اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 148
ہرمز نے کھوپڑی کو ایک طرف رکھ دیا او رمیری طرف متوجہ ہوا۔ اس وقت تک میں مکمل طو رپر پتھر کے بت میں تبدیل ہوچکا تھا لیکن میں دیکھ سکتا تھا، سن سکتا تھا اور فضا کو سونگھ سکتا تھا مگر اپنی جگہ سے نہ تو ہل سکتا تھا او رنہ ہی کوئی حرکت کرسکتا تھا۔ ہرمز نے مجھے ایک مجسمے کی طرح اپنے کاندھے پر اٹھایا اور دوسری کوٹھری کے اندھیری سیڑھیاں اتر کر ایک ایسے پوشیدہ تہہ خانے میں لے آیا جہاں مردوں کی بے شمار ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ پاس ہی گندے پانی کا ایک نالہ بہہ رہا تھا۔ یہاں دیوار کے ساتھ لوہے کے بڑے بڑے ٹپ پڑے تھے۔ اس نے مجھے ایک ٹب میں ڈال دیا۔ اس ٹب میں کیسری رنگ کا کوئی گاڑھا محلول بھرا ہوا تھا۔ اس محلول کی ایک موٹی تہہ مجھ پر چڑھ گئی۔ جب اس نے مجھے باہر نکالا تو میں کیسری رنگ کا ایک بت بن چکا تھا۔ ہرمز نے ایک چھری کی مدد سے میرے چہرے پر چڑھی ہوئی محلول کی موٹی تہہ کو جو اب خشک ہوچکی تھی۔ چھیل کر میرے نقش بدلنے شروع کردئیے۔ آدھے گھنٹے تک وہ میرے ناک نقشے کو بدلتا رہا۔ اتنی دیر میں میرا جسم خشک ہوگیا تھا اور محلول کی تہہ پتھر بن چکی تھی۔ میں اپنی شکل نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس لئے مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ میری شکل کس دیوتا یا اوتار کی شکل میں تبدیل کردی گئی ہے۔ جب ہرمز اپنے کام سے فارغ ہوگیا تو اس نے میری طرف دیکھ کر کہا
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 147 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’میں تمہیں مار نہیں سکتا تھا۔ مگر تمہاری وہ حالت کردی ہے کہ تم مردوں سے بھی بدتر ہو۔ میں نے تمہیں ایک ایسے راکھشش کی شکل دے دی ہے جس کو جنوبی ہند کے ہندو لوگ منحوس سمجھتے ہیں اور اس کا بت بنا کر اسے زمین میں گاڑھ دیتے ہیں اور اس پر مردہ سانپ چڑھاتے ہیں۔ میں اپنے پارسی جادوگر کا شکر گزار ہوں کہ اس کے طلسم نے مجھے ہمیشہ کے لئے تم سے نجات دلادی۔ اب جاؤ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نحوست کے تاریک سایوں میں اتر جاؤ۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے مجھے اٹھایا اور گندے پانی کے نالے میں پھینک دیا۔ میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ میرا سارا جسم پانی میں ڈوب گیا صرف میری گردن پانی سے باہر تھی۔ پانی کا بہاؤ مجھے لے کر آگے کی طرف روانہ ہوگیا۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ میں اپنی آنکھیں گھما نہیں سکتا تھا۔ میری آنکھیں بالکل سیدھ میں ہی رہتی تھیں۔ ایک طرح سے وہ پتھر ہوگئی تھیں مگر میں دیکھ سکتا تھا۔
نالہ ایک تاریک سرنگ میں سے گزررہا تھا۔ پانی کی رفتار تیز نہیں تھی۔ کچھ دیر سرنگ میں سے گزرنے کے بعد پانی کی رفتار تیز ہوگئی۔ سرنگ میں روشنی ہونے لگی۔ روشنی ایسی تھی جیسے ستارے چمک رہے ہوں۔ پھر مجھے ٹھنڈی اور تازہ ہوا کا احساس ہوا۔ ایک لہر نے مجھے سیدھا کردیا۔ میں نے دیکھا آسمان پر تارے نکلے ہوئے تھے۔ میں گندے پانی کے نالے سے نکل کر کسی دریا کے تنگ پاٹ میں سے گزررہا تھا اور اردگرد اونچے اونچے بانس کے درختوں کے جھنڈ پہاڑیوں کی ڈھلانوں پر ساکت کھڑے تھے۔ تاریکی میں وہ کو ئی دیوزاد لگ رہے تھے ہوا میں مرطوب جھاڑیوں کی مہک تھی۔ ساری رات میں دریا میں بہتا رہا۔ صبح کا سورج نکلا تو دریا پہاڑیوں میں سے نکل کر ایک وادی میں سے گزررہا تھا۔ لہریں مجھے کنارے کی طرف لے آئی تھیں۔ کنارے پر سرکنڈے اگے ہوئے تھے۔ میرا پتھر کا جسم ان سرکنڈوں میں پھنس کر ایک جگہ ٹھہر گیا۔ میں ساکت پڑا رہا۔ ان سرکنڈوں میں پڑے پڑے مجھے کافی دیر گزرگئی تو مجھے پانی میں شپ شپ کی آواز سنائی دی۔ یہ کسی کشتی کے چپوؤں کی آواز تھی۔ یہ کشتی میرے سر کی جانب سے آرہی تھی۔ اس کے بعد وہی کچھ ہوا جس کی پیشگوئی پارسی ہرمز نے کی تھی۔ یہ دو ماہی گیر تھے۔ میرے بت کو سرکنڈوں میں پھنسا ہوا دیکھ کر انہوں نے شور مچادیا۔ وہ گاؤں کے لوگوں کو پکاررہے تھے۔ میرا بت نحس ہونے کے ساتھ ساتھ اس اعتبار سے خوش آئندہ بھی سمجھا جاتا تھا کہ لوگوں کی بستی کی نحوست ایک جگہ جمع کرکے انہیں منحوس اثرات سے نجات دلادیتا تھا۔
یہ جنوبی ہند کے ایک مہادیر جینی قبیلے کا گاؤں تھا۔ یہ لوگ جین مت کے پیرو تھے۔ انہوں نے میرے بت کو گاؤں کے باہر ایک جگہ تالاب کے کنارے ویران جگہ پر گھٹنوں تک گاڑھ دیا اور مجھ پر مردہ سانپوں کے چڑھاوے چڑھانے شروع کردئیے۔ گاؤں میں جہاں کہیں انہیں کوئی مردہ سانپ ملتا وہ اسے اٹھا کر دور سے مجھ پر پھینک دیتے۔ یہ لوگ خود سانپوں کو نہیں مارتے تھے بلکہ اپنی قضا سے مرے ہوئے سانپوں کو مجھ پر پھینک دیتے تھے۔ ایک مہینہ اسی طرح گزرگیا۔ تالاب کے دوسرے کناریپر مہادیر کا مندر تھا۔ جہاں صبح و شام مہادیر کے بت کی پوجا ہوتی تھی۔ اس گاؤں میں جین مت کے ڈگمبر فرقے کے لوگ بھی رہتے تھے۔ اس فرقے میں یہ رواج تھا کہ جب کوئی بزرگ چاہتا تو وہ سانس کو روک کر اپنے آپ کو عارضی موت کے حوالے کردیتا تھا۔ اس عمل سے وہ اپنے عقیدے کے مطابق نجات حاصل کرجاتے تھے اور آواگون کے چکر سے محفوظ ہوجاتے تھے، مجھے اس حقیقت کا علم اس وقت ہوا جب میں نے ایک بوڑھے جینی کو تلاب کے مندر کے باہر ایک روز حبس دم کے بعد مرتے دیکھا۔ لوگ جمع ہوگئے اور انہوں نے ایک دوسرے کو بتایا کہ مرنے والے نے حبس دم کیا ہے، اس کی لاش بڑے احترام و عقیدت سے پھولوں سے ڈھانپ دی گئی۔ منتر پڑھے گئے اور اسی جگہ اسے سپرد آتش کردیا گیا۔ دوسرے دن گاؤں کے لوگ وہاں اکٹھے ہوئے اور مرنے والے کی ہڈیوں کو وہیں دفن کرکے اس کی سمادھی بنادی گئی۔
ایک رات ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ گاؤں کے لوگ اپنی اپنی کھپریل سے بنی ہوئی جھونپڑیوں میں سورہے تھے۔ آسمان پر تارے خاموشی سے چمک رہے تھے، تالاب کا پانی پر سکون تھا۔ میں اس موت ایسے سناتے میں پتھر کا بت بنا اپنی جگہ پر چپ چاپ کھڑا تھا کہ ایک طرف سے مجھے گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی۔ دو گھڑ سوار میرے قریب آکر رک گئے۔ انہوں نے چہروں پر ڈھاٹے باندھ رکھے تھے۔ ان کی آنکھیں اندھیرے میں چمک رہی تھیں۔ تلواریں ان کی کمر سے بندھی تھیں۔ وہ گھوڑوں پر سوار میری طرف غور سے تکنے لگے۔ ایک نے کہا ’’سانگو یہ کس دیوتا کا بت ہے۔ ایسا بت تو ہم نے پہلے نہیں دیکھا۔‘‘
دوسرا بولا ’’یہ منحوس دیوتا کا بت ہے۔ اس سے دو ررہو۔ نہیں تو آج کی رات خیر نہیں۔‘‘
سانگو ہنسا ’’ارے ہم ڈاکو ہیں۔ ہمیں کسی کا خوف نہیں۔ چلو، چل کر اپنا کام کرتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ گاؤں کی طرف چلے گئے۔
میں سمجھ گیا کہ یہ ڈاکو اس گاؤں میں ڈانہ ڈالنے جارہے ہیں۔ مجھے اس گاؤں والوں سے کوئی ہمدردی نہیں تھی مجھ سے ان لوگوں کا سلوک ایسا نہیں تھا کہ میں ان سے ہمدردی رکھتا۔ میری بلا سے گاؤں کو آگ لگ جائے یا ڈاکو لوٹ کر لے جائیں۔ میں اس غوروفکر میں ڈوبا رہا کہ دیکھیں اس پتھر کی قید سے کب نجات ملتی ہے ۔ کچھ وقت گزرا ہوگا کہ اچانک گاؤں کی طرف سے وہی ڈاکو نمودار ہوئے۔ وہ گھوڑے دوڑاتے چلے آرہے تھے۔ ان میں سے ایک ڈاکو نے اپنے آگے ایک کمسن لڑکے کو زبردستی بٹھا رکھا تھا او رایک ہاتھ سے اس کا منہ دبایا ہوا تھا۔ یقیناًیہ ڈاکو اس لڑکے کو کسی کے لئے بھینٹ چڑھانے کے لئے اٹھا کر لائے ہوں گے۔
لڑکا بڑی بری طرح سے ہاتھ پاؤں ماررہا تھا۔ جب وہ میرے قریب سے گزرے تو لڑکا ڈاکو کی گرفت سے نکل گیا۔ اس نے گھوڑے پر سے چھلانگ لگادی ڈاکو بھی اس کے پیچھے کود پڑا لڑکا بہت زیادہ خوف زدہ تھا۔ وہ بھاگ کر میرے پاس آگیا اور اپنی بانہیں میری کمر کے گرد ڈال کر روتے ہوئے گڑگڑانے لگا ’’امبا دیوتاً تو دوسروں کے لئے منحوس ہوگا پر میرے لئے نہیں۔ یہ ڈاکو مجھے دیوتا کی بھینٹ چڑھانے کے لئے لے جارہے ہیں۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔ تو میری مدد کر۔‘‘
ایکا ایکی مجھے ایسے لگا جیسے کسی نے م جھے اپنی جگہ سے ہلکا سا دھکا دے کر ہلادیا ہو۔ ڈاکو اس لڑکے کو گھسیٹ رہے تھے لڑکا میری کمر نہیں چھوڑ رہا تھا۔ وہ رو رو کر مجھ سے مدد مانگ رہا تھا۔ مجھ پر اس کی آہ و زاری کا شدید اثر ہوا۔ مجھے ایک بار پھر ہلکا سا جھٹکا لگا۔ اتنے میں ایک ڈاکو نے تلوار کھینچ لی۔ دوسرے نے کہا ’’ارے سانگو اس کے دو ٹکڑے کردے۔ کم بخت شور مچا کر گاؤں والوں کو اکٹھا نہ کرلے۔‘‘
سانگ وڈاکو نے لڑکے کو قتل کرنے کے لئے تلوار وال ہاتھ ہوا میں اٹھایا ہی تھا کہ ایک ہلکے سے کڑاکے کی آواز کے ساتھ میرے جسم کا پتھر ٹوٹ کر نیچے گرنے لگا۔ میں نے اپنا ہاتھ ایک دم سے اوپر کرکے ڈاکو سانگو کی تلوار کا وار اپنے بازو پر لے لیا۔ تلوار میرے بازو سے ٹکرا کر ٹوٹ گئی۔ دونوں ڈاکوؤں کے ہوش و حواس گم ہوگئے۔ ان کی آنکھوں کے سامنے ایک پتھر کے بت میں جان پڑگئی تھی، لڑکا سہم کر ایک طرف ہوگیا تھا۔ میں نے تھوڑا سا زور لگایا تو میری دونوں ٹانگیں زمین سے باہر نکل آئیں۔ ڈاکو گھوڑوں کی طرف لپکے کہ راہ فرار اختیار کرسکیں مگر میں انہیں کسی دوسرے معصوم لڑکے کی زندگی سے کھیلنے کے لئے زندہ رہنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ میں نے ان پر چھلانگ لگادی۔ میرے جسم پر چڑھی ہوئی کیسری تہہ اکڑ چکی تھی۔ میں نے دونوں ڈاکوؤں کو گردنوں سے دبوچ لیا۔ میرے جسم کی پوری طاقت واپس آچکی تھی۔ یہ گرفت اتنی شدید تھی کہ ڈاکوؤں کی گردنیں میرے ہاتھوں کے پنچوں میں پچک گئیں اور وہ دوسرا سانس لئے بغیر ہی میرے ہاتھوں میں ٹھنڈے ہوگئے۔ میں نے واپس مڑ کر دیکھا تو لڑکا ڈر کے مارے گاؤں کی طرف بھاگا جارہا تھا۔ میں نے اس کے پیچھے جانے کی ضرورت محسوس نہ کی اور اپنے جسم کو ہاتھ لگا کر ٹٹولنے لگا۔ میرا جسم اپنی اصلی حالت میں واپس آچکا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ طلسم ٹوٹا کس طرح؟ کہیں یہ اس معوم لڑکے کی فریاد کا اثر تو نہیں تھا کہ جس نے میرے جسم کے پتھر کو ریزہ ریزہ کردیا؟ ضرور یہی بات تھی کیونکہ لڑکے نے جب چیخ کر فریاد کی تو اس وقت ایک کڑاکے کے ساتھ میرے جسم کا پتھر پاش پاش ہوگیا تھا۔میرا دل اس لڑکے کا شکریہ ادا کرنے کو چاہ رہا تھا۔ میں گاؤں کی طرف چلا۔ ڈاکوؤں کی لاشیں وہیں گھاس پر پڑی تھیں۔ جونہی میں تلاب کے کنارے بنی ہوئی بوڑھے جینی سادھو کی سمادھی کے قریب سے گزرا تو مجھے کسی کے گہری سانس لینے کی آواز آئی۔ میں رک گیا۔ پلٹ کر دیکھا میرے پیچھے کوئی نہیں تھا۔ راستہ رات کی تاریکی میں سنسان تھا۔ گاؤں پر بھی گہری خاموشی طاری تھی۔ میں نے قدم اٹھایا ہی تھا کہ کسی نے پھر میرے بالکل قریب ہی گہری سانس لی۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کوئی بدروح ہے جو مجھے ڈرانے آئی ہے۔ میں نے آہستہ سے کہا ’’تو مجھے نہیں ڈرا سکے گی۔ جدھر سے آئی ہے ادھر کو چلی جا۔‘‘ اس کے جواب میں ایک نحیف سی عمر رسیدہ آواز آئی
میں نے چونک کر بائیں طرف دیکھا حبس دم سے مرجانے والے بوڑھے چینی کی سمادھی میں ایک انسانی ہیولا آہستہ آہستہ ہل رہا ہے۔ میں نے سمادھی کے قریب جاکر پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘ جواب میں نحیف آواز آئی
’’میرے لڑکے کی تم نے جان بچائی ہے۔ وہ میرا اکلوتا نواسہ تھا اور تم میری دعا سے دوبارہ زندہ ہوئے ہو؟ تو یہ حبس دم والے بوڑھے اچاری کی روح تھی۔ میں نے دبی زبان میں اس کا شکریہ ادا کیا تو اس کی روح بولی ’’بھگوان نے تمہیں دوبارہ زندگی اس لئے عطا کی ہے کہ دکھی انسانوں کی خدمت کرسکو۔‘‘
میں نے کہا ’’محترم روح! میں نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ کسی بے گناہ کومیرے ہاتھ سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ان ڈاکوؤں کو میں نے اس لئے ہلاک کیا ہے کہ یہ ظالم تھے انہوں نے ایک بے بس غریب لڑکے کو موت کے گھاٹ اتارنا چاہا تھا۔‘‘(جاری ہے)