گویا ہرمز، فروشانہ کا سگا بھائی نہیں تھا۔ میرا ماتھا ٹھنکا۔ سوال یہ تھا کہ ہرمز کو کیا پڑی تھی کہ اپنی چچا زاد کو شاہی قید خانے سے نکالنے کے لئے اتنی رقم خرچ کرے جبکہ فروشانہ کی زبانی یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ ہرمز اس سے کبھی کبھی ملنے آیا کرتا تھا۔ ہرمز کی بیوی ایران میں موجود تھی۔ فروشانہ نے اس بات کی بھی تصدیق کردی کہ ہرمز نے اسلام قبول نہیں کیا تھا جبکہ اس کے خاندان کے باقی تمام افراد مسلمان ہوچکے تھے۔ہرمز میرے لئے ایک معمہ بن گیا تھا۔ بار بار میرے دل میں یہی خیال آتا کہ اسے کیسے پتہ چلا کہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ کہیں وہ میری خفیہ طاقتوں سے باخبر تو نہیں ہوگیا لیکن یہ کیسے ممکن تھا۔ ہرمز سے میری پہلے کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ وہاں میرا کوئی دوست اور ہم راز نہیں تھا۔ بہرحال، میں نے فیصلہ کرلیا کہ ہرمز سے دور رہوں گا۔ ویسے بھی اب مجھے ان لوگوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ میں صرف یہ چاہتا تھا کہ فروشانہ شہر کی فصیل سے کسی طرح باہر نکل کر اپنے مکلک ایران کی طرف کوچ کر جائے تاکہ اس کی زندگی محفوظ ہوجائے۔ میں نے ہرمز سے پوچھا کہ فروشانہ کو شہر سے نکال کر، ملک ایران کی طرف لے جانے کے لئے اس کا کیا منصوبہ ہے؟ اس نے بتایا کہ ابھی کچھ روز تک فروشانہ اسی مردوں کے مینار کے تہہ خانے میں چھپی رہے گی۔ جب ذرا حالات معمول پر آجائیں گے تو وہ اسے اپنے ایک پارسی دوست کی مدد سے شہر سے نکال کر ملک ایران کی طرف لے جائے گا۔ جب میں جانے لگا تو ایران کنیز فروشانہ مجھے ایک طرف لے گئی اور بولی
’’عبداللہ! تم مجھ سے ملنے آتے رہنا مجھے یہاں ڈر لگتا ہے۔‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 146 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’تم اپنے چچا زاد کی حفاظت میں ہو۔‘‘ میں نے کہا
’’عبداللہ! مجھے سوائے تمہارے یہاں کوئی بھی اپنا ہمدرد دکھائی نہیں دیتا۔‘‘
میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں ہر رات اس کی خیر و عافیت دریافت کرنے آتا رہوں گا۔ اس کا ذکر میں نے قصداً ہرمز سے نہیں کیا تھا۔ میں اس پراسرار پارسی کے دل کا حال معلوم کرنا چاہتا تھا۔ میں ان لوگون کو لاشوں کے مینار کے نیچے چھوڑ کر واپس روانہ ہوا۔ رات ڈھل چکی تھی اور مشرق میں صبح کی روشنی نمودار ہورہی تھی۔ میں اپنی حویلی میں پہنچ گیا۔ گھوڑے کو اصطبل میں باندھا پھر اپنی کوٹھری میں آکر چارپائی پر لیٹ گیا اور ہرمز کے بارے میں غو رکرنے لگا۔ جس زمانے میں ایران میں زر تشت کا مذہب عروج پر تھا اور اسے عظیم ایران شہنشاہ سائرس کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اس زمانے میں مَیں نے کچھ وقت ایران کے پایہ تخت میں گزارا تھا۔ وہاں مجھے معلوم ہوا تھا کہ اس عہد کے پارسی آتش پرستوں میں جادو ٹونے کابہت رواج تھا اور وہ اپنی مقدس کتاب ’’اوستا‘‘ کے بعض خفیہ اشلوکوں کی مدد سے خفیہ طاقتوں کا علم حاصل کرلیتے تھے۔ میں نے سوچا کہ ہرمز بھی پارسی ہے ، ہوسکت اہے اس نے مقدس کتاب ’’اوستا‘‘ کے کسی اشلوک کی مدد سے میری خفیہ ملاقات کا حال معلوم کرلیا ہو مگر یہ معمہ ابھی تک حل طلب تھا۔
دن چڑھا تو شاہی رازداری کے باوجود شہرمیں یہ افواہ گرم تھی کہ ایک باغی ایرانی کنیز، شاہی جیل توڑ کر فرار ہوگئی ہے اور مغل سپاہی جگہ جگہ اس کی تلاش میں چھاپے ماررہے ہیں۔ سب سے پہلے تو میری حویلی میں مغل سپاہیوں کا ایک دستہ آگیا۔ حویلی کے کونے کونے کی تلاشی لی گئی۔ سپاہی، حشمت خان سوداگر کو پکڑ کر لے جانے لگے تو اس نے کچھ قیمتی جواہرات دے کر اپنی اور اپنے اہلخانہ کی جان بچائی۔ مغل سپاہیوں نے میری طرف رکھ کیا اور پوچھا کہ فروشانہ تمہارے پاس تو نہیں آئی؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں یہاں کوٹھری میں پڑا ہوں۔ جڑی بوٹیوں کا دھندا کرتا ہوں۔ میرا کسی ایرانی کنیز سے کبھی راسطہ نہیں رہا۔ سالار دستہ کو میری بات کا یقین آگیا۔ مغل سپاہی واپس چلے گئے۔ میں نے اطمینان کی سانس لی۔ میں اپنے آپ کو اس نئی پریشانی میں نہیں الجھانا چاہتا تھا مجھے فروشانہ کی طرف سے تشویش تھی۔ جانے کیوں فروشانہ ہرمز کے بظاہر ہمدردانہ سلوک سے کچھ فکرمند تھی۔ میں نے وہ دن شہر میں گھومتے گزار دیا۔ جب سورج چھپ گیا، شہر کے مکانوں میں چراغ روشن ہوگئے اور پھر شام کے سائے، رات کے اندھیروں میں تحلیل ہوگئے تو میں گھوڑے پر سوار ہوکر حویلی سے نکلا اور پارسیوں کے مردہ گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔
مردہ گھر پر گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا اس کا چھوٹی اینٹ کا پرانا مینار تاریکی میں آسمان کی طرف انگلی اٹھائے کھڑا تھا۔ میں نے گھوڑے کو باہر درخت کے نیچے باندھا اور لاشوں کے کنویں کے ایک دروازے سے گزر کر اندر ڈیوڑھی میں آگیا۔ یہاں بھی اندھیرا تھا۔ میں سیڑھیاں اتر کر اس کوٹھری میں گیا جہاں فروشانہ کو موجود ہونا چاہیے تھا مگر وہ وہاں نہ تھی۔ میں نے سوچا شاید اسے کسی دوسری کوٹھری میں منتقل کردیا گیا ہو۔ دوسری کوٹھری میں گیا تو دیکھا کہ چبوترے پر ایک پتھر کا بنا ہوا لمبا ٹب پڑا تھا۔ طاق میں ایک چراغ روشن تھا۔ جونہی میں نے ٹپ میں جھانک کر دیکھا تو میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی۔ ٹپ میں ایرانی کنیز فروشانہ کی لاش تیزاب میں ڈوبی ہوئی تھی۔ تیزاب سے ہلکے ہلکے بلبلے اٹھ رہے تھے۔ فروشانہ کا جسم گلنے لگا تھا۔ میں پریشانی اور تذبذب کی حالت میں کھڑا فروشانہ کی گلتی ہوئی لاش کو دیکھ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے قدموں کی آواز سنائی دی۔میں جلدی سے چبوترے سے اتر کر دیوار کے پاس پڑے بہت بڑے مٹکے کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔ میری آنکھیں کوٹھری کے دروازے پر لگی تھی۔ اتنے میں دو آدمی نمودار ہوئے۔ ان میں سے ایک تو ہرمز تھا اور دوسرا کوئی پارسی پجاری تھا۔ اس نے سر پر سیاہ رومال باندھ رکھا تھا اور کمر کے گرد بڑی تسبیح لٹک رہی تھی۔ دونوں فروشانہ کی لاش کے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔ ’’سپٹما! میں نے اپنا کام پورا کردیا ہے۔ فروشانہ کی لاش تمہارے سامنے تیزاب میں ڈوبی پڑی ہے۔ اب تم اس پر ’’اوستا‘‘ کا آخری اور کارگر منتر پھونکو تاکہ میں بعد میں لاش کی گردن کاٹ کر اس کی کھوپڑی کا کاسہ تمہارے سامنے پیش کرسکوں۔‘‘
میں یہ سن کر کانپ سا گیا۔ اس سنگ دل بھائی نے خدا جانے کس لالچ کے پیش نظر اپنی چچا زاد کو تیزاب کے ٹب میں ڈال کر ہلاک کردیا تھا اور اب اس کی گردن کاٹ کر اس کی کھوپڑی اس پارسی جادوگر کے سامنے پیش کرنے والا تھا۔ میں یہ جاننا چاہتا تھا کہ اس سارے بھیانک اقدام سے اس کا مقصد کیاہے؟ پارسی جادوگر نے اپنے لمبے سیاہ چوغے کی جیب سے ایک چمڑے کی بوتل نکالی اور اس میں سے سیاہ رنگ کا سفوف اپنی بائیں ہتھیلی پر ڈال کر ’’اوستا‘‘ کے اشلوک پڑھنے لگا۔ پھر رک کر ہرمز سے بولا ’’مجھے یقین ہے کہ یہی وہ لڑکی ہے جس کی کھوپڑی کے اندر کی جانب ہڈی پر عظیم الشان ایرانی شہنشاہ سائرس کے مدفون خزانے کے خفیہ اشارے لکھے ہوئے ہیں۔ میں ایک بار پھر تم پر واضح کردینا چاہتا ہوں کہ اس خزانے کے آدھے حصے پر میرا بھی حق ہوگا۔‘‘
ہرمز نے بے تابی سے کہا ’’سپٹما! مجھ پر بھروسہ رکھو‘‘ میں نے جو وعدہ کیا ہے۔ اسے پورا کروں گا۔‘‘
پارسی جادوگر بولا ’’یہ مت بھولنا کہ اگر تم نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا تو میں اپنے منتر کے زور سے تمہیں ہمیشہ کے لئے پتھر کا بنادوں گا۔‘‘
ہرمز جلدی سے بولا ’’سپٹما! تم اپنا عمل شروع کرو اور میری طرف سے مطمئن رہو۔ میں کم از کم تمہیں دھوکا نہیں دے سکتا۔‘‘
اب ساری بات میری سمجھ میں آگئی تھی۔ ان سفاک لوگوں نے سائرس کے مدفون خزانے کو حاصلکرنے کے لئے بے گناہ ایرانی کنیز کو موت کے گھاٹ اتاردیا تھا۔ پارسی جادوگر منتر پڑھنے لگا۔ یہ منتر کسی ایسی الٹی سیدھی زبان میں تھے کہ خود میری سمجھ میں نہیں آرہے تھے۔ ہرمز نے تلوار نکالی اور فروشانہ کی گردن پر ایک وار کیا اورپھر اس کے سر کو تلوار کی نوک میں پرو کر ٹب سے باہر نکال لیا۔ پارسی جادوگر کے منتر پڑھنے کی آواز تیز ہوگئی۔ معصوم ایرانی کنیز کے اس ہولناک انجام پر میرا خون کھولنے لگا۔ میں شدید غصے کے عالم میں مٹکے کے پیچھے سے نکل کر پارسی جادوگر کی طرف جھپٹا تو ہرمز اور پارسی جادوگر مجھے دیکھ کر ششدر رہ گئے۔ ہرمز کے ہاتھ سے تلوار چھٹ کر گرپڑی۔ اس نے چبوترے پر سے چھلانگ لگادی۔ شاید اس لئے کہ وہ میری خفیہ طاقت سے باخبر تھا۔ میں نے لپک کر پارسی جادوگر کو اٹھایا اور تیزاب کے ٹب میں جھونک دیا۔ اس کی چیخ بلند ہوئی مگر اس عرصے میں وہ اپنی ہتھیلی پر رکھا ہوا جادوئی سفوف میرے چہرے پر پھینک چکا تھا۔ تیزاب میں گرتے ہی وہ ٹب میں سے تڑپ کر باہر نکل آیا۔ مگر تیزاب نے اس کے جسم کے گوشت کو ادھیڑنا شرو ع کردیا تھا۔ وہ چبوترے پر گر کر تڑپنے لگا۔میں ہرمز کی طرف لپکا۔ ہرمز باہر کی طرف دوڑا۔ اچانک میں نے محسوس کیا کہ میرے پاؤں بھاری ہورہے ہیں۔ میرے ہاتھوں او ربازوؤں میں ایک بوجھل قسم کی ٹھنڈک سرایت کررہی تھی اور مجھے اپنے بازوؤں اور جسم کا بوجھ محسوس ہونے لگا۔ پارسی جادوگر نے آخری بار سسکتی ہوئی آواز میں کہا ’’ہرمز! میرا جادو اس پر اثر کرچکا ہے۔ اسے میرا جادو ہلاک نہیں کرسکتا مگر یہ پتھر ہوجائے گا اسے پتھر کی مورتی میں بدل دیا ہے میں نے دیکھا کہ پارسی جادوگر کی آواز بلند ہوگئی۔ منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ گوشت نیچے لٹک گیا اور کھوپڑی کے دانت نظر آنے لگے۔ اب میری حالت بھی غیر ہونے لگی تھی۔ پہلے میرے پاؤں مجھے من من وزنی لگے تھے اب پتھر کی طرح اپنی جگہ پر چم چکے تھے۔ میرے باقی بدن کی بھی یہی کیفیت تھی۔ میں نے حرکت کرنے کی کوشش کی۔ میں اپنی جگہ سے بالکل نہ ہل سکا۔ ہرمز واپس کوٹھری میں آگیا۔ وہ مجھ سے چند قدموں کے فاصلے پر کھڑا مجھے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا پھر اس نے زمین پر گری ہوئی اپنی تلوار کو فروشانہ کی گردن سے کھینچ کر نکالا اور اس کی نوک میرے پیٹ میں چبھوئی۔ تلوار کی نوک میرے پیٹ پر اچٹ گئی۔ وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔ اس نے جلدی جلدی فروشانہ کے سر پر سے ادھڑے ہوئے گوشت کو تلوار کی مدد سے ہٹایا۔نیچے سے بدنصیب کنیز کی کھوپڑی نکل آئی۔ اس نے کھوپڑی کو داہنے رخ سے کاٹ دیا۔ سفید مغز کو جھاڑا اور پھر کھوپڑی کی اندر کی جانب ہڈی کو چراغ کی روشنی میں جاکر دیکھا۔ وہ خوشی سے اچھل پڑا۔ اسے فروشانہ کی کھوپڑی کے اندر ہڈی پر سائرس کی مدفون خزانے کے خفیہ اشاریمل گئے تھے۔ یہ اشارے فروشانہ کی کھوپڑی میں کس نے درج کئے تھے؟ یہ رات میں آج تک نہیں سمجھ سکا۔(جاری ہے)