آخرت کے مراحل
آخرت کے دو بڑے مراحل ہیں۔ پہلا مرحلہ اس وقت شروع ہوگا جب پہلی دفعہ صور پھونکا جائے گا۔ یہ وہ مرحلہ ہے جسے ہم اردو میں قیامت لیتے ہیں۔قرآن کی اصطلاح میں یہ قیامت کا دن نہیں۔قرآن اس مرحلے کے لیے مختلف نام استعمال کرتا ہے جو اس دن کی نوعیت کے اعتبار سے رکھے گئے ہیں۔ مثلاً ’’الساعۃ‘‘ یعنی وعدے کی گھڑی، ’’القارعۃ‘‘ یعنی کھڑکھڑانے والی، ’’الواقعۃ‘‘ یعنی ہوکر رہنے والی وغیرہ۔ خدا نے جس آزمائش کے لیے انسان کو اس دنیا میں بھیجا تھا جب اس کے خاتمے کا وقت آئے گا تو انسانیت اور اس کے مسکن کی بساط لپیٹ دی جائے گی۔ مگر یہ کام اتنی سادگی سے نہیں ہوگا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، یہ واقعہ ہوکر رہے گا اور جب ہوگا تو بدترین تباہی کے ساتھ ہوگا۔ یہی وہ مرحلہ ہے جس میں دنیا کی مکمل بربادی کا ہولناک نقشہ قرآن میں جگہ جگہ کھینچا گیا ہے۔
معلوماتی سفرنامہ۔۔۔ بیسویں قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
قرآن کی اصطلاح میں ’’القیامۃ‘‘ دوسرے مرحلے کا نام ہے۔ یعنی وہ دن جب مردے زندہ کیے جائیں گے۔ اس مرحلے کے آغاز میں ایک دفعہ پھر صور پھونکا جائے گا اور پوری انسانیت کو زندہ کرکے اللہ جل جلالہ اپنے حضور جمع کرے گااور ان کے اچھے برے اعمال کا بدلہ دے گا۔ اسی مناسبت سے اسے یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یوم الحساب ، یوم الدین اور دوسرے بھی کئی اور نام ہیں جو پہلے مرحلہ کی طرح صفاتی ہیں۔ یعنی نام یہ بتارہے ہیں کہ اس دن کیا ہوگا۔
قرآن بالعموم ان دونوں مرحلوں کو ملاکر بیان کرتا ہے۔ اور غور کرنے پر ہی یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ فلاں بات کس مرحلے سے متعلق ہے۔ قرآن سے ایک اور بات معلوم ہوتی ہے کہ قیامت (اردو والی، مراد پہلا مرحلہ ہے) کائناتی سطح پر نہیں آئے گی بلکہ ہماری دنیا تک محدود رہے گی۔ اس دن کی تباہی کے اثرات کے لیے قرآن نے ’’السموات‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ’’السماء‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ بات سمجھ میں بھی آتی ہے کیونکہ وہ دن انسانیت کی موت کا دن ہوگا اور انسانیت صرف اس کرہ ارض پر بستی ہے، پوری کائنات میں نہیں۔ قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں مرحلوں کے درمیانی عرصے میں زمین و آسمانوں کو بدل کر کچھ سے کچھ کردیا جائے گا۔ (جس دن زمین و آسمان تبدیل کردیے جائیں گے اور لوگ اکیلے اور زبردست اللہ کے حضور حاضر ہوجائیں گے، ابراہیم 14: 48)۔ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ غالباً پہلے مرحلے کے بعد جو وقفہ آئے گا ۔ اور عین ممکن ہے کہ یہ کروڑوں اربوں سالوں پر محیط ہو ۔ اس میں زمین کو جنت کا روپ دے دیا جائے گا۔ سورۃالانبیاء کی آیت 105اور سورۃالزمر کی آیت 74 میں صراحت کی گئی ہے کہ زمین کے وارث خدا کے نیک بندے ہوں گے۔ جنتیوں کی اضافی سیر گاہیں آسمانوں پر ستاروں میں تیار کی جائیں گی۔ کیونکہ قرآن جنت کی وسعت زمین سے آسمان تک بتاتا ہے (آل عمران 3:133 اور الحدید57 : 21)۔ دوسری طرف اسی لامحدود کائنات میں جہنم بنائی جائے گی۔ ہوسکتا ہے کہ نو دریافت شدہ بلیک ہولز ہی وہ جگہ ہوں۔ کیونکہ کہا یہ جاتا ہے کہ کائنات کا اکثر حصہ انہی پر مشتمل ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح انسانوں کی اکثریت جہنم میں جائے گی۔
ممکنات کی دنیا
یہ تفصیلات قرآن کے اشارات پر مبنی ہیں اور اس بات کا پورا احتمال ہے کہ میں کسی جگہ غلطی پر ہوں۔ حقیقی علم تو صرف خدا کے پاس ہے۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ قارئین کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کراؤں کہ جو آخرت ہماری زندگی میں آخری حد تک ناقابلِ تذکرہ ہے وہ اس کائنات میں ہونے والا سب سے بڑا واقعہ ہے اور اب رونما ہونے کے بالکل قریب ہے۔ ویسے تو آخرت پر ہمارا ایمان ہے اور ہم غیب میں رہتے ہوئے اسے مانتے ہیں لیکن میں نے یہ دکھایا ہے کہ اس عالمِ اسباب میں بھی وہ سارے امکانات ہیں جن سے قرآن کی بات درست ثابت ہوتی ہے۔
ہم جنت، جہنم اور قیامت کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ یہ بڑی انہونی سی باتیں لگتی ہیں۔لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم ایک ایسی دنیا میں زندہ ہیں جہاں ہر چیز کبھی نہ کبھی بڑی عجیب اور انہونی ہوتی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص کا وجود آج سے صرف سو سال قبل کتنی انہونی بات تھی۔ میں نے یہاں خزاں رسیدہ مردہ درختوں کو موسمِ بہار میں زندہ ہوتے دیکھا۔ یہ بھی بڑی انہونی چیز ہے۔بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات ہم روز دیکھتے ہیں تو ان کا انہونا اور عجیب ہونامحسوس نہیں ہوتا۔ لیکن جس طرح یہ سب کچھ ہورہا ہے اسی طرح ایک روز قیامت کی انہونی بھی ہوجائے گی۔ اور جب ہوگی تو کوئی جھٹلانے والا نہ ہوگا۔ میں نے صرف یہ بتایاہے کہ سارے اسباب و حالات تیار ہیں اور اپنے آقا کے فرمان کے منتظر ہیں۔ جس روز اس کریم کی نگاہوں کا رنگ بدلا کوئی نہیں ہوگا جو اس واقعے کو روک سکے، ٹال سکے، جھٹلاسکے۔
موت آگئی قیامت آگئی
ہم میں سے بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ یہ قیامت جس کا اوپر تذکرہ ہوا ان پر نہیں آئے گی۔ چلیں مان لیا نہیں آئے گی مگر موت تو آئے گی نا۔ایک روایت جو ہے تو غریب مگر مفہوم اس کا ٹھیک ہے ، اس میں بھی یہ کہا گیا ہے کہ ’’من مات فقد قامت قیامۃ‘‘ یعنی جس کی موت آگئی اس کے لیے قیامت آگئی۔بعض اوقات یہ موت اس طرح آتی ہے کہ دوسروں کے لیے بھی قیامت کی نشانی بن جاتی ہے۔اتفاق سے جب میں یہ تحریر لکھ رہا ہوں اسرائیل میں ایک واقعہ پیش آیا جو کسی درجے میں قیامت سے مشابہ ہے۔وہاں ایک شادی کی تقریب میں لوگ جمع تھے۔ عمارت کی تیسری منزل پر یہ اجتماع ہورہا تھا۔ لوگ خوشی میں ناچ رہے تھے، میوزک بج رہا تھا، جامِ شراب گردش میں تھے کہ اچانک تیسری منزل کافرش پھٹا اور لوگ ایک دم سے نیچے چلے گئے۔ اس تقریب کی وڈیو بھی بن رہی تھی ا س لیے دنیا بھر کے ناظرین نے ٹی وی پر یہ منظر دیکھا کہ کس طرح لوگ مگن تھے اور اچانک زمین پھٹی اور پورے مجمعے کو نگل گئی۔ پیچھے صرف دھول اور چیخیں رہ گئیں۔ اس واقعے میں موت جس طرح تحیر اور یکبارگی کے ساتھ آئی ہے وہ کسی درجے میں قیامت کی یاددہانی ہے۔
بدلتے موسم کی حسین رت
کینیڈا کے موسم کی یہ خصوصیت ہے کہ گرمیوں کے چند دنوں کو چھوڑ کر پورے سال موسم کوئی بھی آئے، سردی کے جامے میں ہی آتا ہے۔ یہاں بہار کے موسم میں بارشیں بھی ہوتی ہیں مگر اس دفعہ کچھ دیر ہوگئی۔ تاہم مئی کے آخر میں ہلکی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جو جون کے وسط تک بہت تیز بارشوں میں تبدیل ہوگیا۔ ان بارشوں نے دم توڑتی سردی کوچند سانسیں اور عطا کردیں۔ جب بادل سورج کو ڈھانپ لیتے تو درجۂ حرارت کافی کم ہوجاتا ۔ ٹھنڈی ہوا جب چلتی تو سردی کا مزید اثر محسوس ہوتا۔بعض اوقات بہت تیز بلکہ گرج چمک کے ساتھ طوفانی بارش بھی ہوئی۔
ان بارشوں کے نتیجے میں ہر طرف سبزہ پھوٹ پڑا ۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ یہ لوگ فطرت کے ساتھ بڑا تعاون کرتے ہیں اور ہر جگہ گھاس کا فرش بچھادیتے ہیں۔ اس کے ساتھ اب ایک چیز اور اضافی طور پرنظر آئی۔ ہر عمارت کے سامنے رنگ برنگے پھول لگادیے گئے۔ یہ پھول بھی گھاس کی طرح خاص طور پر منگواکر لگائے جاتے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ بڑے بڑے ٹرکوں میں یہ پودے رکھ کر لائے جاتے اور تھوڑی دیر میں وہ جگہ گل و گلزار بنادی جاتی۔ یہ پھول اس قدر مختلف اور خوبصورت رنگوں کے ہوتے کہ انہیں دیکھ کر آنکھیں ہٹا نے کا دل نہیں چاہتا تھا۔ پہلی دفعہ اقبال کے اس شعر کی حقیقی تعبیر دیکھی:
پھول ہیں صحرا میں یا پریاں قطار اندر قطار
اودے اودے نیلے نیلے پیلے پیلے پیرہن
لیکن ایک بات ان پھولوں کے متعلق مجھے بعد میں پتا چلی۔ ایک صاحب نے میری توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ ان پھولوں میں رنگ بہت ہوتے ہیں خوشبو نہیں ہوتی۔ شاید یہ مغرب کی مادی تہذیب کا اثر ہے جس نے فطرت کو بھی آلودہ کردیا۔ مادیت میں رنگ تو ہوتا ہے مگر روحانیت کی خوشبو نہیں ہوتی۔ چند دنوں میں بارشوں کا یہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔جون کے تیسرے ہفتے میں بادل چھٹنے لگے۔ دھوپ پوری آب و تاب کے ساتھ نمودار ہوگئی۔ میرے اعتبار سے موسم انتہائی خوشگوار ہوگیا۔ میں نے اپنے ایک کولیگ سے اس موسم کو خوشگوار کہا تو اس نے جواب دیا، "It is too hot" ۔ گوروں کے لیے یہ گرمی کا جھٹکا تھا۔ ہر جگہ اے سی چلنے لگے۔ میں نے اپنا سر پیٹ لیا کہ بڑی مشکل سے قدرتی سردی سے جان چھوٹی تو مصنوعی سردی کی زد میں آگئے۔ حالانکہ موسم ابھی کوئی اتنا گرم نہیں ہوا تھا بلکہ رات کو ٹھنڈ ہوجاتی تھی۔ آپ اندازہ کریں کہ ابھی تک گھروں میں پانی بوائلر (Boiler) سے آرہا تھا۔ دراصل یہاں پانی براہِ راست جھیل سے آتا تھا اور اتنا ٹھنڈا ہوتا تھا کہ گرم پانی کو ملائے بغیر اسے استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا۔ہمارا بوائلر تین دن کے لیے خراب ہوگیا تو ایک مصیبت کھڑی ہوگئی۔ دو منٹ اس پانی میں ہاتھ ڈالنے کا مطلب یہ تھا کہ ہاتھ جم جائے۔ ویسے یہاں پانی مکس کرنے کے معاملے میں میرے ساتھ شروع میں بڑا مسئلہ ہوا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ پانی کس قدر ٹھنڈا ہوتا ہے۔ اس لیے میں حسب عادت تھوڑا سا گرم پانی کھول کر زیادہ ٹھنڈا پانی کھولتا تھااور ہمیشہ پانی ٹھنڈا ہی آتا۔ کچھ دنوں میں اندازہ ہوا کہ اس تناسب کو الٹ دینا چاہیے پھر کہیں جاکر معتدل پانی آنے لگا۔
دوپہر کاحسن
خدا نے ہر چیز میں حسن رکھا ہے۔ مگر یہ حسن اسی وقت اپنا اثر دکھاتا ہے جب اسے نموکے لیے تناسب کی زمین میسر آئے۔دو پہر اپنی تپش کی بنا پر بالعموم پسند نہیں کی جاتی۔ لیکن ٹورنٹو میں موسمِ گرما کی آمد آمد ہے۔ایسے میں دوپہر کے وقت جب سردی اور گرمی دونوں ایک دوسرے کی تعدیل کردیتی ہیں اور سورج کی تپش اور ہوا کی ٹھنڈ میں سے کوئی بھی دوسرے کو پچھاڑ نہیں پاتی تو دوپہر کا حسن آخری درجے میں ظاہر ہوجاتا ہے۔
مجھے شاید اس بات کا احساس اس لیے بھی ہوا کہ میں نے اپنی زندگی میں سب سے پہلے دوپہر کا حسن ہی دریافت کیا تھا۔ یہ میرے بچپن کا ذکر ہے جب کراچی میں درخت اتنے ناپید نہیں ہوئے تھے۔ ٹریفک کا بے ہنگم شور رات کے پرسکون سناٹے کو منتشر کرتا اور نہ دوپہر کے خاموش تقدس کو پامال۔ بڑے بڑے صحن اور کھلے برآمدے نئی نسلوں کی خانہ آبادیوں کے نتیجے میں بند کمروں میں نہیں بدلے تھے۔یہ تب کا ذکر ہے جب گھروں میں فضا کی قاتل گاڑیاں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ البتہ حیات بخش درخت اور پودے ہر گھر میں ضرور ہوتے تھے۔ گھروں کی آرائش کے لیے ڈیکوریشن پیس(Decoration Pieces) کے بجائے کیاریاں بنانااور گملوں میں پھول پودے لگانامعمول تھا۔
ایسے میں سردیوں کے دم توڑنے کے بعد جب گرمیوں کی دھوپ دبے پاؤں گھروں کے اندر داخل ہونے لگتی تو دوپہر کو ایک نئی زندگی ملتی۔ خاموشی کا ایک پردہ سا تن جاتا۔لوگ گھروں میں محوِاستراحت ہوجاتے۔ گلیاں ویران ہوجاتیں۔ آگ کی گول ٹکیہ آسمان تو روشن کرتی مگر نیم کی ٹھنڈی چھاؤں زمین کو تپنے نہیں دیتی تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے دھوپ کی حدت کو معدوم کردیتے۔ دھوپ کی تیزی میں درختوں کی چھاؤں سن فریم کا کام کرتی۔ سرسراتی ہوا درخت کے پتوں سے گزرتی تو لگتا کہ فطرت کوئی ازلی گیت گنگنارہی ہے۔ یوں محسوس ہوتا کہ جیسے وقت بھی چلتے چلتے تھک گیا ہے اور درخت کی چھاؤں میں کچھ دیر سستانے بیٹھ گیا ہے۔پرندوں کے سریلے نغمے اس کے لیے لوری کا کام کرتے جنہیں سنتے سنتے اسے نیندآجاتی۔پھر شام کے ڈھلتے سائے جب دوڑتے ہوئے اس کے پاس سے گزرتے تو ان کی آہٹ سے وہ ہڑبڑاکر اٹھتا اور اپنی راہ لیتا۔اس دور میں زندگی مصنوعی چیزوں سے خالی تھی۔ٹی وی کم تھا اور جتنا کچھ تھا وہ بھی دوپہر کو خاموش رہتا ۔ گاڑیوں کا شور بڑی شاہراہوں تک محدود تھا۔گھروں میں فون بھی شاذ ہوا کرتے اوران کی گھنٹی فضا میں ارتعاش نہیں پیدا کرتی تھی۔فون نہ ہونے سے لوگ رابطے میں نہیں تھے مگر دلوں کے رابطے اس طرح نہ ٹوٹے تھے جیسے آج ٹوٹ چکے ہیں۔ سہولتیں کم تھیں مگر سکون بہت تھا۔ آٹو میٹک مشینیں نہیں تھیں مگر پھر بھی وقت بہت ہوتا تھا۔ کمانے والا صرف ایک ہوتا مگر تنگی کی شکایت نہ تھی۔
پھر نہ جانے کس کی نظر اس سکون کو کھاگئی۔ گھروں میں مڈل ایسٹ کا پیسہ آنے لگا مگر ماؤں سے ان کے لال چھن گئے۔خانہ آبادیاں ہوئیں، انسان بڑھنے لگے مگر درخت گھٹ گئے۔ گاڑیاں بڑھنے لگیں مگر دوپہر کی خاموشی مٹ گئی۔تعلیم عام ہونے لگی مگر تہذیب رخصت ہونے لگی۔پیسے کی فراخی ہوئی مگر قناعت کی دولت لٹ گئی۔ اور نہ جانے کیا کیا ہوگیا۔آج کئی سالوں بعد ٹورنٹو کی ایک سنسان سڑک پر ، دوپہر کے وقت درختوں کے سائے اور ہوا کے جھونکوں میں ، مجھے وہی دوپہر یاد آگئی تو آپ کو بھی اس یاد میں شریک کرلیا۔
انٹاریو سائنس سنٹر (Ontario Science Center)
میں نے انٹاریوسائنس سنٹر کی بہت تعریف سنی تھی۔چنانچہ ایک روز وہاں کا ارادہ کیا۔ وہاں پہنچ کر داخلہ ٹکٹ کی تفصیلات معلوم کیں۔ یہ بارہ ڈالر کا تھا۔ ساتھ واقع اومنی میکس تھیٹر میں سائنسی موضوعات پر دستاویزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔ اس کا ٹکٹ دس ڈالر تھا اور اگر دونوں کا ٹکٹ ایک ساتھ لیں تو سترہ ڈالرکا پڑتا۔ جبکہ جمعہ ہفتے کی رات دو فلمیں ایک ساتھ دکھائی جاتی تھیں اور ا ن کا ٹکٹ صرف بارہ ڈالر تھا۔ میں نے یہی فیصلہ کیا کہ ایک دفعہ میں فلمیں دیکھ لوں اور دوسری دفعہ سنٹر کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ اتنا بڑا سنٹر دیکھنے کے لیے کافی وقت چاہیے اور ساتھ میں اگر ایک گھنٹے کی فلم بھی دیکھنی ہوتو وقت کافی کم پڑ سکتا ہے۔ لہٰذا میں نے یہ طے کیا کہ میں ایک دفعہ جمعے یا ہفتے کو آکر فلم اور دوسری دفعہ سکون سے سنٹر دیکھ لوں گا۔
(جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)
( ابویحییٰ کی تصنیف ’’جب زندگی شروع ہوگی‘‘ دور جدید میں اردو زبان کی سب زیادہ پڑھی جانے والی کتاب بن چکی ہے۔انہوں نے درجن سے اوپر مختصر تصانیف اور اصلاحی کتابچے بھی لکھے اور سفر نامے بھی جو اپنی افادیت کے باعث مقبولیت حاصل کرچکے ہیں ۔ ان سے براہ راست رابطے کے لیے ان کے ای میل abuyahya267@gmail.com پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔