نیشنل ایکشن پلان کی ایکشن کمیٹی کے اجلاس میں بہت سے اہم اور فوری نوعیت کے فیصلے کئے گئے ہیں جن میں سرفہرست دہشت گردی کے خاتمے کے لئے بلوچستان میں ملٹری آپریشن کی منظوری ہے اس بارے میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے بُری طرح نشانے پر ہے۔ دہشت گرد نہ صرف سیکیورٹی فورسز، سرکاری تنصیبات کو نشانے بنا رہے ہیں بلکہ خواتین، بچے اور نہتے شہری بھی ان کا شکار بنتے ہیں، گزرے چند دنوں میں انہوں نے دو واقعات میں سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں کو اپنی وحشت کا نشانہ بنایا ہے۔بنوں چیک پوسٹ پر حملہ آور ہو کر دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی چوکی کی دیوار سے ٹکرا دی جس سے 12جوان شہید ہو گئے۔ شہداء میں سکیورٹی فورسز کے دس اور ایف سی کے دو اہلکار شامل ہیں۔ سکیورٹی اہلکاروں نے خودکش حملے کے دوران ہمت نہیں ہاری دہشت گردوں کا مقابلہ کیا فائرنگ کے تبادلے میں 6خوارج کو واصل جہنم کیا۔ گزشتہ سے پیوستہ روز لوئر کرم میں ایسے ہی ایک خوفناک واقع میں 42سے زائد شہادتیں ہوئیں۔ جمعرات کی شام پارہ چنار سے پشاور جانے والی مسافر گاڑیوں پر مرکزی شاہراہ لوئر کرم کے علاقے اوچت میں گھات لگائے شرپسندوں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے 42 سے زائد مسافروں کو شہید کر دیا جبکہ 30سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ سب لوگ عام شہری تھے اور پولیس کی حفاظت میں محو سفر تھے۔ دہشت گرد ہماری روزمرہ کی عمومی سرگرمیوں پر چھائے ہوئے ہیں وہ جگہ اور وقت کا تعین خود کرتے ہیں اور پلک جھپکنے میں آگ و خون کا کھیل کھیل جاتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت و وحشت گردی کا جاری کھیل، امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف 9/11 کے بعد شروع کی گئی عالمی جنگ کا تحفہ ہے امریکہ آگ و خون کا یہ کھیل 20سال تک افغانستان میں کھیلتا رہا۔ ڈرون حملے بھی اسی جنگ کے دوران دیکھنے کو ملے۔ خودکش حملے بھی اس جنگ میں دیکھنے کو ملے۔امریکی اتحادی فوج کے زیر سایہ افغانستان میں نان سٹیٹ ایکٹرز منظم ہوئے ”را“ نے انہیں پاک افغان سرحدی علاقوں میں منظم کیا۔ انہیں تربیت دی۔ مالی اور اسلحی امداد مہیا کی اور پاکستان میں لالچ کیا۔ دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ تو افغانستان میں لڑی جارہی تھی لیکن دہشت گردی پاکستان کے خلاف ہونے لگی پہلے پہل دہشت گردی سرحدی اور غیر علاقوں تک محدود تھی لیکن دشمنوں کی کاوشوں سے یہ جنگ پھیلتے پھیلتے پاکستان کے بندوبستی علاقوں تک پھیل گئی۔تورخم کی سرحد سے لے کرپہاڑوں اور میدانوں سے ہوتے ہوئے دہشت گرد کراچی کے ساحلوں تک پہنچ گئے۔ وہ آرمی کے راولپنڈی میں جی ایچ کیو تک بھی پہنچے اور انہوں نے کراچی میں نیوی کی مرکزی تنصیبات کو بھی نشانہ بنا ڈالا۔ دو اورین جہاز بھی تباہ کر ڈالے۔ امریکہ افغانستان میں 20سال تک جنگ لڑتے لڑتے نڈھال ہو کرذلیل و خوار ہو کر واپس چلا گیا ہے ہمیں پختہ یقین تھا کہ کابل میں طالبان حکومت، پاکستانی دوست ہوگی ہماری آزمائش کے دن ختم ہو جائیں گے۔ ہماری پاک افغان سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی فوجوں کے انخلاء کے بعد طالبان کا کابل میں فاتحانہ داخلہ، ہمارے لئے باعث اطمینان بھی نہیں تھا بلکہ ہم نے بھی جشن منایا۔ طالبان کی فتح کو اپنی فتح جانا لیکن یہ سب کچھ سراب ثابت ہوا۔ ہماری مشکلات میں کمی کیاہونا تھی ہماری مشکلات میں اضافہ ہو گیا۔ طالبان نے کابل پر حکمران ہوتے ہی پل چرخی جیل کے دروازے کھول دیئے اور زمانہ بدنام تحریک طالبان پاکستان کے مجرم بھی رہا ہو گئے۔ اس کے علاوہ دیگر جیلوں سے بھی قیدی چھوڑ دیئے گئے ان کے جرائم کو دیکھے جانے بغیر، صرف اس بات پر کہ یہ لوگ امریکی دور کے قیدی ہیں، فیصلہ کیا گیا۔ پاکستان کو مطلوب کئی دہشت گرد بھی رہائی پا گئے۔ پھر ایسے دہشت گردوں کے ہاتھ جدید امریکی اسلحہ بھی لگ گیا۔ جدید نائٹ وژن گاگلز، لانگ رینج رائفلز، ہینڈگرینیڈز اور ایسے آلات کی دستیابی نے دہشت گردوں کی رسائی اور صلاحیت میں اضافہ کر دیا جس کے اثرات پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں نظر آ رہے ہیں۔ پھر بوجوہ، ہمارے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات میں ویسی گرم جوشی دیکھنے میں نہیں آئی جس کی ہم توقع کررہے تھے۔ ہماری سرحدیں اب شاید زیادہ غیر محفوظ ہیں، دہشت گردی وسعت پذیر ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی افغانستان کے حوالے سے ناکام نظر آ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایپکس کمیٹی کے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ چیلنجز سے نمٹنے کے لئے متحدہ سیاسی آواز اور قومی بیانیے کی ضرورت ہے۔
متحدہ سیاسی آواز اور قومی بیانیہ اب وقت کی اولین ضرورت بن چکا ہے کیونکہ ہم گزری دو دہائیوں سے دہشت گردی کے ناسور سے نمٹ رہے ہیں۔ سینکڑوں نہیں ہزاروں جانوں کی قربانی دے چکے ہیں۔ہمارے فوجی وغیر فوجی جوان و افسر قربانیاں دے رہے ہیں۔ شہری بھی قربان ہو رہے ہیں۔ اربوں ڈالر کا نقصان بھی اٹھا چکے ہیں، یہ سلسلہ جاری ہے لیکن دہشت گردی کا ناسور ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا، ہم نے اس جنگ میں کئی فقید المثال کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔دنیا ہمارے اداروں کی صلاحیتوں کی معترف بھی ہے لیکن یہ ناسور ختم نہیں ہو رہا۔
دہشت گردی کے خلاف ہماری سیکیورٹیز ایجنسیاں فرنٹ اور بیک لائن پر موجود ہیں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہیں ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں پر بھی کسی کو شک نہیں لیکن قوم اس ناسور کی بیخ کنی میں ابھی تک سیسہ پلائی دیوار نہیں بن سکی۔ عمران خان اور ان کی پارٹی نے اب تک ان دہشت گردوں کے خلاف ایک لفظ نہیں بولا، بلکہ حالیہ دہشت گردی کی لہر میں وہ جرائم پیشہ افراد شامل ہیں جنہیں عمران خان کے دور حکمرانی میں یہاں لایا گیا تھا۔ پشتونوں کی آڑ میں دہشت گردوں کے سہولت کار ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ہمارے یہاں کوئی ایسا نظم عمل موجود نہیں کہ عوام ایسے عناصر پر نہ صرف کڑی نظر رکھ سکیں بلکہ اداروں کو ان کی موجودگی اور سرگرمیوں بارے مطلع کر سکیں۔ یہاں لاہور میں سینکڑوں نہیں ہزاروں افغان مختلف قسم کی کاروباری سرگرمیوں میں مصروف ہیں ان کی سرگرمیاں مشکوک بھی ہوتی ہیں لیکن وہ کھلے عام پھرتے ہیں، کام کرتے ہیں، عوام انہیں دیکھتے ہیں ان کی حرکات پر تشویش کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن کسی منظم نظام کی عدم موجودگی کے باعث ان سرگرمیوں بارے متعلقہ محکموں تک اطلاع نہیں پہنچا سکتے،ایسے مذموم عناصر تحریک انصاف کی مزاحمتی و شرارتی تحریک میں بھی شامل پائے جاتے ہیں لیکن ہمارے ادارے کچھ نہیں کر پا رہے۔ عمران خان اور اس کے ماننے والوں کی ریاست دشمن سرگرمیوں بارے ہمارے سیاستدانوں میں اتفاق رائے نہیں پایا جاتا۔ پیپلزپارٹی ان کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کی کاوشیں کر چکی ہے، یہ تو عمران خان کا کمال ہے کہ اس نے اپنے پرانے بیانیے پر قائم رہتے ہوئے پیپلزپارٹی کے ساتھ ہاتھ ملانے سے انکار کر دیا۔ ایسے حالات میں ایپکس کمیٹی کا اعلامیہ وقت کی آواز ہے کہ ”متحدہ سیاسی آواز اور قومی بیانیے کی ضرورت ہے“ ہم بحیثیت پاکستانی جتنی جلدی ممکن ہو دہشت گردی کے خلاف ایک قومی بیانیے پر اکٹھے ہوں اور اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔