سپریم کورٹ کے 13رکنی بنچ نے پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھیننے کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس سے پی ٹی آئی کے لئے انتخابی مسائل پیدا ہوئے اور جب فیصلہ دیا تو ملک کے لئے آئینی مسائل کھڑے کر دیئے جن سے معاشی مسائل جڑے ہوئے ہیں۔ یعنی گل اگلی توں وی چگلی ہو گئی۔
تحریک انصاف جن نشستوں پر دعوے کرتی آ رہی ہے وہ ملنے کی صورت میں قومی اسمبلی میں اس کی 84 نشستیں بڑھ کر 107 ہو جائیں گی اور یوں یہ سب سے زیادہ نشستوں والی جماعت بن سکے گی۔اس کے مقابلے میں حکومتی جماعت مسلم لیگ ن کے پاس 106، پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس 69، ایم کیو ایم کے پاس 22 اور جمعیت علمائے اسلام کے پاس نو نشستیں ہوں گی۔مخصوص نشستوں کے فیصلے کے بعد ایک بات واضح ہے کہ حکومتی اتحاد کو پارلیمنٹ میں اکثریت تو حاصل ہے، مگر اسے دو تہائی اکثریت حاصل نہیں رہے گی۔
الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے حکم کے بعد 13 مئی کو نوٹیفکیشن کے ذریعے 77 مخصوص نشستوں پر آنے والے ارکان کی رکنیت کو معطل کر دیا تھا۔ ان 77 نشستوں میں قومی اسمبلی کی 22 اور صوبائی اسمبلیوں کی 55 نشستیں شامل ہیں۔ قومی اسمبلی کی معطل 22 نشستوں میں پنجاب سے خواتین کی 11، خیبرپختونخوا سے 8 سیٹیں شامل ہیں۔ قومی اسمبلی کی معطل مخصوص نشستوں میں 3 اقلیتی مخصوص نشستیں بھی شامل ہیں۔
اس سے قبل الیکشن کمیشن اور پھر پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نواز کو 14، پاکستان پیپلز پارٹی کو 5، جمعیت علمائے اسلام (ف) کو 3 اضافی نشستیں ملی تھیں۔خیبرپختونخوا اسمبلی میں 21 خواتین اور 4 اقلیتی مخصوص نشستیں ہیں جن میں سے جے یو آئی (ف) کو 10، مسلم لیگ (ن) کو 7، پیپلز پارٹی کو 7 جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کو ایک اضافی نشست ملی تھی۔پنجاب اسمبلی میں 24 خواتین کی مخصوص نشستیں اور 3 اقلیتی نشستیں معطل ہیں، جن میں سے ن لیگ کو 23، پیپلز پارٹی کو 2، پی ایم ایل (ق) اور استحکامِ پاکستان پارٹی کو ایک ایک اضافی نشست ملی تھی۔سندھ اسمبلی سے 2 خواتین کی مخصوص نشستیں اور ایک اقلیتی نشست معطل ہیں۔ ان میں سے پیپلز پارٹی کو دو اور ایم کیو ایم کو ایک مخصوص نشست ملی تھی۔
کہا جاتا تھا کہ سیاست میں غلطیوں کی اصلاح ممکن نہیں ہوتی اور کسی بھی سیاسی جماعت کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑتی ہے جبکہ اس کے مخالفین ایسی ہی سیاسی غلطیوں کی تاک میں ہوتے ہیں تاکہ ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ البتہ ہماری سپریم کورٹ نے پہلی مرتبہ کسی سیاسی جماعت کی جملہ غلطیوں کو ’مکمل انصاف‘ کی آڑ میں درست کردیا ہے اور بقول بیرسٹر علی ظفر کے سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی غلطیوں کو ٹھیک کرکے ایک غیر متوقع فیصلہ دیا ہے۔ یوں پاکستان تحریک انصاف کی حریف سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز کیا ہے اور تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کے لئے کلاک کو پیچھے گھمادیا ہے جو آئین سے متصادم بات ہے۔
کہا یہ جا رہا ہے کہ اب پی ٹی آئی پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر نہ صرف حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے قابل ہو جائے گی بلکہ مزید اس کی معیت میں وفاقی حکومت بھی بناسکتی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ فروری 2024ء کے انتخابی نتائج کے فوری بعد نون لیگ نے اعلان کیا تھا کہ پی ٹی آئی کو عام انتخابات میں زیادہ نشستیں ملی ہیں اس لئے وہ اس کے سوا کسی بھی سیاسی جماعت سے الحاق کرکے حکومت بنالے اور اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کھلے بندوں پی ٹی آئی سے اتحاد کا اعلان بھی کیا تھا۔ مگر چونکہ تب ملک معاشی گرداب میں دھنسا ہوا تھا اور پی ٹی آئی سمیت پیپلز پارٹی کو علم تھا کہ اگر انہوں نے اس وقت حکومت بنالی تو ان کی مقبولیت کی چوں بول جائے گی، اس لئے کمال مہارت سے پتلی گلی سے نکل لئے اور مشکل فیصلوں کا بوجھ نون لیگ پر ڈال دیا جس نے نہ صرف آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالر کا پروگرام لیا ہے بلکہ ملک میں ٹیکس اکٹھا کرنے کے ہدف کو 46فیصد بڑھانے کا اعلان کردیا ہے اورعوام کو مہنگائی کم کرکے ریلیف کا سامان بھی کیا ہے۔
مگر اب سپریم کورٹ کے 13رکنی بنچ نے ایک نیا کٹا کھول دیا ہے اورملک کو دوبارہ سے معاشی گرداب میں دھکیل دیا ہے۔ نون لیگ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی جانب سے عمران خان کو لاڈلہ بنانے کی روش جاری ہے۔ مخالفین کا ماننا ہے کہ سپریم کورٹ کی نیت پر شک نہیں کرنا چاہئے اور اگر اس نے مکمل انصاف دیا ہے اس کی پذیرائی ہونی چاہئے۔ لیکن ایسا ہی مکمل انصاف پانامہ کے مقدمے میں نہیں دیا گیا تھا، جس کے بعد آج تک جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس اعجاز الاحسن عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں ہیں۔کیا موجودہ مکمل انصاف دوبارہ سے سپریم کورٹ کو متنازع نہیں بنا گیا ہے؟ کیا اب سے تین چار سال بعد کچھ اور معزز جج صاحبان قبل از وقت استعفے دیتے نظر نہیں آئیں گے۔پس ثابت ہوا کہ پاکستان میں نہ صرف سیاستدان اور اسٹیبلشمنٹ بلکہ عدلیہ بھی بار بارکی ہوئی غلطیاں دہراتی ہے اور تاریخ سے کچھ بھی سیکھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس عمر عطا بندیال کے ہم خیال جج سے تو لوگوں کو گلہ نہیں البتہ حیرانی سنیئر جج جسٹس منصور علی شاہ پر ہے جو اغلباً جذبات کی رو میں بہہ گئے ہیں۔