اللہ داد صاحب کے پاس ایسی خاموش فلمیں بھی موجود ہیں جو 1895ء سے 1913کے درمیان بنائی گئی تھیں ۔ برصغیر میں بنائی جانے والی پہلی فلم ’’راجا ہریش چندر‘‘ کے شاٹس بھی ان کی لائبریری میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ فلم دادا بھائی پھالکے نے بنائی تھی۔ آتھ سو نادر فلموں کے گانے اور شاٹس ان کی لائبریری کی زینت ہیں۔ ابتدائی زمانے میں ہر ریکارڈ پر مونو گرام بنا ہوتا تھا لیکن 1972ء کے بعد مونوگرام ریکارڈ بننا بند ہوگئے اب کوئی مونوگرام ریکارڈ حاصل کرنا قریب قریب ناممکن ہے۔
اللہ داد صاحب کو کلاسیکی ریکارڈ جمع کرنے کا شوق تھا جو رفتہ رفتہ جنون میں تبدیل ہوگیا۔ یہی جنون بالآخر اس نادر روز گار ذاتی لائبریری کے قیام کا سبب بن گیا۔
یوں تو کوئی بھی کسی وقت ان سے اپنی پسند کا گانا سننے کی فرمائش کر سکتا ہے لیکن ہفتے میں دو بار اس کمرے میں باقاعدگی سے شوقین حضرات کی محفل آراستہ ہوتی ہے۔ جن میں پرانی یادیں تازہ کی جاتی ہیں۔ پرانی فلموں کے شاٹس دیکھے جاتے ہیں۔ پرانے گانے سنے جاتے ہیں۔ اللہ داد صاحب کو ایسی محفلیں سجا کر بہت خوشی ہوتی ہے۔ وہ ریکارڈ سنانے سے کبھی نہیں تھکتے، پرانی فلموں، گلوکاروں، گانوں اور اداکاروں کے بارے میں ان کی معلومات انتہائی وسیع ہیں۔ جنہیں وہ بڑے شوق سے سناتے ہیں۔
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر558 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ریکارڈ اور پرانی فلموں کو جمع کرنے کے سوا انہیں کوئی شوق نہیں ہے۔ انہوں نے تو جیسے اپنی ساری زندگی اسی کے لیے وقف کر دی ہے۔ ان کے اس شوق کا آغاز 1952ء میں ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی ساری پونجی ریکارڈ اور پرانی فلموں کے شاٹس جمع کرنے پر لگا دی۔ جب ویڈیو کا دور آیا تو انہوں نے پرانی فلموں کے ویڈیو جمع کرنے شروع کر دیئے جہاں بھی ملے انہوں نے منہ مانگے داموں خریدے ان کی ہر شام اسی لائبریری میں بسر ہوتی ہے ان کا اوڑھنا بچھونا، کھانا پینا یہی ریکارڈ اور فلمیں ہیں۔ یہ صرف ایک شخص کی ذاتی جدوجہد اور شوق کی کہانی ہے۔ اس کے بعد اس نادر خزانے کی حفاظت کون کرے گا؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے اس کا جواب خود اللہ داد صاحب کے پاس بھی نہیں ہے انہیں مستقبل کی فکر نہیں ہے۔ وہ اپنے حال میں مست اور بے خود ہیں۔ ایسے کتنے ہی نادر روزگار فنی خزانے اس ملک میں بکھرے ہوئے ہیں۔ خزینے نہیں، انہیں تو دفینے کہنا زیادہ مناسب ہوگا کیونکہ ان کے بارے می کوئی جانتا تک نہیں ہے کہ یہ کہاں دفن ہیں؟
***
اپنے ملک میں فن کاروں اور عظیم المرتبت ہستیوں کی ناقدری کی داستانیں عام ہیں۔ ہر ایک کو یہی شکایت ہے کہ دیجئے صاحب، اس ملک میں فن کار کی کوئی قدرو منزلت ہی نہیں ہے لیکن آپ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ، دولت مند، طاقت ور اور بزعم خود فن در فن کاروں کے قدر داں ملک امریکا کے بارے میں کیا کہیں گے اور آزادی اور مساوات کا علم بردار تصور کیا جاتا ہے کہتے ہیں کہ وہاں تعصب کا نام و نشان تک نہیں ہے۔ وہ ایک کشادہ دل اور قدر داں قوم ہے۔ وہاں ہر شخص آزاد اور مساوی حقوق کا حامل ہے۔ مذہب، نسل، رنگ کی یہاں کوئی تفریق نہیں ہے۔ یہ ان کی آزادی کی علامت ہے۔ اپنی اس خوبی کا ڈھندورا پیٹنے کے لیے امریکیوں نے نیو یارک کے ساحل پر ’’آزادی کا مجسمہ‘‘ نصب کر دیا ہے جو ساری دنیا کو آزادی، مساوات اور یکساں حقوق کی ضمانت دیتا ہے لیکن امریکیوں کا کوئی بھی روپ مصلحت اور منافع سے خالی نہیں ہوتا۔ ’’آزادی کا مجسمہ‘‘ سیاحوں کے لیے ایک دلکش اور پرکشش یادگار ہے جس کے ذریعے امریکی حکومت ہر سال کروڑوں اربوں ڈالر کماتی ہے۔ رنگ اور نسل نصف صدی پہلے تک امریکی معاشرے میں نمایاں حیثیت کا حامل تھا۔ کالوں کو غلام اور کمتر مخلوق سمجھا جاتا تھا۔ انہیں گوروں کے علاقوں، ریستورانوں اور تفریح گاہوں میں قدم رکھنے کی اجازت تک نہ تھی۔ رفتہ رفتہ دنیا بھر میں اس کے خلاف پر زور احتجاج کی بنا پر اور خود اپنا امیج بہتر بنانے کی غرض سے امریکیوں نے بڑی مشکل سے اس نسلی تفریق سے چھٹکارا حاصل کیا لیکن عملی طور پر کالے آج بھی امریکا میں دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ گوروں کے مقابلے میں وہ انتہائی پسماندہ، بے بس اور قابل رحم لوگ ہیں۔ کوئی بھی امریکا جا کر بذات خود اپنی آنکھوں سے امریکیوں کی منافقت اور ’’انسان دوستی‘‘ کا یہ نمونہ دیکھ سکتا ہے۔
دنیا بھر میں یہ بات ضرب المثل کی طرح مشہور ہے کہ امریکا واضح امکانات اور روشن مستقبل کی سرزمین ہے۔ وہ جوہر قابل کی قدر اور آبیاری کرتی ہے۔ انہیں اس قدر نوازتی ہے کہ وہ پھر وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں لیکن اس ضرب المثل یا کہاوت کا دوسرا رخ بھی ہے جو عمومی لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔ وہ یہ کہ امریکا نے بے شک دنیا بھر سے آنے والوں کے لیے بازو کشادہ کر دیئے اور انہیں مالا مال کر دیا لیکن یہ کوئی نہیں سوچتا کہ ان ہنر مند اور با صلاحیت لوگوں نے امریکا کو کس قدر مالا مال کیا ہے۔ اگر یہ سر زمین صرف یورپ کے مجرموں اور بدکردار بگھوڑوں ہی سے آباد رہتی تو شاید آج کوئی اس کا نام تک نہ جانتا مگر دنیا بھر سے آنے والے گہر و جواہر نے اس ملک کو دنیا کا سب سے ترقی یافتہ اور دولت مند ملک بنا دیا۔ اس میں احسان مند کون ہے۔ اور محسن کون ۔ کیا یہ حقیقت اور ستم ظریفی نہیں ہے کہ امریکا۔۔۔میں قابل ذکر کارنامے سر انجام دینے والے وہی لوگ ہیں جو باہر سے یہاں آئے تھے۔ یہ درست ہے کہ ان کو پتھروں سے تراش کر ہیرا بنانے میں امریکا کاہاتھ ہے لیکن اگر یہ محض پتھر ہی ہوتے تو ہیرا کیسے بن جاتے؟ امریکا میں آج بھی کروڑوں پتھر ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اس جادوئی سر زمین نے سب کو ہیرا کیوں نہیں بنا دیا؟ اس اعتبار سے دیکھئے تو یہ ان پر امریکا کا نہیں بلکہ ان لوگوں کا امریکا پر احسان عظیم ہے جنہوں نے مجرموں اور اٹھائی گیروں کیا س سر زمین کو ایک حسین سانچے میں ڈھال دیا۔ دور کیوں جاتے ہیں۔ ایٹمی توانائی کو ہی دیکھ لیجئے۔ امریکا نے یہ علم جرمنوں سے سیکھا جنہیں وہ پکڑ کر اپنے ملک میں لے آئے تھے۔ کچھ روسیوں کے حصے میں آگئے۔ اس طرح یہ دونوں ممالک سپر پاور اور ایٹمی قوت بن گئے۔ امریکا کی جانے والی ہر ایجاد کے پیچھے ایک غیر ملکی پناہ گیر کا ہاتھ ہے۔ ہر سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی ان ہی غیر ملکیوں کی مرہون منت ہے۔ اسی طرح علم و فنون لطیفہ کے شعبوں میں بھی باہر سے آنے والوں نے اپنی گل کاری سے چمنستان کھلا دیئے۔
ایسے ہی لوگوں میں چارلی چپلن بھی شامل تھا۔
چارلی چپلن نے تھیڑ میں کام کیا۔ اداکاری کی۔ محنت مزدوری کی۔ یہاں تک کہ اسے اپنا صحیح مقام مل گیا۔ اس نے اداکاری، ہدایت کاری اور نیت نئے موضوعات کو فلمانے کی نئی روایات قائم کیں۔ یہاں تک کہ چارلی چپلن کے حوالے سے امریکا کا اور امریکا کے حوالے سے چارلی چپلن کا نام دنیا کے ہر شخص کی زبان پر آگیا۔
چارلی چپلن نے اپنی بہترین صلاحیتیں اور توانائیاں امریکا کے لیے وقف کر دیں۔ امریکانے بھی اسے شہرت اور دولت سے مالا مال کر دیا مگر یہ تو کاروبار کا ایک لازمی حصہ ہوتا ہے۔ چارلی چپلن نے جتنی دولت کمائی اس سے کہیں زیادہ دولت امریکا نے چارلی چپلن کے نام اور اس کی فلموں سے کمائی۔
چارلی چپلن کی فلموں نے امریکی فلمی صنعت کو جو شہرت اور وقار بخشا اس کا اندازہ زروجواہر سے نہیں کیا جا سکتا۔ چارلی چپلن ایک زمانے میں ہر ملک اور قوم کے لیے گھریلو نام کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ مزاحیہ اور طنزیہ فلموں کے حوالے سے وہ کل بھی ضرب المثل تھا اور آج وفات کے سالہا سال بعد بھی ضرب المثل ہے۔ چارلی چپلن کے عہد میں ہالی ووڈ میں اور بھی بڑے اور نامور مزاحیہ اداکار تھے لکن چارل کو ان سب پر ذہنی اور فکری برتری حاصل تھی۔ چارلی چپلن کو مذاق مذاق میں معاشرے اور سیاست پر گہرے طنز کرنے پر جو قدرت حاصل تھی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چارلی چپلن نے کسی کالج یا یونیورسٹی میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی۔ نہ وہ ڈگری یافتہ تھا لیکن اپنی خداداد ذہانت، قابلیت اور مطالعے اور گہرے مشاہدے کے ساتھ ساتھ غوروفکر کی نعمتوں سے مالا مال تھا۔ اور انتہائی لطیف، بھرپور اور دلکش انداز میں زندگی کی تلخیوں اور دکھوں کو ہنسی ہنسی میں اس طرح پیش کرتا تھا کہ اس کی ہر فلم ایک یادگار فلم بن جاتی تھی۔ چارلی چپلن اپنی فلموں کے اسکرپٹ بذات خود لکھتا تھا۔ فلم سازی اور ہدایت کاری بھی وہ خود ہی کرتا تھا۔ اسے موسیقی کا بھرپور شعور تھا چنانچہ وہ اپنی فلموں کی موسیقی بھی خود ہی ترتیب دیا کرتا تھا۔ وہ خاموش فلموں کا دور تھا۔ فلم کے ساتھ ’’سب ٹائٹل‘‘ یعنی لکھے ہوئے فقروں کے ذریعے مکالموں کا مفہوم مختصر طور پر پیش کر دیا جاتا تھا تاکہ کم تعلیم یافتہ اور محدود شعور رکھنے والے عام لوگ بھی اس کو سمجھ کر اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔ (جاری ہے )
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر560 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں