فلم ’’انتظار ‘‘ہی کی بات ہے کہ ہم لوگ آؤٹ ڈور شوٹنگ کیلئے مانسہرہ اور اس سے آگے جنگلات تک گئے۔ ہم آؤٹ ڈور شوٹنگ پر بھی ساتھ ہی چلے جاتے تھے۔ کیونکہ مل کر کام کرتے تھے ۔ حتیٰ کہ کہانی لکھنے والا بھی ساتھ چلے جاتا تھا۔ اس طرح نہیں جیسے آج کے کہانی نگار کرتے ہیں کہ وی سی آر پر دو چار فلمیں دیکھیں اور ایک فلم نکال کر پروڈیوسر کو دیدی۔ ہم سو چ کر اور بڑی محنت کر کے کام کرتے تھے اس لیے باہر بھی ساتھ ہی چلے جاتے تھے۔ دوسری بات یہ تھی کہ فلم ’’انتظار ‘‘ میں ہیرو کے بچپن کا رول میرے بیٹے پرویز نے کیا تھا جو آج کل گلا سگو میں ہے اور بچوں کا باپ ہے۔ اس وقت وہ بچہ تھا۔
ہم نے دو جگہ پڑاؤ رکھے ہوئے تھے۔ ایک مانسہرہ کے ڈاک بنگلہ میں اور دوسرا گڑھی حبیب اللہ کے ڈاک بنگلہ میں۔ گڑھی میں میں سنتوش کمار، مسعود پرویز، خورشید احمد اور پروڈیوسر جیلانی ٹھہرے تھے۔ باقی تمام سٹاف مانسہرہ میں رہتا تھا۔ اس سفر میں مسعود پرویز کو سٹڈی کرنے کا بہت موقع ملا۔ یہ بڑے پڑھے لکھے ہوئے آدمی تھے۔ انہیں بھی موسیقی اور ادب سے گہرا شغف تھا۔ تھیوری کے علاوہ عملی طور پر بھی موسیقی کوسمجھتے تھے۔
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 105 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
پینے کے سلسلے میں جتنا بالانوش میں نے مسعود پرویز کو دیکھا کم لوگوں کو دیکھا ہے۔ وہ پیتے ہی چلے جاتے تھے۔ اور اپنی جگہ پر قائم رہتے تھے۔ آؤٹ ہونے کی ان کی ایک ہی علامت تھی اور کہتے تھے کہ غالب کا شعر آپ نے سنا ہے:
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں
پھر غالب کی تعریف کرتے ہوئے کہتے کہ واہ واہ غالب انسان کی کیا نفسیات جانتا تھا۔ باتیں کرتے کرتے درمیان میں غالب کے اشعار کا ذکر شروع کر دیتے تھے اور بار بار اسی شعر کا حوالہ دیتے رہتے تھے۔ بات کوئی بھی ہوتی وہ تھوڑی دیر کے بعد کہتے کہ آپ نے شاید غالب کا وہ شعر نہیں سنا۔ پھر یہ شعر سناتے اور کہتے کہ واہ واہ غالب نے کیا نفسیات بیان کی ہے۔ یہ بھول جاتے تھے کہ پہلے بھی یہ شعر سنا چکا ہوں۔ یہ چار چار پانچ پانچ بار ایک ہی شعر سناتے رہتے تھے۔ ان کے آؤٹ ہونے کا یہی ثبوت تھا۔ وہ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے تھے بلکہ جب آؤٹ ہوتے تو یا تو کوئی کوٹیشن لے لیتے اور یا پھر کوئی شعر اور بار بار وہی سناتے رہتے اور اس کی تعریف کرتے رہتے۔ اب تو کئی اور لوگوں کی طرح وہ بھی وہسکی سے دور ہٹ گئے ہیں اور سنا ہے کہ اب وہ علمی کام کر رہے ہیں۔ وہ آج کل امریکہ میں اپنی بیٹی کے پاس ہوتے ہیں۔
جن میوزک ڈائریکٹر وں کے ساتھ مجھے کام کرنے کا موقع ملا ان کی فہرست بہت لمبی ہے ۔ میرے پہلے میوزک ڈائریکٹر شام سند رتھے۔ جو پارٹیشن سے پہلے شروع ہونے ولی ایک فلم میں میرے ساتھی تھے۔ یہ فلم مکمل نہیں ہو پائی تھی۔ شام سندر بھی خوب پینے والے تھے اور دن میں بھی پیتے تھے لیکن ان کے فن کے عروج کا یہ معاملہ تھا کہ جہاں کسی کی سوچ دنوں میں پہنچتی تھی وہ وہاں گھنٹوں میں پہنچ جاتے تھے۔ میں نے سن رکھا تھا کہ فلم انڈسٹری میں شاعر کی اچھی خاصی گت بنتی ہے اور میوزک ڈائریکٹر اسے اچھی طرح ستاتا ہے ۔ اور جو شاعر لکھ کر دے میوزک ڈائریکٹر کہتا ہے کہ اسے یہاں سے تبدیل کر دو یا وہاں سے تبدیل کر دو۔ اس لیے میں سہا ہوا تھا۔
ہرچند کہ فلم کے ڈائریکٹر ایک پڑھے لکھے نوجوان محبوب اختر تھے اور میرا واسطہ انہی سے تھا لیکن میوزک ڈائریکٹر کاخوف میرے ذہن میں تھا۔ یہاں لاہور میں ہال روڈ، میکلوڈ روڈ لنک پر کونے والی سرخ بلڈنگ میں جہاں کبھی راشتنگ کا دفتر بھی رہا ہے۔ وہاں فلم کا دفتر تھا اور وہیں میرا شام سندر سے تعارف کروایا گیا۔ محبوب اختر نے میرا لکھا ہوا پہلا گیت پسند کیا تھا۔ ڈائریکٹر کو او کے کردے تو معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن اس زمانے میں بھی کچھ ایسے میوزک ڈائریکٹر ہوتے تھے کہ اگر ان سے ٹیون نہ بن پاتی تو شاعر سے کہتے کہ ایک گیت اور لکھ دیجئے۔
ملاقات ہو چکی تھی۔ بیسمنٹ میں میوزک روم تھا۔ میں وہاں گیا اور شام سندر کو جا کر گیت دیتے ہوئے کہا کہ ڈائریکٹر صاحب نے یہ گیت او کے کر دیا ہے۔ اب اگر آپ کو اس میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہو تو مجھے بے تکلفی سے بتائیے میں حاضر ہوں۔ پہلے تو وہ میرے منہ کو دیکھتے رہے۔ کیونکہ بہت پئے ہوئے تھے۔ اور پھر کہنے لگے ’’ دیکھو شاعر صاحب! میں وہ نہیں ہوں (خود کو گالی دی ) بلکہ میں تو میوزک ڈائریکٹر ہوں۔ آپ نے تو یہ گیت کسی قاعدے میں لکھا ہو گا آپ مجھے اخبار کی کٹنگ لا دیجئے اور ایک ایک کٹنگ کی پندرہ پندرہ ٹیونین بنوالیجئے۔ وہ کوئی میوزک ڈائریکٹر ہوتا ہے جو شاعر سے کہے کہ ذرا تبدیل کردو۔ آپ نے جو بھی لکھا ہے اس کی ٹیون بنے گی۔ اب آپ یہیں بیٹھے رہئے اور سنئے‘‘
انہوں نے گیت پڑھا ۔ اس گیت کے پس منظر میں قحط بنگال کا واقعہ تھا۔ میں نے اسی پس منظر میں لکھا تھاکہ
ماتا دیکھ اپنی سنتان
تیری بیٹی لاج لٹائے تجھ کو لاج نہ آئے
ان جل دے کر جیون چھینے دھن والوں کے دان
ماتا دیکھ اپنی سنتا
اس قحط کے دوران عورتوں کی عزتیں بکی تھیں اس لیے میں نے اس گیت میں سرمایہ داری اور غربت کا ذکر کیا تھا۔ کہنے لگے کہ ’’شاعر صاحب ! گیت تو بڑا زور دار لکھا ہے مجھے اس پر ذرا سوچنا پڑے گا۔‘‘ میں نے کہا کہ آپ سوچنے میں پھر آجاتا ہوں۔ کہنے لگے نہیں آپ یہیں بیٹھئے میں ابھی سوچتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے پہلی ٹیون بنائی میں نے کہا کہ بہت اچھی ہے ۔ کہنے لگے کہ مجھے خوش کرنے کیلئے کہہ رہے ہیں یا واقعی اچھی ہے میں نے کہا اچھی ہے ۔ کہنے لگے کہ شاعر صاحب! پہلی بار آپ نے کہا کہ بہت اچھی ہے اب کہہ رہے ہیں اچھی ہے۔ مجھے شروع میں وہ شاعر صاحب ہی کہتے تھے کیونکہ پہلی دو تین ملاقاتوں میں ان کی زبان پر میرا نام قتیل شفائی نہیں چڑھ رہا تھا۔
انہوں نے اس ٹیون کو رہنے دیا۔ اور ایک اور ٹیون بنائی ۔ اس کے بعد ایک اور ٹیون بنائی۔ یوں انہوں نے آدھے گھنٹے میں تین ٹیونیں بنا دیں۔ اور سب ایک دوسرے سے بہتر تھیں۔ زندگی میں کسی بھی شعبے میں جو پہلا شخص آتا ہے وہ یاد رہتا ہے ۔ ان سے میری دوستی ہو گئی۔
شام سندر کو پینے کے بعد کی عادتیں بہت بری تھیں۔ جب وہ زیادہ پی لیتا تھا تواسے عورت کی تلاش ہوتی تھی۔ اور وہ اسے ڈھونڈنے نکل جاتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عورتوں کو زیادہ ڈھونڈنا نہیں پڑتا تھا اور کچھ آوارہ عورتیں ہوٹلوں میں مل جاتی تھیں۔سڑکوں پر بھی مل جاتی تھیں۔ شام سندر کہیں نہ کہیں سے کوئی اپ ٹو ڈیٹ سی عورت لے آئے تھے۔کبھی مال روڈ سے ،کبھی رائل پارک سے۔ مجھے اس بات کا شروع میں علم نہیں تھا۔ اصل میں میں رتن سینما کے بالکل سامنے یونیورسل ہوٹل میں ٹھہرا ہوا تھا جس کا نام بعد میں بیت القیام ہو گیا تھا اور یہ سرائے سی بن گئی تھی۔ اس میں فلم کے درمیانے درجے کے لوگ رہتے تھے۔(جاری ہے )
قتیل شفائی کی آپ بیتی. . .قسط نمبر 107 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں