مذاکرات ہی واحد راستہ

Dec 23, 2024

وزیراعظم شہباز شریف نے سپیکر قومی اسمبلی کی تجویز پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے مذاکرات کے لیے حکومتی اتحاد کے ممبران پر مشتمل مذاکراتی کمیٹی تشکیل دے دی۔ اس کمیٹی میں اسحاق ڈار، رانا ثناء  اللہ، سینیٹر عرفان صدیقی،راجہ پرویز اشرف، نوید قمر، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی، علیم خان اور چوہدری سالک حسین شامل ہیں۔وزیراعظم نے سپیکر قومی اسمبلی کی کاوش کو سراہتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ بات چیت کے دوران ملکی سلامتی اور قومی مفاد کو مقدم رکھا جائے گا۔ بیرسٹر گوہر نے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مذاکرتی کمیٹی کی تشکیل کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ وقت کی نزاکت دیکھتے ہوئے مذاکرات کو مثبت انداز سے آگے بڑھانا ہو گا کیونکہ مذاکرات ہی مسائل کا حل ہیں، اچھی سوچ کے تحت نہ صرف جامع بات ہونی چاہیے بلکہ مذاکراتی عمل کا ٹائم فریم بھی طے کرنا چاہئے۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کے لیے وزیراعظم کے اقدام کو خوش آئند قرار دیا،اُن کا کہنا تھا کہ نیک نیتی سے حکومت اور اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی ہے کیونکہ بات چیت اور مکالمے ہی سے آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ سپیکر کی مذاکراتی کمیٹیوں کو ملاقات کی دعوت کے بعد خیال ہے کہ کمیٹیوں کا پہلا اجلاس آج سپیکر چیمبر میں ہو گا۔پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے سپیکر قومی اسمبلی سے مذاکرات کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی استدعا کی تھی۔

قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان نے ایک نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ حکومت اِن مذاکرات کو   میں کتنی سنجیدہ ہے، یہ کمیٹی بااختیار بھی ہے یا کہ نہیں، نو مئی پر جوڈیشل کمیشن بنانے سمیت جماعت کے تمام مطالبات حکومت کے سامنے ہیں۔ البتہ سول نافرمانی کی تحریک سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ اس تحریک سے متعلق حتمی فیصلہ یا کال کی واپسی کا اختیار بانی پی ٹی آئی کا ہے۔ دوسری طرف دوسرے حکومتی رہنماؤں کی طرح مشیر قانون و انصاف بیرسٹر عقیل ملک نے بھی شعلہ بیانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے لیے پہلے ٹی او آرز طے ہوں گے، ایجنڈا طے کرنے کے بعد ہی بات آگے چل سکتی ہے تاہم اس میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی شامل نہیں ہو گی۔ان کے نزدیک یہ عدالتوں کا کام ہے اور اگر کسی کا خیال ہے کہ مذاکرات کی آڑ میں ڈیل یا ڈھیل ملے گی تو یہ غلط فہمی ہے،یہ کہیں نہیں لکھا کہ کسی کو عام معافی دے دی جائے گی۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ حکومت پہلے بھی سنجیدہ تھی اور اب بھی سنجیدہ ہے، گزشتہ 10 ماہ سے سب یہی راگ الاپ رہے تھے کہ مسائل کا حل صرف مذاکرات ہیں تاہم سول نافرمانی کی بندوق کے زور پر کہا جائے کہ مذاکرات کریں تو ایسے مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔

بات یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے تو اسد قیصر، عمر ایوب، سلمان اکرم راجہ، علی امین گنڈاپور اور حامد رضا پر مشتمل کمیٹی دو ہفتے قبل ہی تشکیل دے دی تھی جس میں چند روز بعد سینیٹر حامد خان اور مجلس وحدت المسلمین کے سینیٹر راجہ علامہ ناصر عباس کو بھی شامل کر دیا گیا تھا۔لیکن حکومت کی جانب سے نہ صرف کمیٹی کا معاملہ زیر التواء تھا بلکہ اس کے رہنماء غیر سنجیدہ رویے کا اظہار بھی کرتے رہے۔کوئی پی ٹی آئی کی طرف سے بنائی کمیٹی کے اختیار پر سوال اُٹھاتا رہا تو کوئی بانی پی ٹی آئی کے ماضی کے فیصلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے یو ٹرن لینے کی بات کرتا رہا اور کوئی ان مذاکرات کو سول نافرمانی کی کال سے جوڑتا رہا۔اب حکومتی کمیٹی کی تشکیل کے بعد تحریک انصاف کے رہنماء بھی کمیٹی کے اختیار کے بارے میں ایسی ہی گفتگو کرتے نظر آ رہے ہیں۔

یاد رہے کہ بانی تحریک انصاف نے ایکس اکاؤنٹ سے جاری پیغام میں پی ٹی آئی کے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کیاتھا اور مطالبات نہ ماننے کی صورت میں 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک اور بائیکاٹ مہم کا اعلان کیا تھا۔اُن کا کہنا تھا کہ سول نافرمانی کی تحریک دو مراحل پر محیط ہو گی جس کے پہلے مرحلے میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کریں گے کہ وہ ترسیلاتِ زر محدود کریں اور بائیکاٹ مہم چلائیں، جبکہ دوسرے مرحلے میں ’اس سے بھی آگے جائیں گے‘۔بعد ازاں اس تحریک کو موخر کر کے 23 دسمبر سے شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔یہ بھی یاد رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف 19 کروڑ پاؤنڈ مالیت کے القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جس کا آج سنایا جانا طے تھا لیکن اطلاع یہ ہے کہ اب نئی تاریخ دی جائے گی۔ ان سطور کی تحریر تک سول نافرمانی کی تحریک کی کال واپس نہیں لی گئی تھی، بہتر تو یہی ہے اس کو واپس لے لیا جائے تاکہ کسی قسم کے دباؤ کے بغیر بات چیت کا آغاز ہو سکے۔

یہ بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ احتجاج و پرتشدد واقعات سے مقاصد کا حصول ممکن نہیں ہے،اِس سے صرف تباہی برپا ہوتی ہے اور ملک کا نظام درہم برہم ہوتا ہے۔بہرحال اب حکومت کی طرف سے کمیٹی تشکیل دیدی گئی ہے، جمہوری رویہ یہی ہے، ہر مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی نکالا جا ئے۔ اچھی بات یہی ہو گی کہ غیر مشروط بات چیت ہو اور اس میں سے خیر برآمد ہو۔ حکومت یہاں بھی معاملات اِسی طرح آگے بڑھائے جس طرح اس نے اٹھارہویں اورچھبیسویں آئینی ترامیم کی منظوری کے لئے بڑھائے تھے۔ ساتھ ہی ساتھ حزبِ اختلاف اور حزبِ اقتدار دونوں سے ہی تعلق رکھنے والے اراکین ایک دوسرے پر تاک تاک کر نشانے مارنے سے گریز کریں، مزہ تو تب ہے جب بیان بازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی بجائے متفقہ حل پیش کرنے کا اہتمام کریں۔ جب مذکرات کا دروازہ کھولا ہی ہے، خدا خدا کر کے کفر ٹوٹا ہی ہے تو خلوصِ نیت سے آگے بڑھیں،دِل بڑا کریں، ایک دوسرے کے لئے اپنے بازو کھولیں اور وزیراعظم کی تجویز پر عمل کریں، ملکی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے فیصلے کریں۔کوشش کریں کہ جب تک کسی نتیجے پر نہ پہنچ جائیں تفصیلات عام نہ کریں تاکہ عوام اور میڈیا کو اس پر طبع آزمائی کا موقع نہ ملے۔ان مذاکرات کو کسی حتمی اور منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں،  القادر ٹرسٹ کیس کا جو بھی فیصلہ آئے اس سے مذاکرات کے عمل کو نقصان نہ پہنچے، اس پر جنگ آئینی و قانونی طریقے سے جاری رکھیں۔ ہر کھیل اصولوں کے مطابق ہی کھیلا جاتا ہے اور کھیلا جانا چاہئے، اِسی میں سب کی بھلائی ہے۔

مزیدخبریں