ہم نے عید تو گزاری لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ایک واقعہ نے عید کا سارا مزہ کرکرا کر دیا۔ سانگھڑ میں ایک با اثر وڈیرے نے اپنے کھیتوں میں گھس آنے والے اونٹ کی ٹانگ کاٹ کر جو قبیح فعل کیا اس کی مثال حالیہ تاریخ میں شاید ہی کہیں ملے‘ ہاں البتہ پڑھا اور سنا ہے کہ قدیم زمانوں میں انسان زندہ جانوروں کے اعضا کاٹ کر اور پکا کر کھا جایا کرتے تھے جبکہ زخمی جانور درد اور تکلیف سے تڑپتا رہتا تھا‘ لیکن یہ تب کی بات ہے جب انسان وحشی تھا‘ جنگلوں اور غاروں میں رہتا تھا‘ تہذیب کی روشنی ابھی پھیلی نہیں تھی اور اقدار و روایات کا رواج ابھی پڑا نہیں تھا۔ اب تو انسان ترقی یافتہ کہلاتا ہے‘ خود کو مہذب گردانتا ہے‘ انسانی اور حیوانی جذبات اور احساسات کے تجزیوں پر مبنی گہری نفسیاتی تعلیم کے مدارج طے کر چکا ہے۔ مواصلات کی جدید ترین سہولتوں نے اس حساسیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے کہ اب دنیا کے ایک کونے میں رونما ہونے والے ایک واقعہ کی خبر سیکنڈز میں دنیا کے دوسرے کونے تک پہنچ جاتی ہے‘ پرانے زمانے کی طرح کسی واقعہ یا کسی خبر کو دنیا کے ایک خطے سے دوسرے خطے تک پہنچنے کے لیے مہینے یا سال نہیں لگتے، کیا یہ حیرت کی بات نہیں کہ آج کے اس تہذیب یافتہ دور میں بھی ایسے غیر مہذب انسان پائے جاتے ہیں جن کو کسی جانور کی تکلیف کا کوئی احساس نہیں‘ انہیں بس اپنی طاقت کا زعم ہے اور یہ زعم ان سے کچھ بھی کرواتا رہتا ہے‘ حتیٰ کہ غیر انسانی افعال بھی۔
ایک زمانہ تھا جب پوری دنیا میں باربرداری اور ٹرانسپورٹ کا واحد ذریعہ جانور ہوتے تھے۔ ان جانوروں میں بھی گھوڑوں‘ اونٹوں‘ خچروں اور گدھوں نے اس تناظر میں انسان کے لیے سب سے زیادہ خدمات سرانجام دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان جانوروں کا خاص خیال رکھا جاتا تھا، انہیں بروقت اچھا چارہ دیا جاتا تھا‘ ان کی پیاس کا خیال رکھا جاتا تھا‘ اور ان کی صحت اور صفائی کابھی خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا۔ پھر نئی ٹیکنالوجی آ گئی‘ سڑکیں بن گئیں‘ ریلوے ٹریک بچھ گئے اور ان پر ریلوے ٹریکس اور سڑکوں پر ریل گاڑیاں اور بسیں اور دوسری موٹر گاڑیاں چلنے لگیں تو ان جانوروں کی اہمیت میں کچھ کمی واقع ہو گئی، لیکن ان کی اہمیت بالکل ختم کبھی بھی نہیں ہوئی۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک بھی ہم تانگوں کے آگے گھوڑے جُتے ہوئے دیکھتے رہے ہیں جو ٹرانسپورٹ کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ اس دور میں، میں نے خود دیکھا ہے کہ جگہ جگہ پانی کی حوضیاں اور شیڈ بنے ہوتے تھے جہاں کوچوان اپنی گدھا گاڑیاں اور تانگے کھڑے کرتے تھے‘ اپنے جانوروں کو وہاں سے پانی پلاتے تھے‘ اور کچھ چارہ وغیرہ کھلا کر ان کو تازہ دم کرتے تھے‘ پھر آگے کے سفر پرروانہ ہوتے تھے۔ کچھ وقت مزید گزرا اور گاڑیوں کی تعداد بڑھی تو گدھا گاڑیوں یا گھوڑا گاڑیوں کی تعداد میں مزید کمی واقع ہو گئی‘ تاہم یہ اب بھی کہیں کہیں نظر آتے ہیں۔ جس دور کی میں بات کر رہا ہوں اس زمانے میں انسدادِ بے رحمیئ حیوانات کا باقاعدہ ایک محکمہ قائم تھا جو جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنے کا ذمہ دار تھا اور تب خیال رکھا بھی جاتا تھا، اب اس محکمے کا پتا نہیں کیا سٹیٹس ہے، یہ ہے بھی یا ختم ہو گیا، اس کی جانب سے کبھی جانوروں کے حقوق کے حوالے سے بیان تو سننے یا پڑھنے میں نہیں آیا۔ سانگھڑ میں رونما ہونے والے واقعہ کی مذمت کا بیان تک سامنے نہیں آیا، میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ صدیوں تک انسانوں کے رفیق رہنے والے یہ بار بردار جانور حضرتِ انسان کی اس قدر بے اعتنائی کا شکار ہو جائیں گے کہ ان کی تکلیف کا احساس ہی جاتا رہے گا۔
اس سے ایک قدم آگے بڑھیں تو ہم ایک ایسے مذہب کے پیروکار ہیں جس نے انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کے حقوق کا بھی ٹھیک ٹھیک تعین کر رکھا ہے۔ اگر گھر میں پرندے رکھے ہوئے ہیں تو ان کے ساتھ رحم دلی کے سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر کچھ پالتو جانور رکھے گئے ہیں تو ان کے بارے میں بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کی ضروریات کا بھرپور خیال رکھا جائے۔ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ایک وسیع لائیو سٹاک سیکٹر موجود ہے، لائیو سٹاک میں شمار ہونے والے تمام جانوروں کے حقوق کا خیال رکھنا ہماری مذہبی ذمہ داری ہے، انہیں بروقت چارہ دینا‘ پانی پلانا‘ اگر وہ بار بردار جانور ہے تو اس پر اس کی ضرورت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنا‘ اس سے اس کی استطاعت سے زیادہ لمبا سفر نہ کرانا‘ وقفے وقفے سے اس کے آرام کا خیال رکھنا اور موسموں کے حوالے سے اس کی جسمانی ضروریات کو پیش نظر رکھنا یہ سب جانوروں کے حقوق کا حصہ ہے۔
اسلام نے ایک طرف حیوانات کے ساتھ حسنِ سلوک کو اجر و ثواب کا ذریعہ قرار دیا ہے تو دوسری طرف ان کے ساتھ بد سلوکی کرنے اور انہیں اذیت و تکلیف میں مبتلا کرنے کو گناہ اور عذاب کی وجہ قرار دیا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: نبی کریمﷺنے فرمایا: ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کیا گیا، اس نے ایک بلی کو پکڑ کر قید کر لیا تھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گئی، یہ عورت نہ تو خود اسے کھانے کو کچھ دیتی تھی اور نہ اسے چھوڑتی تھی کہ حشرات الارض سے اپنی غذا حاصل کر لیتی (بخاری:3318)۔
سوچتا ہوں اتنے پیارے مذہب کے پیروکار ہوتے ہوئے ہم اس قدرسفاک کیسے ہو گئے کہ زندہ اونٹ کی ٹانگ کاٹ ڈالی گئی۔ اس ساری صورت حال کے تناظر میں میرا مطالبہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تو اس وڈیرے پر ہاتھ ڈالا جائے جس کے کہنے پر یہ بہیمانہ کام کیا گیا اور زمہ داران کو کیفر کردار تک بھی پہنچایا جائے۔ دوسرے‘ انسدادِ بے رحمی حیوانات والوں کو کچھ متحرک ہونا چاہیے تاکہ جانوروں کے حقوق کی پامالی کا یہ سلسلہ بند ہو جائے۔