا قرینہ چاہتی ہوں 

مرے من کی انگوٹھی میں سجے جو

وہ نینوں کا نگینہ چاہتی ہوں 

ان کی شاعری میں غمِ جاناں  غمِ دوراں کا اضطراب بھی ہے فکر کی گہرائی بھی ہے اور تجربات و مشاہدات کی عکاسی بھی ہے۔ ان کی شاعری حوصلہ مندی جرائت مندی کی آئینہ دار ہے۔

ماں کہتی ہے

آٹا ملنا مشکل ہے

چینی چاول اپنے بس سے باہر ہیں 

دالیں بھی سونے کے بھاؤ بکتی ہیں 

آدھی آدھی روٹی کھا کر چپکے چپکے سو جاؤ

شگفتہ نے غزل کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی لکھی ہیں جن میں مختلف کیفیات کی جھلک اور منظر نگاری بھی ملتی ہے۔ شعر کی بنیادی خوبی تو یہی ہے کہ وہ نہ صرف مزہ دیتا ہے بلکہ ذہن کی کتاب میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جاتا ہے۔

ان کے تمام اشعار میں زندگی کے نشیب و فراز دھوپ چھاؤں،جھوٹ سچ، منافقتیں، طنز، شعور آگہی کچھ اس طرح ملتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔

ماں نے کہا تھا

میرے بعد بھی اس گھر میں تم پیارسے رہنا

قبر پہ میری بے شک آنا یا نہ آنا

میری قبر کا سبزہ ہر دم سبز رہے گا

جب تک تم میں پیار کی اک بھی بوند رہے گی

اس کا کہنا سچ تھا لیکن اب کے برس

بکھری بکھری سوچیں لے کر

میں اس کی مرقد پر پہنچی جب 

میں نے دیکھا بند آنکھوں سے

ہاتھ اُٹھا کر فاتحہ خوانی کر بیٹھی تو

جیسے زمیں پیروں کے نیچے سرک رہی تھی

اس کی قبر کا سبزہ اب کے 

سوکھ گیا تھا۔

حرف کو لفظ اور لفظ کو احساسات کا فاصلہ طے کرتے ہوئے کبھی کبھی عمریں بیت جاتی ہیں مگر میں سمجھتی ہوں کہ شگفتہ غزل نے اپنے شعری مجموعے کو منظر عام پر لا کر شعری خلوص سے بے وفائی نہیں کی۔

  

مزیدخبریں