اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ، خلاف ورزی کرنیوالوں کیخلاف آپریشن ہو گا: محسن نقوی
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے، خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف آپریشن ہو گا۔
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر داخلہ محسن نقوی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا آرڈر سب نے پڑھ لیا ہے،عدالتی حکم میں واضح لکھا ہے، اسلام آباد میں کسی کو جلسے ،جلوس، مارچ اور دھرنے کی اجازت نہیں، ہم ہائی کورٹ کے آرڈر پر من وعن عملدرآمد کریں گے، کسی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے آرڈر کے بغیر جلسہ جلوس کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج شام وزیراعظم جس طرح گائیڈ کریں گے بالکل اسی طرح کریں گے، اگر یہ دھرنے کیلئے آنے کی کوشش کریں گے تو بہت مشکل ہوجائے گی، نقصان کے ذمہ دار وہ لوگ ہوں گے جو آرڈر کی خلاف ورزی کر کے دھاوا بولنے کیلئے آرہے ہیں، میرا اڈیالہ سے کوئی رابطہ نہیں۔
محسن نقوی کا کہنا تھا کہ میں خود کہتا ہوں موبائل سروس، دکانیں اور نہ سڑک بند نہیں ہونی چاہیے، پاراچنار میں جو کل ہوا ،اس سے زیادہ افسوسناک واقعہ نہیں ہوسکتا، کے پی میں لاء اینڈ آرڈر کی ذمہ داری وہاں کی حکومت کی ہے، خیبرپختونخوا حکومت خود ہم پر دھاوا بولنے آرہی ہے، یہاں جنازے ہورہے ہیں اور دوسری جانب دھاوا بولنے کی تیار ہورہی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ایک جانب 40سے زائد جنازے اٹھ رہے ہیں،دوسری جانب دیکھ لیں کیا ہورہا ہے، اتنے بڑے واقعے کے بعدان کو خود سوچنا چاہیے کہ کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔وزیرداخلہ کا کہنا تھا کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا واضح حکم موجود ہے، اسلام آباد میں کسی جلسے یا دھرنے کی اجازت نہیں، جو بھی دفعہ 144کی خلاف ورزی کریں گے سب کے خلاف آپریشن ہوگا۔
پی ٹی آئی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ نے ایس سی او کانفرنس کا خیال نہیں رکھا، اب بیلاروس کا وفد آرہا ہے ،آپ امریکا اورسعودی عرب کو درمیان میں لے آئے، امریکا کے حوالے سے بھی باتیں کرتے ہیں، آپ ایک سال کے اندر اتنے زیادہ یوٹرن کیسے لے سکتے ہیں۔
محسن نقوی نے مزید کہا کہ آپ اپنی آواز متعلقہ فورمز پر اٹھائیں، 24نومبر کے دھرنے کو 10دن کیلئے منسوخ کرنے والی کوئی بات نہیں کی، نہ مذاکرات کی ضرورت ہے اور نہ ہونے چاہئیں، صرف جائز طریقے سے مذاکرات ہونے چاہئیں، ایک طرف دھرنا دے اور دوسری طرف مذاکرات ایسا نہیں ہو سکتا۔