فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر560

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر560
فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر560

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

چارلی چپلن اس سلسلے میں بھی کم سے کم تحریری مکالموں کا قائل تھا۔ دراصل وہ اتنا عظیم فنکار اور دانش ور تھا کہ محض خاموش مناظر بلکہ بعض اوقات تو ایک دو شاٹس یا چہرے کے تاثرات کے ذریعے سین کی وضاحت کر دیتا تھا اور ہر عمر اور طبقے سے تعلق رکھنے والے فلم بین اس کا مفہوم اور مقصد جان لیا کرتے تھے۔ چارلی چپلن کے بلند سیاسی شعور اور دانش مندی کے باعث اپنے عہد کے بڑے بڑے نامور ترین سیاست دانوں، مصنفین، شاعروں، نقادوں یہاں تک کہ حکمرانوں تک سے اس کے گہرے مراسم تھے اور چارلی چپلن سے ملنا اور اس کی مہمان داری کرنا اپنے لیے باعث مسرت اور باعث فخر جانتے تھے۔ برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل جیسی قدر آور شخصیت سے لر کر جارج برنارڈ شا جیسا مایہ ناز فلم کار بھی اس سے ملاقات کا متمنی رہتا تھا۔ چارلی چپلن کو زندگی کے ہر شعبے اور موضوع پر دسترس حاصل تھی۔ وہ جس قسم کی محفل میں شریک ہوتا تھا اسی کے تقاضوں کے مطابق انتہائی پر مغز اور خیال افزا گفتگو کرتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چارلی چپلن کو محض کامیڈین ہی نہیں ایک مفکر، طنز کا ماہر اور سیاسی و سماجی شعور رکھنے والا دانش ور تسلیم کیا جاتا تھا۔
چارلی ایک ترقی پسند اور آزاد منش انسان تھا۔ دوسری عالم گیر جنگ میں وہ ہٹلر کی خونریزی اور دنیا کو فتح کرنے کے خواہش کو قابل مذمت سمجھتا تھا۔ اس موضوع پر اسکی فلم ’’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘‘ کلاسیکی حیثیت رکھتی ہے۔ اس فلم میں انتہائی ہلکے پھلکے اور مزاحیہ انداز میں اس نے ایک آمر مطلق کا ایسا خاکہ پیش کیا ہے کہ آج تک اس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔ یہ اس قدر لطیف، دلچسپ اور معنی خیز فلم تھی کہ خود ہٹلر نے بھی فرمائش کرکے اس فلم کا پرنٹ منگوا کر خصوصی طور پر فلم دیکھی اور بہت لطف اندوز ہوا۔ گولڈ رش، دی کڈ اور ایسی دیگر فلموں نے چارلی چپلن کو شہرت اور عزت کے بلند ترین سنگھاسن پر بٹھا دیا تھا۔ وہ خواص و عام ہر ایک کا محبوب تھا۔ اس کی فلمیں نوع انسانی کے لیے فکر اور دلچسپی کا سامان فراہم کرتی تھیں۔ اسی لیے دنیا نے تسلیم کیا کہ چارلی چپلن اپنی نوعیت کا واحد اور منفرد فنکار تھا۔ اس جیسی ہستی نہ اس سے پہلے پیدا ہوئی اور نہ ہی اس کے بعد اس کا نعم البدل سامنے آیا۔

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر559 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
چارلی چپلن نے اپنی محنت، لگن اور بے پناہ صلاحیتوں کے بل پر اپنی زندگی میں لازوال مقام حاصل کر لیا تھا۔ لوگ اس کا نام سن کر ہنستے بھی تھے لیکن اس کا احترام بھی کرتے تھے۔ دنیا بھر نے اس کی صلاحیت اور قابلیت کا لوہا مان لیا تھا۔ اس کے ہمعصر اور حریف فن کاراس کے مقابلے میں بالشیئے نظر آتے تھے۔ چارلی چپلن کی فلمیں امریکا کے لیے دنیا بھر سے دولت سمیٹ کر لا رہی تھیں اور اس کے ساتھ ہی اس کی وجہ سے ہالی ووڈ کو ایک منفرد اور ممتاز حیثیت حاصل ہو گئی تھی۔
عام طور پر یہ کہاجاتا ہے کہ جو بھی امریکا گیا وہ کامیاب ہوا اور اس نے ایک روشن مستقبل حاصل کر لیا لیکن دیکھا جائے تو حقیقت اس کے برعکس ہے۔ا مریکا کو امریکا بنانے والے یہی باہر سے آنے والے مہاجر اور پناہ گزین ہیں۔ کون سا شعبہ ایسا ہے جس میں باہر کے لوگوں نے امریکا کو ترقی کی معراج پر نہیں پہنچایا۔ امریکا نے لوگوں کو اتنا نہیں دیا جاتنا ان لوگوں نے امریکا کو دے دیا۔ ان ہی لوگوں میں چارلی چپلن بھی شامل ہے۔ جس نے امریکا کو عظیم تر بنانے میں حصہ لیا۔
چارلی چپلن نے بے انتہا شہرت، دولت اور عزت کمائی۔ اس نے اپنے بھائی کو بھی عیش کرائے اور مالی حالات درست ہونے کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ اپنی بوڑھی اور بے سہارا ذہنی مریض ماں کو اپنے پاس بلا لیا مگر اس سے پہلے اس نے ایک شاندار محل نما مکان تعمیر کرایا جیسے گھر کے اس کی ماں خواب دیکھا کرتی تھی۔ اپنی ماں کی پسند کے مطابق اس نے اس گھر کو بے دریغ دولت خرچ کرکے سجایا۔ اس کی ماں کو گلاب کے پھولوں سے عشق تھا۔ چارلی چپلن نے اس گھر کے باغ کو گلاب کے پھولوں سے باغ و بہار دبنا دیا جس روز اس کی ماں امریکا پہنچنے والی تھی اس روز چارلی چپلن نے ہالی ووڈ کے تمام گلاب خرید کر اپنے گھر کے چپے چپے میں سجا دیے۔ فرنیچر ، پردے، قالین ہر چیز بیش قیمت اور اس کی ماں کی خواہشات کے مطابق تھی۔ اس نے انگلستان میں اپنے مان کی دیکھ بھال کے لیے ہمہ وقت دو نرسیں مقرر کی تھیں۔ امریکا کے گھر میں بھی کئی نرسوں کا انتخاب کیا گیا۔ دوسرے نوکر ان کے علاوہ تھے۔ چارلی کو یہ احساس تھا کہا س کی ماں کو زندگی کی کوئی خوشی نہیں ملی۔ وہ ایک فن کار اور خوابوں کی دنیا میں رہنے والی عورت تھی مگر نہ تو اس کے فن کی قدر کی گئی اور نہ ہی کبھی اس کے خوابوں کی تعبیر ملی۔ اس نے جوانی اور زندگی کا بیشتر حصہ شوہر کے رخصت ہو جانے کے بعد تنہا محنت مشقت کرکے گزارا تھا۔ جب غموں کا زور بڑھ جاتا تھا تو وہ نفسیاتی علاج گاہ میں داخل کر دی جاتی تھی اور اس کے دونوں معصوم بچے رشتے داروں کے رحم و کرم پر یتیم خانوں کی پناہ لینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ جوں ہی اس کی حالت سنبھلتی وہ فوراً واپس آکر اپنا چھوٹا سا پرانا فلیٹ سجاتی اور اپنے بچوں کو اپنے پاس لے آتی۔ وہ تھیٹر میں چھوتے موٹے کردار ادا کرکے اپنا گزارا کرتی تھی۔ جس کا معاوضہ بہت کم ملتا تھا مگر وہ ہمیشہ ایک شاندار زندگی کے خواب دیکھا کرتی تھی اور ان خوابوں میں اپنے بچوں کو بھی شریک کر لیتی تھی۔ چارلی نے اپنی خود نوشت میں لکھا ہے کہ اس نے اداکاری اور مشاہدے کی د ولت اپنی ماں سے حاصل کی تھی۔ شام کو جب وہ گھر لوٹتی تو بچوں کی جسمانی آسائش کے لیے تو اس کے پاس بہت کم پیسہ ہوتا تھا لیکن وہ انہیں سارے دن کے واقعات اور مختلف کرداروں کی نقل پیش کرکے ہنسا ہنسا کے پاگل کر دیتی تھی۔ وہ جس کردار کا بھی ذکر کرتی تھی عملی طور پر بھی اس کا ہوبہو نقشہ پیش کر دیتی تھی۔ وہ اپنے بچوں کو خوب صورت لوگوں اور حسین مقامات کہانیاں سنایا کرتی تھی جہاں تک نہ تو خود اس کی رسائی تھی اور نہ ہیا اس کے بچے اس دنیا میں قدم رکھ سکتے تھے مگر وہ ایک فن کار اور بلند خیال عورت تھی۔ خواب دیکھنا اور عالم تصور میں بچوں کو خوابوں کی سر زمین پر لے جانا ہی اس کے بس میں تھا۔ یہ فرض وہ بڑی خوبی سے سر انجام دیتی تھی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد بے کاری اور مالی پریشانیوں کی وجہ سے وہ ایک بار پھر اسپتال میں داخل کرا دی جاتی تھی۔ اس وقت نہ اسے اپنے بچوں کا ہوش رہتا تھا اور نہ خود اپنا۔ بے چارے معصوم بچے ایک بار پھر زمانے کی ٹھوکریں کھانے کے لیے دنیا میں تنہا رہ جاتے تھے۔ چارلی چپلن چھوٹے موٹے کام کرکے اپنا اور اپنے چھوٹے بھائی کا پیٹ پالنے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ محنت مزدوری کرتا تھا۔ مکانوں کے شیشے صاف کرتا تھا۔ اخبار فروخت کرتا تھا۔ گھروں کی گھاس کاٹتا تھا۔ غرض یہ کہ ایک ننھا بچہ جو بھی کام کر سکتا ہے وہ چارلی سر انجام دیتا تھا۔ وہ ایک غیور اور خوددار بچہ تھا۔ دوسروں کے رحم و کرم پر رہنا اسے پسند نہ تھا۔ بچپن کے یہی مشاہدات آگے چل کر اس کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئے اور اس کی یادگار فلموں کے غیر فانی کرداروں میں ڈھل گئے۔
جب اچھے دن آئے تو چارلی نے اپنی ماں کو اس کے خوابوں کی تعبیر فراہم کرنے کی کوشش کی۔ جس روز وہ امریکا پہنچی تو چارلی اپنے بھائی کے ساتھ اس کا استقبال کرنے لیے بندرگاہ پر موجود تھا۔ اس نے اپنی ماں کے لیے اس کی پسند کے انتہائی قیمتی ملبوسات اور زیورات فراہم کیے تھے جن سے وہ ساری زندگی محروم ہی رہی تھی۔ چارلی اپنی ماں کو اپنی ترقی کی معراج دکھانا چاہتا تھا تاکہ اس کے زندگی بھر کے دکھوں کا مداوا ہو سکے مگر قسمت کو یہ منظور نہ تھا۔
چارلی چپلن کی ماں نے جب امریکا کی سر زمین پر قدم رکھا تو وہ اپنے ہوش و حواس سے بے گانہ ہو چکی تھی۔ یہاں تک کہ وہ اپنے بیٹوں کو بھی نہیں پہچان سکی۔ وہ خاموش بیٹھی خلا میں گھورتی رہتی تھی۔ خوشی یا غم کی کسی ات کا اس پر مطلق اثر نہیں ہوتا تھا۔ وہ ان تمام چیزوں سے بیگانہ ہو چکی تھی۔
چارلی چپلن اپنی ماں کی یہ حالت دیکھ کر رو دیا اور بہت دیر تک روتا رہا دنیا کو ہنسانے والا اپنی ماں کو آنسوؤں کے تحفے کے سوا کچھ اور نہ پیش کر سکا۔
شاندار کار میں سوار ہو کر چارلی کی ماں اپنے محل نما گھر پہنچی تو ملازموں کی پوری فوج اس کی پذیرائی کے لیے موجود تھی۔ تمام گھر گلابوں اور قیمتی پردوں، فرنیچر اور قالینوں اور نوادرات سے سجا ہوا تھا مگر چارلی کی ماں کے لیے یہ سب چیزیں بے معنی اور بے کار تھیں۔ وہ نہ کچھ سمجھ سکتی تھی نہ کسی خوشی یا غم کا اظہار کر سکتی تھی۔ وہ ایک زندہ لاش بن چکی تھی۔
چارلی اس رات صبح تک ماں کے کمرے میں اس کے سامنے بیٹھا روتا رہا مگر اس کی معمولی سی تکلیف پر بے چین ہو جانے والی ماں محض خاموشی سے اسے دیکھتی رہی۔ نہ گلے لگایا نہ پیار کیا۔ نہ اس کے آنسو پونچھ کر اس کو تھپک کر بہلایا بچپن میں اس کی کہانیاں اور لوریاں سنانے والی ماں اپنے نامور اور عظیم بیٹے سے نہ کوئی بات کر سکی اور نہ اس کی کوئی بات سمجھ سکی۔
چارلی نے لکھا کہ اس روز مجھے دنیا اور زندگی سے نفرت ہوگئی اور انسان کی بے بسی اور لاچاری کا احساس ہوا۔ وہ سب کچھ ہو کر بھی کچھ نہیں ہے۔ اس کی کوئی ہستی ہی نہیں ہے ۔ وہ قدرت کے ہاتھ میں ایک کھلونے کی مانند ہے۔ ایک کٹھ پتلی ہے جس کی ڈور کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
چارلی نے یہ غم بھی اپنے دل میں چھپا لیا اور کچھ دنوں بعد خود ہی اپنے زخموں کی مرہم پٹی کرنے کے بعد زندگی کے میدان میں کود پڑا۔ اب اس کی فلموں میں پہلے سے زیادہ گہرائی، گداز اور غم ک ا دھیما دھیما تاثر پیدا ہوگیا تھا۔ اس نے زندگی کی حقیقت کو پا لیا تھا۔
کچھ عرصے بعد ایک بے حس و حرکت مجسمے کی طرح زندگی کے باقی ماندہ دن خاموش اور دنیا سے بے تعلقی کے عالم میں گزارنے کے بعد چارلی کی ماں دنیا سے رخصت ہوگئی۔ چارلی کو ساری زندگی یہ قلق رہا کہ اس کی ماں نہ تو اپنے بیٹے کی معراج دیکھ سکی اور نہ ہی اپنی خوابوں کی تعبیر۔ چارلی چپلن کی اپنی زندگی کی کہانی بھی کسی فلم سے کم دلچسپ اور سبق آموز نہیں تھی۔ یہ ایک ایسے شخص کی زندگی تھی جس پر سارا زمانہ رشک کرتا تھا جسے دنیا کی ہر نعمت میسر تھی جس کی خوش قسمتی ضرب المثل تھی اور جو زندگی بھرساری دنیا کوہنساتا رہا تھا۔ 
امیرکیون کے نزدیک چارلی چپلن کے دو جرم نا قابل معافی تھے۔ ایک تو یہ کہ چالیس سال سے زیادہ عرصہ امریکا میں رہنے کے باوجود ہو بدستور انگلستان کا شہری ہی رہا اس نے امریکی شہریت حاصل نہیں کی۔
دوسرا جرم اس سے بھی بڑا تھا۔ وہ ایک ترقی پسند اور آزادی پسند انسان تھا۔ترقی پسند خیالات کے باعث اس پر اشتراکی اور کیمونسٹ ہونے کا ٹھپ لگا دیا گیا جو اس زمانے میں ایک گالی اور امریکیوں کے نزدیک ناقابل معافی جرم تھا۔ چارلی نے اپنی صفائی پیش کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ وہ بدستور اپنے خیالات و نظریات کا اظہار کرتا تھا۔
حکومت نے اس کی نقل و حرکت کی کڑی نگرانی شروع کر دی۔ حکومت کے تابعدار میڈیا نے (آج کی طرح) اس کی کردار کشی اور اس کے خلاف نفرت پھیلانے کی مہم شروع کر دی۔ اس پر ملک سے غداری کے علاوہ بھاری ٹیکس ، چوری اور دیگر الزامات بھی عائد کر دیئے گئے تھے۔ آزادی کے علم بردار امریکا کا قانون پوری قوت سے حرکت میں آچکا تھا۔ اٹارنی جرنل اور جج جیمز میک گرانرینے چارلی چپلن کی گرفتاری اور اس کی جائیداد اور اثاثوں کی قرقی کے احکامات جاری کر دیئے تھے مگر چارلی چپلن کو اس کے وفادار دوست کافی عرصہ قبل ہی حکومت کے ارادوں سے آگاہ کر چکے تھے۔ اس نے مختلف اوقات میں اپنا سرمایہ امریکا سے باہر منتقل کر دیا تھا اور اثاثے بھی فروخت کر دیئے تھے۔
جس روز چارلی چپلن کو گرفتارکیا جانا تھا وہ اس سے پہلے ہی خاموشی سے اپنی فیملی کے تمام اراکین کے ساتھ صبح پانچ بجے بحری جہا زکوئین الزبتھ میں سوار ہو چکا تھا۔ اس کی شخصیت اور اصلیت کا سوائے اس کے انتہائی قریبی اور وفادار دوست فلمی صحافی اور نقاد جیمزایگی کے کسی کو علم نہ تھا ۔ امریکا کو شہرت اور عزت دینے والی ہستی چوروں کی طرح چالیس سال اس ملک میں بسر کرنے کے بعد رخصت ہو رہی تھی۔ تو اس کو الوداع کہنے کے جیمزایگی کے سوا کوئی اور موجود نہ تھا کیونکہ کسی اور کو علم ہی نہ تھا۔ یہ ستمبر1952ء کی سترہ تاریخ تھی۔
چارلی چپلن مصلحتاً جہاز کے عرشے پر بھی موجود نہ تھا۔ وہ اپنے کیبن کی کھڑکی سے جھانک کر اپنے جگری دوست جیمز ایگی کو الوداعی انداز میں ہاتھ ہلاتے ہوئے دیکھ رہا تھا مگر جواب میں سامنے آکر اسے الوداع نہیں کہہ سکتا تھا۔ یہ چارلی چپلن اور جیمزایگی کی آخری ملاقات تھی کیونکہ اس کے بعد اس زمین پر دوبارہ قدم نہیں رکھ سکتا تھا۔ چند سال بعد جیمزایگی کا ہارٹ فیل ہوگیا اور یہ دونوں دوست ایک دوسرے سے ملے بغیر ہمیشہ کے لیے ایک دسرے سے جدا ہوگئے۔ یہ داغا ور صدمہ ساری زندگی چارلی چپلن کے دل سے نہ ہٹ سکا۔
انتظامیہ کو بھی چارلی چپلن کی روانگی کا علم ہو چکا تھا مگر وارنٹ لے کر آنے والے کارندے اس وقت بندرگاہ پر پہنچے جب جہاز کھلے سمندر میں پہنچ چکا تھا۔ وہ ہاتھ ملتے رہ گئے۔
دو دن کے بعد ریڈیو سے چارلی چپلن کی روانگی کی خبر نشر ہوئی تو ساری دنیا حیران رہ گئی۔ کسی کو یقین نہیں آیا کہ ملک کی خدمت کرنے والے اس عظیم شخص کے ساتھ ایسا توہین آمیز سلوک روا رکھا گیا ہے۔(جاری ہے )

فلمی و ادبی شخصیات کے سکینڈلز۔ ۔ ۔قسط نمبر561 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں