واہ جی واہ بعض خبریں ایسی ملتی ہیں کہ جی خوش ہو جاتا ہے۔ بندے کو کم از کم یہ اطمینان ہوتا ہے پاکستان کسی ایک معاملے میں تو ترقی کر رہا ہے اس ترقی کے نت نئے امکانات اور نت نئے روزن کھل ہے ہیں،جنہیں دیکھ کر سُن کر ساری کلفتیں دور ہو جاتی ہیں۔کل جب میں نے ایک ایسے ہی نئے امکان کے بارے میں سنا تو سوچنے لگا مایوسی گناہ ہے،ابھی مایوس ہونے کی بالکل ضرورت نہیں، خبر میں ذکر کر رہا ہوں رشوت کے شعبے میں روز افزوں ترقی کا،اس میں ہم خود کفیل تو پہلے ہی تھے اب آئیڈیا2025ء کے بھی ہو رہے ہیں،گویا دوسرے ممالک کو برآمد کر کے لمبا زرِمبادلہ بھی کما سکتے ہیں، جس واقعہ نے میرے اس خیال کو پختہ کیا، وہ کل آصف گلزار نے سنایا۔آصف گلزار ایک باشعور نوجوان ہیں،روشن خیال تاجر رہنما ہیں اور سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔انہوں نے بتایا اُن کے کزن نے زمین کا انتقال کرانا تھا۔ آصف گلزار نے پٹواری سے رابطہ کرنے کا کہا اور نمبر بھی دیا۔اُن کے کزن کا پٹواری سے رابطہ ہوا تو اُس نے ایک موٹی رقم بتا دی۔ کزن چونکہ نوجوان تھا اسی لئے اُس نے سوچا جائز کام ہے پیسے کیوں دوں،وہ افسروں کے پاس اپنی شکایت لے کر گیا، پٹواری سے متھا کون لگائے،اُس نے افسروں کو ایسے کرتب دکھائے کہ وہ کام کرنے کی بجائے اُس نوجوان کو چکر ہی دیتے رہے۔پندرہ دن گذر گئے تو اُس نے آصف گلزار کو فون کیا اور بتایا پندرہ دن ہو گئے کام نہیں ہو رہا۔ تحصیلدار کبھی ملتا نہیں،مل جائے تو پٹواری اُس کے ہتھے نہیں چڑھتا یا وہ اُسے ملانا نہیں چاہتا۔ اسسٹنٹ کمشنر ریونیو کے پاس کئی چکر لگائے،مگر وہ دفتر میں دستیاب ہی نہیں ہوتے۔ آصف گلزار نے پوچھا تحصیلدار کون ہے؟ اُن کے کزن نے بتایا کوئی رانا صاحب ہیں،وہ اُن کے پاس چلے گئے جو میز پر ٹانگ رکھے سیب کھا رہے تھے۔ آصف گلزار بتاتے ہیں انہوں نے تحصیلدار سے بات کی اور کہا پندرہ دن سے زمین کا انتقال نہیں ہو رہا۔تحصیلدار نے پوچھا پٹواری کون ہے،نام بتایا توکہنے لگے کتنے پیسے مانگ رہا ہے۔ ”40ہزار مانگ رہا ہے“ جواب دیا گیا،یہ سن کر تحصیلدار کہنے لگا50ہزار میں آپ کا کام ہو جائے گا۔ آصف گلزار نے کہا 40ہزار تو پٹواری مانگ رہا تھا، آپ 50مانگ رہے ہیں،تحصیلدار نے فرمایا وہ پٹواری ہے میں اُس کا افسر ہوں،کیا میں بھی اتنے ہی لوں۔ویسے اب آپ اُس کے پاس جائیں گے تو وہ60 ہزار مانگے گا، پھر خود ہی کہنے لگا میری تین بیویاں ہیں روزانہ خرچہ مانگتی ہیں،ظالمو نے گاڑیاں بھی علیحدہ علیحدہ رکھی ہوئی ہیں اب بتائیں میں کیا کروں، کیا تنخواہ میں اُن کے نخرے اُٹھا سکتا ہوں۔ آصف گلزار یہ سن کر ہکا بکا رہ گئے،پہلے تو رشوت ڈھکے چھپے انداز میں لی جاتی تھی اب تو علی الاعلان اپنی عیاشی اور خرچوں کو پورے کرنے کے لئے لی جاتی ہے۔میں نے پوچھا کہ پھر بنا کیا، کہنے لگے بڑی مشکل سے تحصیلدار کو راضی کیا، دو بیویوں کا خرچہ ہمارے ذمے ڈالے ایک کا خود اٹھائے اور 40ہزار دے کر کام کرا لیا۔میں نے کہا آپ نے تو بڑی جلدی ہتھیار ڈال دیئے۔ آصف گلزار کہنے لگے اگر ہم تحصیلدار سے اوپر والے افسر کے پاس جاتے تو ریٹ 70 ہزار ہو جانا تھا اِس لئے اِسی میں عافیت سمجھی کہ یہیں جان چھڑا لو۔
کچھ دن پہلے خبر آئی کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے واپڈا کے میٹر ریڈر کی درخواست ضمانت خارج کر دی ہے۔ ایف آئی اے ہو یا انٹی کرپشن چُن چُن کے ایسے کیسز بناتی ہے جن میں کوئی میٹرریڈر،کوئی کلرک،کوئی پٹواری یا کوئی معمولی سرکاری ملازم ملزم ہوتاہے۔یوں لگتا ہے جیسے رشوت اب صرف نچلے ملازمین تک رہ گئی ہے اوپر والے گنگا میں نہا کر پاک صاف ہو گئے ہیں جس دن اس ملک میں رواج پڑگیا کہ پٹواری یا رجسٹری محرر رشوت لیتے پکڑا گیا تو ڈپٹی کمشنر کے خلاف مقدمہ ہو گا یا لائن مین کرپشن میں ملوث ہوا تو ا یکسین کو ذمہ دار قرار دیا جائے گا، یعنی ہر دفتر کے بڑے کو اُس کے نیچے ہونے والی کرپشن کا ذمہ دار ٹھہرا کر کارروائی کی جائے گی،کرپشن تمام دفاتر سے اس طرح غائب ہو جائے گی جیسے گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں۔آج اگر تحصیلدار اپنے دفتر کی میز پر راجہ اِندر بن کر بیٹھتا ہے اور اسے بیویوں کی فرمائشیں پوری کرنے کے لئے رشوت مانگتے ہوئے کوئی خوف محسوس نہیں ہوتا تو اُس کی وجہ یہ ہے وہ کمشنر اور ڈپٹی کمشنر کی فرمائشیں بھی اتنی شدو مد سے پوری کر رہا ہے،اُسے پتہ ہے ڈپٹی کمشنر اور کمشنر کبھی نہیں چاہیں گے اُن کے کماؤ پوت مارے جائیں،وہ انہیں بچائیں گے تحفظ دیں گے یہی افسر اپنے دفاتر میں کرپشن کی گنگا بہتے دیکھتے ہیں،کوئی کارروائی تو درکنار انٹی کرپشن والوں کو یہ کہہ دیتے ہیں بھولے سے بھی ہماری زیر نگرانی کام کرنے والوں کی طرف نہیں دیکھنا۔ البتہ گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے،بلکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اور وزیراعلیٰ کو سب اچھا کی رپورٹ دینے کی خاطر کھلی کچہریوں کا ڈرامہ رچائیں گے ایسے افسروں کی جواب طلبی ہونی چاہئے جن کی کھلی کچہریوں میں انہی کے دفاتر کی کرپشن سے تنگ آئے ہوئے سائلین اُن کی کھلی کچہری میں انصاف مانگنے اپنے مسائل حل کرانے آتے ہیں ان افسروں کا کروفر دیکھو تو قوم کے کروڑوں روپے برباد ہوتے دکھائی دیتے ہیں اور کارکردگی چیک کرو تو ان کے دفاتر عوام کے لئے اذیت گاہ بنے ہوئے ہیں، جن سے بچنے کے لئے وہ جھوٹی تسلی کی خاطر ہی سہی کھلی کچہریوں میں فریاد لے کر پہنچ جاتے ہیں۔
اس ملک کا المیہ اب یہ ہے یہاں قانون ایسی جلیبی بن گیا ہے جس کا کوئی سرا بھی عوام کو نہیں ملتا اور طاقتوروں نے اپنے اپنے مورچے بنا لئے ہیں، سی ایس پی افسروں کا اپنا ایک مورچہ ہے،اُس کی طرف کسی حکمران،کسی ایف آئی اے یا انٹی کرپشن کی نظر نہیں جا سکتی،کبھی ایسی بے لگام بیورو کریسی بھی دنیا میں کسی نے دیکھی ہے،جو اپنے ہی حکمرانوں کو آنکھیں دکھاتی ہے اور انہیں کرپشن یا من مانی سے روکنے کی جسارت کی جائے تو کام روک دیتی ہے۔ پٹواریوں کو قابو کرنے کے ئے کمپیوٹرائزڈ اراضی ریکارڈ سنٹر بنائے گئے تو خلق ِ خدا نے یہ سوچ کر سُکھ کا سانس لیا کہ اب زمینوں کی خریدو فروخت میں رشوت اور گڑ بڑ ختم ہو جائے گی،مگر یہ سب خام خیالی تھی۔ پٹواری آج بھی اس نظام کا سب سے بڑا کل پرزہ ہیں اُس سے آپ نے بنا کر نہیں رکھی تو پھر غشی کے دورے آپ کا نصیب بن جائیں گے۔ پولیس کی رشوت سب کو نظر آ جاتی ہے، کیونکہ وہ بندہ اُٹھا کر رشوت مانگتی ہے، جو رشوت کی گنگا ہمارے پورے دفتری نظام میں بہائی جا رہی ہے اس کا توپتہ بھی نہیں لگتا اور لوگ لٹ جاتے ہیں۔پہلے تو حکمرانوں کی طرف سے رشوت خوروں کے خلاف بیانات بھی آ جاتے تھے اب تو اس کا چرچا بھی کوئی نہیں کرتا،حالانکہ خلق ِ خدا کی زبان پر رشوت کی گرم بازاری کے وہ چرچے ہیں کہ الامان!