سیاح گھنٹوں قطار بنائے منتظر رہتے تھے، میں نے ذہنی طور پر اپنے آپ کو تھکا دینے والے سفر کیلئے تیار کر لیا تھا، کب آنکھ لگی پتہ ہی نہیں چلا
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:69
اس کا پروگرام تھا کہ وہ مجھے ایک بار پھر دریائے نیل کے اس پار مغربی پہاڑیوں کی طرف لے جائے گا جہاں سے ہم مختلف فرعون بادشاہوں اور ان کے مقبروں میں داخل ہو کر وہاں کے اندرونی ماحول کا جائزہ لیں گے، جن میں سے کچھ تو اتنے بڑے ہیں کہ ایک ایک مقبرے کو دیکھنے میں کئی کئی گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ خاص طور پر حضرت موسیٰؑ والے فرعون بادشاہ رعمیس ثانی کا مدفن اور بادشاہ توتنخامون (King Tut) کا ادھورا مقبرہ تو دیکھے جانے کے قابل ہے، اور اسی کے لئے خلقت یہاں ٹوٹی پڑتی ہے۔ یہ مقبرہ پچھلی صدی کے آغاز میں اچانک دریافت ہوا تھا۔ جس میں سے اتنے نایاب اور قیمتی نوادرات نکلے تھے کہ قاہرہ کا پورا عجائب گھر ان سے بھر گیا تھا اور پھر اتنا کچھ ہی اس وقت کے سامراجی حکمران اپنے اپنے ملکوں میں لے گئے تھے اور اب تو اس مقبرے میں سوائے درو دیوار اور وہاں پڑے ہوئے ایک تابوت کے کچھ بھی باقی نہ بچا تھا۔ اس کے باوجود سیاح گھنٹوں قطار بنائے اندر جانے کے منتظر رہتے تھے۔ میں نے بھی ذہنی طور پر اپنے آپ کو ایک تھکا دینے والے سفر کے لئے تیار کر لیا تھا۔
احمد نے اجازت چاہی، میں نے اسے کھانے میں شرکت کی دعوت دی لیکن وہ جلدی میں تھا کیونکہ اس کے گاؤں کے طرف جانے والی آخری بس کچھ ہی دیر بعد روانہ ہونے والی تھی۔ میں بڑی دیر تک لابی میں بیٹھا باہر اور اند رکی رونقیں دیکھتا رہا۔ ڈائننگ ہال میں غیر ملکی سیاحوں کے ٹولے خوش گپیوں میں مشغول تھے۔ میں نے بھی وہیں رات کا کھانا قبل از وقت منگوا کر کھایا اور اپنے کمرے میں آکر لیٹ گیا اور بڑی دیر تک آج دیکھے جانے والے مقامات کے بارے میں سوچتا رہا اور کب آنکھ لگی پتہ ہی نہیں چلا۔
مردہ شاہوں کے مقابر
پروگرام کے مطابق صبح9بجے ہم ایک بار پھر کشتی گھاٹ پہنچ گئے۔ ہمیں آج ایک بار پھر دریا کے اس پار جانا تھا۔ 2 دن میں یہ تیسرا موقع تھا کہ ہم اس خوبصورت دریا کو عبور کرنے جا رہے تھے۔ دوسری طرف فرعون بادشاہوں اور ان کی ملکاؤں کے مدفن اور مقبرے ہماری آمد کے منتظر تھے۔
میں بھی بڑا ہی متجسس تھا کیونکہ زیادہ تر مقابر وقت کے ساتھ ساتھ ٹوٹ پھوٹ گئے تھے، تاہم ان میں سے کچھ ابھی بھی اپنی اصلی اور بہترین حالت میں موجود تھے۔ دریا کے اس پار پہاڑیوں کا ایک سلسلہ چلتا تھا جس کو واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ایک حصہ بادشاہوں کے مدفنوں کے لئے اور دوسرا ملکاؤں کے مقبروں کے لئے مخصوص تھا۔ اسی حصے میں فرعون بچوں حتیٰ کہ نومولود اور اسقاط شدہ بچوں کی ممیاں بھی رکھی ہوئی تھیں۔ ہم نے سب سے پہلے بادشاہوں کے مقبروں کی طرف جانے کا ارادہ کیا،جسے بادشاہوں کی وادی یا "Valley of the Kings" کا نام دیا گیا ہے۔ حالانکہ عمومی طور پر یہاں کے زیادہ تر مقبرے بادشاہوں کے لئے مختص ہیں، تاہم اس جگہ چند طاقتور مصری ملکائیں بھی دفن ہیں۔ہو سکتا ہے کہ اس وقت تک بادشاہوں اور ملکاؤں میں کوئی تخصیص نہ کی گئی ہو۔
ویسے تو اس علاقے میں کوئی63 کے قریب مقبرے تھے، لیکن ان میں سے چند ایک ہی مشہور تھے جو سیاحوں کیلئے کھولے گئے تھے باقی ٹنوں ریت کے نیچے دب گئے تھے یا انہیں حکومت نے ان کی خستہ حالی کی بدولت بند کر رکھا تھا۔ ویسے بھی سیاح عام طور پر تفصیل سے سارے مقبروں کو نہیں دیکھنا چاہتے تھے کیونکہ ہر جگہ تقریباً ایک جیسا ہی ماحول تھا۔دوسرا اتنا وقت بھی کس کے پاس تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں