سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 15

Sep 20, 2019 | 12:09 PM

مبین رشید

418ھ میں سلطان محمود غزنوی نے ابوالحرب ارسلان کو امیر طوس مقرر کیا کہ دریائے مویہ(جیحون)سے سلجوئی اُتر کر ملک میں فساد کرتے ہیں‘اُن کا خاتمہ کرے۔ امیر طوس نے جنگ ہائے عظیم کے بعد لکھا کہ جب تک سلطان خود یہاں رونق افروز نہ ہوں گے‘سلجوقیوں کا فساد ممکن نہیں۔ یہاں رے میں مجدالدولہ فخر اکدولہ کی کم سنی کے سبب سے اُس کی ماں سیدہ سلطنت کرتی تھی۔ وہ ہر روز دربار کرتی پردہ کے پیچھے بیٹھ کر وزراءسے باتیں کرتی۔ اطراف سے جو خطوط آتے، اُن کا جواب بغیر کسی مدد کے لکھوا دیتی۔ سلطان محمود غزنوی نے اس کو خط لکھا کہ اُس کے نام کا سکہ و خطہ اپنے ملک میں جاری کرے یا جنگ لیئے آمادہ ہو۔ سیدہ نے جواب میں لکھا کہ جب تک میرا شوہر زندہ تھا‘مجھے اندیشہ تھا کہ اگر سلطان عاقل و فرزانہ ہے اور جنگ دوسردارو۔۔ اگر مجھ پر ظفر ہوئی سلطان کا اس سے کچھ نام نہ ہوگا کہ ایک بیوہ عورت پر فتح پائی۔ اگر مجھ سے شکست پائی تو قیامت تک اس بدنامی کا داغ محونہ ہوگا۔(ع چہ مروی بود کزز نے کم بود۔) سلطان اس جواب کو سن کر اُس کی خصومت سے درگز رہا مگر جب وہ مرگئی اور مجداکدولہ کو اختیار ہوا تو ملک میں ہرج ہرج ہونے لگا۔ 420ھ کے اوائل میں غزنی سے عراق کے ارادہ سے روانہ ہوا۔ مازندران میں جب آیا تو شمس المعالی قابوس سلطان سے ملا۔ اور بہت تحفے تحائف نذر دیئے۔چند روز کے بعد وہ کسی تو ہم کے سبب اپنے ملک چلا گیا۔ مگر سلطان کے پاس چار ہزار دینار اور سپاہ بھیج گیا پھر معذرت نامہ ایسا لکھا کہ سلطان بھی اُس کے پیچھے نہیں پڑا۔ مجدالدولہ کتابیں بہت پڑھا کرتا تھا۔ اُس نے بھی سلطان محمود غزنوی کو اپنی سپاہ کی شکایت میں خط لکھا۔ سلطان کی جب یہ حال معلوم ہوا تو ایک لشکرِ گراں رے کو روانہ کیا اور امیر لشکر کو ہدایت کی کہ ایسی سعی کرے کہ مجدالدولہ ماخوذ و مقید ہو جائے۔ جب لشکرِ سلطانی رے میں آیا تو مجدالدولہ اس سے ملا۔ حاجب سلطان کہ امیر لشکر تھا‘ اُس نے مجدالدولہ اور اُس کے بیٹے ابو دلف کو گرفتار کرلیا۔ جب سلطان کو یہ خبر ہوئی تو وہ بلا توقف رے میں آیا اور خزانہ رے سے بہت دولت و جواہر اورجامہ ابرلشمیں سلطان کے پاس لائے۔سلطان نے مجدالدولہ کو بلاکر پوچھا کہ شاہنامہ تاریخ ملک فرس ہے۔ اور تاریخ طبری جس میں ارباب اسلام کے وقائع لکھے ہیں پڑھی ہیں اُس نے کہا کہ ہاں سلطان نے پوچھا کہ شطرنج بھی کھیلی ہے کہا ہاں۔ پھر سلطان نے کہا کہ کسی کتاب میں یہ بھی پڑھا ہے کہ ایک ملک میں دو بادشاہ حکومت کرتے ہوں اور بساط شطرنج میں دو شاہ ایک خانہ میں ہوں۔ اُس نے کہا کہ نہیں۔سلطان نے کہا کہ پھر تونے کس واسطے اپنا اختیار دوسرے شخص کو دیدیا جو تجھ سے زیادہ با اقتدار تھا۔ غزض مجدالدولہ اور اُس کے بیٹے اور نواب کو قید کرکے غزنی روانہ کیا اور خلیفہ قادر باللہ عباسی کو نامہ لکھا کہ ہم نے رے میں آکر مجدالدولہ کو گرفتار کیا۔ اُس کے گھر میں پچاس عورتیں تھیں‘جن میں سے تیس کے اولاد تھی۔ اس سے سوال کیا کہ اتنی بیویاں کس مذہب کے موافق تونے کیں۔اُس نے جواب دیا کہ ہمارے اسلاف کی یہی عادت اور رسم تھی۔ ایک جماعت فرقہ باطنیوں کی اُس کی ملازم تھی۔ اُس سب کو دار پر کھینچا اور رے میں جو معزلہ تھے‘اُن کے کوچے لگا کے خراسان بھیج دیا۔ کہتے ہیں کہ مجدالدولہ کے کتب خانہ میں کتابیں بہت تھیں۔اُن میں سے جن کتابوں میں اہل اعتزال اور حکما کے اقوال تھے اُن کو جلا دیا باقی کتابوں کو خراسان بھیج دیا۔ سلطان مسعود کو رے‘سپاہان سپرد کرکے اور ایران فتح کرکے غزنی لوٹا۔

سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 14 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جس وقت سلطان سومنات سے پھرا ہے خلیفہ القادرباللہ عباسی نے سلطان محمود غزنوی کو لقاب نامہ لکھا اور خراسان‘ہندوستان نیمر ور‘خوارزم کا لوا بھیجا اور سلطان کو کہف الدولہ والاسلام کا اور اُس کے بیٹے مسعود کو شہاب الدولہ والملتہ کا۔ دوسرے بیٹے امیر محمد کو جلال الدولہ و جمال الملتہ اور اُس کے بھائی امیر یوسف کو عضدالدولہ و موئدالملتہ کا لقب دیا اور یہ بھی اجازت دی کہ جس کو چاہو اپنا ولی عہد مقرر کرو۔ یہ نامہ سلطان کے پاس بلخ پہنچا۔
پچیس برس کے عرصہ میں جو سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر سترہ حملے کئے ان سب نتیجہ یہ تھا پنجاب کے مغربی اضلاع دولت غزنویہ کی تابع ہوگئے۔ مشرق میں‘قنوج میں جنوب میں اور گجرات میں سلطان کی تخت و تاربع کی یاد باقی رہی۔سلطان نے ہندوستان پر مستقل سلطنت کرنے کا قصد نہیں کیا۔(سلطان محمود غزنوی کے حملوں کے نتائج) پنجاب سے باہر جو اُس نے مہمات کیں‘اُن کا مقصد فرمانروائی کرنے سے زیادہ بت شکنی اور دولت گھسیٹنا تھا۔ باپ نے تو صرف پیشور میں چھاﺅنی ڈالی تھی‘بیٹے نے پنجاب کو سلطنت غزنویہ کا ایک تابع صوبہ بنا دیا۔
اہلِ عرب‘ایرانی اور ترک خواہ وہ شہروں میں رہتے ہوں یا صحرا نشین ہوں۔سلطان کی پوری پوری اطاعت کرتے تھے۔ بہت سے فرمان جو خود مختاری کے درجہ پر پہنچے ہوئے تھے۔ وہ بھی اُس کے حکم کو مانتے تھے غرض جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ کہاں کہاں مختلف قومیں اُس کی زیرِ فرمان تھیں تو اُس کے جاہ و جلال کا اندازہ ہوتا ہے کہ کیسا بلند بایہ تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے اپنی خاص حفاظت کیلئے ترک غلاموں کا پہرہ چوکی رکھا تھا۔اس میں تاتاری سپاہی بھی ہوتے تھے۔اُس نے اپنی سلطنت کے مختلف حصوں میں فوج بھرتی کی تھی وہ سب کو ایک نگاہ سے دیکھتا اور سب کو برابر جانتا تھا۔ اُس نے ان سپاہیوں کے افسر ایسی فراست سے مقرر کئے تھے کہ جن کی ماتحتی میں سپاہ کام بہت دیتی تھی۔ پہاڑی سپاہ میں اُن کے موروثی افسر تھے جو کبھی اُن کو بغاوت نہیںکرنے دیتے تھے۔اکثر سپاہیوں کے افسروں کے ناموں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ترکی تھے۔ اُس نے بڑی وسیع سلطنت کا انتظام بہت تھوڑی فوج سے کرلیا تھا۔ ضرورت کے وقت فوج بھرتی لرلیا تھا۔ اگرچہ محمود غزنوی کی فوج میں کہیں یہ ذکر نہیں آیا کہ ہندوﺅں کی فوج نے بھی کوئی کام اس کی زندگی میں کی امگر بعد اُد کے غزنی کے انقلابات عظیم میں ہندی سپاہ نے بڑے بڑے کارنمایاں سرانجام دئے۔سلطان جب تک زندہ رہا ہندوﺅں سے خدمت کا کام لیتا رہا۔ کچھ مذہب و دین کا خیال نہیں کیا۔ اگرچہ اس کی سپاہ میں ترکی سب مسلمان تھے۔ مگر ان کے نام مسلمانوں جیسے نہ تھے۔ جس سے شبہ ہوتا ہے کہ وہ ترک بت پرست تھے مگر باموں سے ایسا سمجھنا غلط ہے۔ترکوں نے اسلام اختیار کیا لیکن اپنے نام رکھنے کا قدیمی طریقہ نہیں چھوڑا۔.
عظیم سلطنت کا آغاز
سبکتگین کی وفات کے موقع پر اس کا بڑا بیٹا محمود غزنوی نیشاپور میں تھا جب کہ سولہ سالہ چھوٹا بیٹا اسمٰعیل بلخ میں تھا۔ سبکتگین کی وصیّت کے مطابق امیر اسمٰعیل کو باپ کا جانشین بنا دیا گیا۔ ان دونوں بھائیوں میں ایک فرق یہ بھی تھا کہ محمود غزنوی کی ماں ایک زابلی شریف کی بیٹی تھی‘جب کہ اسمٰعیل کی ماں امیر الپتگین مرحوم والئی سلطنت غزنی کی بیٹی تھی۔ اس اعتبار سے حکومت پر اسمٰعیل کا حق فائق سمجھا جاتا تھا۔ بہر حال ان دونوں میں جانشینی کی جنگ ہوئی۔ محمود غزنوی کامیاب رہا۔ اسمٰعیل گرفتار ہوا اور ساری عمر قید میں رہا۔ جہاں اسے تمام سہولتیں دی گئی۔ غزنی کی ریاست پر قبضہ کرنے کے بعد محمود غزنوی نے اپنی ریاست کو ایک عظیم سلطنت میں تبدیل کرنے کی جدوجہد شروع کر دی۔ اس وقت تک سامانیوں کا شاہراہ ریشم پر سے قبضہ ختم ہو چکا تھا ان کی تجارت اور خوشحالی برباد ہو چکی تھی۔ سامانیوں کی جگہ ان تجارتی ریاستوں پر ترکستان کے سردار ایلک خان کا قبضہ ہو چکا تھا جس کی وجہ سے وہ بہت طاقتور ہوگیا۔ اس کا پایہءتخت کا شغر تھا۔ محمود غزنوی نے 997ءمیں سامانیوں کی گرتی ہوئی سلطنت کو ختم کیا‘اور ہرات‘بست‘کلخ‘اور خراسان پر اپنا اقتدار قائم کرلیا۔ اور ساتھ عباسی خلیفہ القادر باللہ کو اُس نے اپنی اطاعت و خدمت کی پیشکش کا خط لکھا چونکہ سامانی سلطنت پچھلے سالوں میں اتنی طاقتور ہو گئی تھی کہ خود خلیفہ کو اس سے خطرہ رہتا تھا اور خلیفہ القادر باللہ عباسی(991ئ۔1031ئ)لہ تخت نشینی کے موقع پر سامانیوں نے اس کی تخت نشینی خطرے میں ڈال کی تھی لٰہذا خلیفہ القادر نے خوش ہوکر محمود غزنوی کو ایک قیمتی خلعت بھی بھیجی اور امین الملت و یمین الدولہ کا خطاب بھی دیا۔ سیاسی طور پر اس کا مطلب یہ تھا کہ اس علاقے میں سامانیوں کی بجائے اب محمود غزنوی براہ راست خلیفہ کا نمائندہ تھا ان دونوں کے درمیان اور کوئی قانونی عہدیدار نہیں تھا۔ خلیفہ اور اس کے فوراً بعد محمود غزنوی نے سلطان کا لقب اختیار کیا‘جو اسلامی تاریخ میں پہلی بار کسی بادشاہ یا حکمران کا لقب بنا تھا۔اس کے بعد محمود غزنوی نے ہرات اور سیتان کے حکمران پر حملہ کرکے انہیں مطیع بنایا۔ 999ءمیں اس نے کاشغر کے حکمران ایلک خان سے دوستی کی اور اس کی بیٹی سے شادی کرلی۔ ساتھ ہی سامانی سلطنت کے حصّے علیحدہ کرکے خراسان اور ماوراءالنہر پر ایلک خان کا قبضہ تسلیم کیا۔ اس کی اور اپنی سلطنت کے درمیان آمودریا(دریائے جیحوں)کو سرحد تسلم کیا۔ اس نے پے در پے سامانی سلطنت کے ماتحت جتنے بھی حکمران خاندان تھے یا ریاستیں تھیں‘ ان سب کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ ایلک خان اور محمود غزنوی کے سیاسی اور خاندانی اتحاد کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ ترکستان کے لاکھوں افراد نے اسلام قبول کرلیا۔
تاریخ فرشتہ میں لکھا ہے کہ غزنی پہنچ کر محمود غزنوی ہندوستان کی طرف متوجہ ہوا اور ہندوستان کے چند قلعے فتح کرکے واپس آگیا حالانکہ ہنڈ کے قریب تک کا علاقہ تو سبکتگین فتح کر چکا تھا۔ بیز تاریخ فرشتہ میں یہ بھی ہے کہ سبکتگین نے ہندوﺅں کا مشہور بت خانہ’سودرہ کا مندر‘برباد کیا تھا۔ سودرہ سیالکوٹ کے نزدیک موجودہ سوہدرہ ہے اور پھر محمود غزنوی کی جے پال سے بڑی جنگ 1001ءمیں پشاور کے پاس ہوئی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سبکتگین کی فتح کے بعد یہ سارا علاقہ دربارِ غزنوی سے آزاد ہوگیا تھا۔ لٰہذا”یہ چند قلعے لمغان کے سرحدی علاقوں میں تھے“۔یہ قلعے اس نے 1000ءمیں فتح کئے۔ یہ اس کا ہندوستان پر پہلا حملہ تھا۔ محمود غزنوی عموماً ہندوستان پر سردیوں میں حملہ کرتا تھا۔ خزاں کے موسم میں یعنی موسم برسات میں وہ غزنی سے چلتا۔ سردیوں میں جنگیں کرتا اور اگلے سال مارچ اپریل میں واپس جاتا۔ کبھی دیر ہو جاتی تو مئی جون رستے میں گزر جاتے‘لٰہذا ہندوستان پر اس کا ہر حملہ دو عیسوی سالوں کے چند مہینوں پر پھیلا ہوتا تھا۔
بھاٹنہ پر حملہ
تیسرا حملہ محمود غزنوی نے 1004-5ءمیںبھاٹنہ پر کیا اور اسے فتح کرلیا۔ بھارتی مو¾رخین نے اس سے بھیرہ‘اُچ‘بھٹنڈہ اور دوسرے کئی شہروںپر قیاس کیا ہے۔ لیکن میری رائے ان سے مختلف ہے فرشتہ کہتا ہے وہ 395ھ میں غزنی سے بھاٹنہ روانہ ہوا بھر ملتان کی سرحد سے گزر کر بھاٹنہ میں مقیم ہوا۔ اب یہ لفظ بھاٹنہ ہے‘بھاٹیہ یا بھٹنیر ان میں بھاٹنہ دراصل بٹن منارہ تھا جو رحیم یار خان کے پاس ہے۔ حملے میں آنند پال کا کردار عجیب رہا ہے کیونکہ بھاٹنہ کا راجہ بجی رائے آنند پال کو خراج نہیں دیتا تھا اور اس نے محمود غزنوی کے افسروں کو بھی اردگرد کے علاقوں سے مار بھگایا تھا لٰہذا آنند پال نے محمود غزنوی کو مشورہ دیا کہ وہ اس پر حملہ کرے۔ محمود غزنوی1002ءمیں سیستان میں خونریز جنگ لڑ رہا تھا۔ تو پیچھے سے ہندوشاہیوں نے حملہ نہیںکیا۔ جب وہ سیستان سے فارغ ہوا تو اس نے آنند پال سے خراج مانگا۔ آنند پال نے کہا”مجھے تو بجی رائے خراج نہیںدیتا میں کہاں سے آپ کو رقم لے کر دوں“۔ چنانچہ اس اشارے سے محمود غزنوی نے بجی رائے پر حملہ کیا۔ جنگ میں محمود غزنوی کی فوج تقریباًشکست کھائی تھی لیکن پھر انہوں نے”سلطانی جنگ“....خودکشی کرلی۔ محمود غزنوی اس فتح سے واپس جا رہا تھا تو یہ مئی جون(1005ئ)کا مہینہ تھا۔ سب دریا طغیانی پر تھے۔ محمود غزنوی کے سینکڑوں فوجی ان دریاﺅں میں غرق ہوگئے اور کروڑوں کا مالِ غنیمت لہروں میں بہہ گیا۔ اس حالت میں بھی آنند پال نے کوئی حملہ نہ کیا۔ لیکن ملتان کے اسماعیل امیرالفتح داﺅد نے بار بار حملے کئے اور اس کی فوجوں کو کافی نقصان پہنچایا۔ امیر ابوالفتح داﺅد بن نصر شیخ حمید کا پوتا تھا۔ جس نے سبکتگین کی اطاعت قبول کی تھی اور جو اسے خراج دیا کرتا تھا۔
ملتان پر حملہ
1006ءمحمود غزنوی نے ملتان پر حملہ کیا۔ اس نے انند پال سے دریائے سندھ کو ہنڈ کے مقام پر عبور کرنے اور اس کی سلطنت میںسے گزر کر ملتان پر حملہ کرنے کی اجازت مانگی۔آنند پال نے نہ صرف اجازت دینے سے انکار کیا بلکہ اس نے بھٹنڈہ کے راجہ سے مدد مانگی۔ ابوالفتح داﺅد کی فوجوں کو ساتھ لیا۔ اُوبھنڈ پور کے مقام پر محمود غزنوی کو راکنے کی کوشش کی۔ اس جنگ میں متحدہ پنجابی فوجوں کو شکست ہوگئی۔ آنند پال نے راہ فرار اختیار کی۔ سلطان محمود غزنوی کے ایک دستے نے اس کا پیچھا کیا۔ سودرہ پہنچ کر آنند پال نے اپنے پایہءتخت جانے کی بجائے کشمیر کا رخ کیا اور وہیںرو پوش ہوگیا۔ سلطان محمود غزنوی نے آگے بڑھ کر ملتان کا محاصرہ کیا۔ عنصری کے مطابق ملتان کے رستے میں اس نے دو سو قلعوں پر قبضہ کیا۔ جس کا مطلب ہے دو سو جاگیرداروں کے محل‘ملتان کا محاصرہ سات دن جاری رہا۔آٹھویں دن ابوالفتح نے ہر سال دس ہزار”مہریں“دینے کا وعدہ کرکے اطاعت قبول کی اور صلح کرلی۔ محمود غزنوی نے اسے ملتان کا حاکم رہنے دیا۔اسی اثناءمیں سلطان محمود غزنوی کو خبر ملی کہ ایلک خان کے ترکوں نے غزی کی مغربی سرحدوں پر حملہ کر دیا ہے۔ چنانچہ اس نے بھٹنڈہ کا حاکم آنند پال کے بیٹے سکھ پال کو بنایا جو پشاور میں ابو علی ہمجوری کے ہاتھوں گرفتار ہوکر مسلمان ہو چکا تھا اور اب باشا کے نام سے مشہور تھا۔ڈاکٹر ناظم کا خیال ہے کہ محمود غزنوی نے سکھ پال کو ملتان کی ریاست دے دی اور پروفیسر حبیب کا خیال ہے کہ اسے ملتان کا نہیں‘بھیرہ کا گورنر بنایا جائے دونوں ہی ناقابلِ قبول ہیں۔ کیونکہ اب ریاست ملتان‘ بھٹنڈہ اور ہندو شاہی کو حاکم بنایا‘اس کا اسلامی ڈاکٹر ناظم نے نواز شاہ بتایا ہے۔جے پال کو چونکہ جنگ میں شکست ہوئی تھی‘اس کا علاقہ اور قلعے قبضے میں نہیں آئے تھے۔ اس لئے اس نے معاہدہ کیا کہ وہ ایلک خان کے خلاف اسے500گھڑ سوار‘1000پیادے اور ایک سو ہاتھی دے گا۔ ایلک نے خراسان اور بلخ پر قبضہ کرلیا تھا۔ خراسان پر سیاوش تگین اور جعفر تگین کو کوتوال مقرر کیا۔ اس صورتحال کو دیکھ کر ہرات کا گورنر ارسلان جاذب فرار ہوکر غزنی میں پناہ گزیں ہوا۔ محمود غزنوی نے واپس آکر ایک بڑی فوج تیار کرکے بلخ پر حملہ کیا۔ جعفر تگین تو فوراً بھاگ گیا۔ لیکن ایلک خان نے چین کے بادشاہ کدار خان سے‘جسے عربی اور فارسی کے مورخیں قدر خان لکھتے ہیں‘فوجی مدد مانگی۔کدار خان پانچ ہزار سواروں کے ساتھ اس کی مدد کو آیا۔ جنگ میں محمود غزنوی کی فتح ہوئی تو ایلک اور کدار نے بھاگ کر دریائے جیحوں عبور کیا اور اپنی جان بچائی۔(جاری ہے)

سلطان محمود غزنوی اور خاندان غزنویہ ۔ ۔ ۔ قسط نمبر 16 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں