اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 146
میں نے پوچھا کہ اب ہمیں کیا کرنا ہوگا؟ ہرمز نے جو منصوبہ بنایا تھا، مجھے سنادیا۔ یہ منصوبہ بقول اس کے اس نے شاہی نگران کے ساتھ مل کر تیار تھا۔ منصوبہ یہ تھا۔ شاہی قید خانہ قلعے کے شمال مغرب کی جانب ایک تہہ خانے میں تھا۔ شاہی نگران نے فروشانہ کو قید خانے کی پہلی کوٹھری میں منتقل کردیا تھا۔ بارہ بجے رات کے بعد اس کا پہرہ بدلتا تھا۔ اس نے منصوبہ یہ بنایا تھا کہ جب آدھی رات کا گجر بجے گا اور اس کی جگہ دوسرا سپاہی پہرہ دینے آئے گا تو وہ اسے ایک خواب آور مشروب کسی طریقے سے پلادے گا۔ اس کے بعد سارا کام ہمیں کرنا ہوگا کیونکہ ہمارا ہم راز شاہی پہرے دار اس کے بعد وہاں سے چلاجائے گا تاکہ بعد میں وہ نہ پکڑا جائے۔ اس منصوبے کے مطابق ہمیں اپنے طور پر قلعے کی چھت پر چڑھ کر نیچے شاہی قید خانے تک جانا ہوگا اور خواب زدہ پہرے دار کو ہلاک کرکے فروشانہ کو وہاں سے نکال کر لے جانا ہوگا۔ شاہی نگران اس سے زیادہ ہماری مددنہیں کرسکتا تھا۔ وہ اپنی جگہ پر آنے والے پہرے دار کو بے ہوش کردے گا اور یہ وہ کام ہے جو ہم کبھی نہیں کرسکتے تھے۔ بس یہی ہمارے لئے سنہرا موقع ہوگا۔
میں نے کہا ’’لیکن چھت پر چڑھنا کوئی آسان بات نہیں ہے۔ وہاں قدم قدم پر پہرہ ہوتا ہے۔ ہم زندہ نہیں بچیں گے۔‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 145 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہرمز نے سرجھکالیا اور آنکھوں میں آنسو لاکر بولا ’’میں اپنی پیاری بہن کے لئے اپنی جان بھی قربان کرسکتا ہوں۔ میں یہ خطرہ مول لے کر قلعے کی دیوار پر چڑھوں گا۔ مرگیا تو میری روح کو کم از کم اتنی تسکین تو ضرور ہوگی کہ میں نے اپنی بے گناہ بہن کی جان بچاتے ہوئے، جان دی تھی۔ ‘‘
مجھے ہرمز پر ترس آگیا۔ لامحالہ مجھے یہی فیصلہ کرنا پڑا کہ اس کی جگہ میں قلعے کی چھت پر چڑھوں گا کیونکہ مجھے اپنی جان کا خطرہ نہیں تھا۔ میں نے ہرمز کو یہ تو نہیں بتایا کہ مجھے جان کا خطرہ نہیں ہے لیکن اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ تم فکر نہ کرو، یہ کام میں سرانجام دوں گا۔ اگرچہ اس میں جان جانے کا قدم قدم پر امکان ہے، مگر میں تمہاری بے گناہ بہن کے لئے یہ خطرہ مول لینے کو تیار ہوں۔ میں نے محسوس کرلیا کہ ہرمز نے میری بظاہر خود کشی کی پیشکش پر زیادہ ہمدردانہ رویے کا اظہار نہیں کیا بلکہ یہ کہہ کر میری پیشکش کی تصدیق کردی کہ وہ میرا یہ احسان ساری عمر نہیں بھولے گا۔ مجھے کچھ حیرت ضرور ہوئی تاہم وہ کہنے لگا
’’میرے بھائی عبداللہ! میں تمہارے ساتھ ہوں گا۔ تمہاری ہر طرح سے مدد کروں گا۔‘‘
وہ میری زیادہ مدد نہیں کرسکتا تھا۔ پھر بھی میں نے کوئی تعرض نہ کیا اور طے پایا کہ ہم آج رات اندھیرے میں قلعے کی چھت پر چڑھیں گے۔ یہ کام آسان اور سہل نہیں تھا۔ میرے سوا کوئی بھی آدمی اس کام کا بیڑا اٹھاتا تو اس کی موت یقینی تھی لیکن میں یہ مرحلہ طے کرسکتا تھا۔ رات ہونے تک میں نے سارا ضروری سامان جمع کرلیا تھا۔ جب رات گہری ہوگئی تو ہم گھوڑوں پر سوار ہوکر قلعے کی طرف چل پڑے۔ دن کے وقت ہم نے خاص خاص جگہوں کو نگاہوں میں رکھ لیا تھا۔ قلعے کے عقب میں پانی سے بھری ہوئی کھائی تھی۔ ہم نے سیاہ کپڑے پہن رکھے تھے۔ کمر کے گرد پیش قبض لگے ہوئے تھے۔ ایک خاص کمند بھی ہمارے پاس تھی جس کے آگے بڑا منصوبہ آنکڑا لگا تھا۔
ہر طرف گھپ اندھیرا تھا۔ ہم گھوڑوں کو قدم قدم چلاتے قلعے کے عقب میں کھائی سے کچھ فاصلے پر ایک ویران باغ میں آکر رک گئے۔ گھوڑوں کو آم کے جھنڈ میں ایک جگہ باندھا اور کھائی کی طرف چلے۔ ہم خاموش تھے اور ضروری بات سرگوشی میں کرتے تھے۔ آدھی رات کا گجر بجنے میں ابھی آدھا پہر باقی تھا۔ منصوبے کے مطابق ہمیں آدھی رات کا گجر بجنے کے وقت قلعے کی چھت پر ہونا چاہیے تھا۔ صبح کے وقت ہم نے سرکنڈوں کو جوڑ کر ایک گٹھا بنا کر جھاڑیوں میں چھپادیا تھا۔ اندھیرے میں ہم نے وہ گٹھا جھاڑیوں م یں سے نکالا اور اسے کھائی کے پانی میں ڈال دیا۔ ہم اس پر اوندھے منہ لیٹ گئے اور بازوؤں کو چپوؤں کی طرح چلاتے ہوئے کھائی کے دوسرے کنارے پر پہ نچ گئے۔ اب ہم قلعے کی عظیم الشان عقبی دیوار کے نیچے اندھیرے میں کھڑے تھے۔ کچھ فاصلے پر قلعے کے اوپر بائیں جانب ایک برجی بنی تھی جس میں ایک مشعل روشن تھی۔ اس کی روشنی میں ایک سپاہی نیزہ اٹھائے پہرہ دے رہا تھا۔ میں نے اندھیرے میں قلعے کی دیوار کا جائزہ لیا۔ پرانا قلعہ تھا جو آج ایک کھنڈر بن چکا ہے۔ اس زمانے میں اس کی دیواریں شکستہ حالت میں نہیں تھیں۔ میں نے اندھیرے میں قلعے کیا وپر کنگروں کو دیکھا۔ یہی میرا نشانہ تھا۔ میں نے سرگوشی میں ہرمز سے کہا ’’میں اکیلا اوپر جاؤں گا۔ تم یہاں ٹھہرو گے۔‘‘ وہ کچھ کہنے لگا میں نے اس کے ہونٹوں پر ہاتھ رکھ دیا۔ مجھے کسی کے پاؤں کی آہٹ سنائی دی تھی۔ ہم جلدی سے دیوار کے ساتھ چپک گئے۔ دو مغل سپاہی گشت کرتے ہوئے چلے آرہے تھے۔ وہ آپس میں باتیں بھی کررہے تھے۔ ان کی زرہ بکتر اندھیرے میں چمک رہی تھی۔ میں چوکس ہوگیا لیکن وہ ہمارے قریب سے گزرگئے۔ میں نے اپنی سانس روک لی تھی۔ جب وہ کافی دور جاکر قلعے کی دیوار کے ساتھ گھوم گئے تو میں نے کمند گھما کر دیوار پر پھینکی۔ اس کا آنکڑا قلعے کے کنگرے میں پھنس گیا۔ کمند مضبوط تھی۔ میں نے ہرمز کو ایک بار پھر تاکید کی وہ اسی جگہ اندھیرے میں چھپا رہا اور خود جتنی تیزی سے ہوسکتا تھا کمند کی مدد سے قلعے کی دیوار پر چڑھ گیا۔ کنگرے کو پکڑ کر میں چھت پر آگیا اور کمند کو اوپر کھینچ کر ایک طرف چھپا کر رکھ دیا۔ کچھ فاصلے پر برج میں مشعل کی روشنی ہورہی تھی اور ایک سپاہی وہاں کھڑا پہرہ دے رہا تھا مگر یہ روشنی مجھ تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ میں ہرمز کے بتائے ہوئے نقشے کے مطابق جھک کر قلعے کی چھت پر چلتا ایک بارہ دری کے پہلو میں آگیا۔ یہاں سے ایک زینہنیچے جارہا تھا۔ بارہ دری کے چبوتے کے دروازے پر ایک سپاہی پہرے پر موجود تھامگر شاہی نگر اپنا وعدہ پورا کرچکا تھا۔ یہ سپاہی چبوترے کی دیوار سے ٹیک لگائے مدہوش بیٹھا تھا۔ میں دبے پاؤں چلتا اس کے قریب آیا۔ پیش قبض نکال کر میں نے اپنے ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ میں پھونک پھونک کر قدم رکھتا اس کے قریب سے نکل کر زینے پر آگیا۔ پتھر کے ٹکڑوں کو جوڑ کر بنای گیا زینہ نیچے تہہ خانے کے دروازے تک جاتا تھا۔ یہ دروازہ بند تھا۔ مگر میرے لئے اسے کھولنا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ میں نے کندھے کا زور لگایا اور دروازے کا ایک پلڑا اکھڑ کر الگ ہوگیا۔
سامنے ایک تنگ و تاریک غار میں کوٹھریاں بنی ہوئی تھیں میں نے پہلی کوٹھری کے تالے کو توڑ ڈالا۔ اندر دیا جل رہا تھا اس کی روشنی میں میں نے فروشانہ کو دیکھا، اس کی آنکھیں رنگت زدہ تھیں، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑگئے تھے اور بال شانوں پر پریشان تھے۔ میری صورت دیکھتے ہی اس کے حلق سے خوشی کی ایک چیخ سے نکل گئی۔ میں نے آگے بڑھ کر اسے تسلی دی اور کہا کہ فوراً میرے ساتھ یہاں سے نکل چلے۔ وہ پہلے ہی تیار بیٹھی تھی۔ اٹھی اور میرے پیچھے پیچھے کوٹھری سے نکل کر سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ بارہ دری کے باہر مغل سپاہی اسی طرح مدہوش بیٹھا تھا۔ میں نے فروشانہ کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ قلیع کی چھت پر برجی میں روشنی ہورہی تھی۔ میں نے فروشانہ سے آگے بڑھنے کو کہا۔ ہم ایک طرح سے رینگ رینگ کر چلتے اس کے کنگرے کے پاس آگئے جہاں میں نے کمند چھپائی تھی۔
میں نے قلعے کی دیوار سے نیچے دیکھا۔ کھائی کے کنارے پر کوئی سپاہی نہیں تھا۔ اندھیرا بہت زیادہ تھا مگر مجھے ہر شے دھندلی دھندلی دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے کمند کو نیچے لڑھکا دیا۔ پھر فروشانہ کو سنبھال کر دیوار کے ساتھ پاؤں ٹکا کر نیچے اترنے لگا میرے پاؤں زمین کے ساتھ لگے تو میں نے اسے دیوار کے اندھیرے میں کردیا۔ یہاں ہرمز پہلے ہی سے چھپا ہمارا انتظار کررہا تھا۔ میں نے سرگوشی میں اس سے کہا کہ وہ فروشانہ کو لے کر فوراً کھائی پار کرلے میں اس کے پیچھے پیچھے تیر کر آؤں گا۔
چند لمحوں بعد ہم فروشانہ کو لئے قلعے کے عقبی ویران جنگل سے گزررہے تھے۔ ہرمز اور فروشانہ ایک ہی گھوڑے پر سوار تھے۔ میں دوسرے گھوڑے پر ان کے ساتھ ساتھ تھا۔ جنگل سے نکل کر ہم نے گھوڑوں کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں اور وہ سرپٹ دوڑنے لگے۔ ہماری منزل، شہر کے مشرق میں پارسیوں کا لاشوں کا مینار تھا۔ یہ جگہ ہرمز نے فروشانہ کو چھپانے کے لئے خاص طور پر چنی تھی۔ یہاں شہر کے پاسی، لاشوں کو مینار کے اوپر رکھ کر گدھوں کے حوالے کردیا کرتے تھے۔ اس مینار کے نیچے ایک گہرا کنواں تھا۔ جب گدھ لاش کا گوشت چٹ کرجاتے تو مردوں کی ہڈیاں اس کنویں میں پھینک دی جاتی تھیں۔ یہاں مردوں کو ٹھکانے لگانے والے کو بھی ہرمز نے اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ اس لاشوں کے مینار کے نیچے کنویں کے پہلے میں ایک زمین دوز کوٹھری تھی جہاں پارسیوں کی لاشوں پر مالش کرنے والی دوائیں اور عجیب عجیب قسم کے تیل کی بوتلیں رکھی تھیں۔ ہم فروشانہ کو یہاں لے آئے۔ ہرمز اور فروشانہ بڑے خوش تھے۔ فروشانہ میرا شکریہ ادا کررہی تھی۔ ہرمز گھوڑوں کو کسی خفیہ مقام پر باندھنے کے لئے کوٹھری سے نکل کر اوپر گیا تو فروشانہ کہنے لگی۔ ’’مجھے یقین نہیں تھا کہ تم میرے لئے اپنی جان کی بازو لگادو گے۔ مگر ہرمز کا خیال درست نکلا۔‘‘
’’کون سا خیال؟‘‘ میں نے پوچھا
’’ہرمز نے مجھ سے کہا تھا کہ عبداللہ ہی مجھے یہاں سے نکال سکتا ہے۔ اس نے مجھے یقین دلایا کہ عبداللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ چنانچہ میں نے تمہیں پیغام بھیجا کہ مجھے یہاں سے نکالو۔ کیونکہ میں جانتی تھی کہ تمہیں کچھ نہیں ہوگا۔ ‘‘
میں ایک لمحے کے لئے چونکا۔ ہرمز کو کیسے پتہ چلا کہ مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ ہرمز مجھے ایک گہرا اور پراسرار آدمی لگنے لگا تھا۔ میں نے فروشانہ سے پوچھا ’’کیا ہرمز تمہارا بھائی ہے؟‘‘
’’میرا چچازاد ہے۔ کبھی کبھی مجھ سے ملنے حویلی میں آیا کرتا تھا۔‘‘(جاری ہے)