انتخابی نشان نہ دینا سیاسی جماعت کے انتخاب لڑنے کے قانونی و آئینی حق کو متاثر نہیں کرتا: مخصوص نشستوں کا تفصیلی فیصلہ جاری

Sep 23, 2024 | 12:24 PM

اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن )سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کا تحریری فیصلہ جاری کرتے ہوئے تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیدیا ہے اور کہا کہ انتخابی نشان نہ دینا سیاسی جماعت کے انتخاب لڑنے کے قانونی و آئینی حق کو متاثر نہیں کرتا، آئین یا قانون سیاسی جماعت کو انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتا۔

مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کا تفصیلی  فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے تحریری کیا ہے جو کہ 70 صفحات پر مشتمل ہے جس کا بڑا حصہ اختلافی نوٹ پر مبنی ہے۔ جس میں کہا گیاہے کہ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہیں ، الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین سے متصادم ہے الیکشن کمیشن کے یکم مارچ کے فیصلے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے ۔ انتخابی نشان نہ دینا سیاسی جماعت کے انتخاب لڑنے کے قانونی و آئینی حق کو متاثر نہیں کرتا، آئین یا قانون سیاسی جماعت کو انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے نہیں روکتا ۔

فیصلے کے مطابق پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے ، تحریک انصاف نے 2024 کے عام انتخابات میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں جیتی یا حاصل کیں ، الیکشن  کمیشن نے تحریک انساف کے 80 میں سے 39 ایم این ایز کو تحریک انصاف کا ظاہر کیا ، الیکشن کمیشن کو کہا وہ باقی 41 ایم این ایز کے بیان 15 روز کے اندر دسستخط شدہ بیان لیں ، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حق دار ہے ، عوام کی خواہش اور جمہوریت کیلئے شفاف انتخابات ضروری ہے۔

جمہوریت کا اختیار عوام کے پاس ہے ، عوام کا ووٹ جمہوری گورننس کا اہم جز وہے ، الیکشن کمیشن مخصوص نشستوں پر تحریک انصاف کے امیدواروں کو نوٹیفائی کرے ، تحریک انصاف قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کی حقدار ہے ، آئین عوام کو اپنا جمہوری راستہ بنانے کا اختیار دیتاہے ۔

بھارری دل سے بتاتے ہیں دو ساتھی جسٹس امین الدین ، جسٹس نعیم اختر افغان  نے ہمارے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا ۔ساتھی ججز کے تین اگست کے اختلافی نوٹ سپریم کورٹ کے ججز کے حوالے سے مناسب نہیں ہیں ، ان ججز نے کہا ہمارا فیصلہ آئین کے مطابق نہیں ہے ، جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کا عمل سپریم کورٹ کے ججز کے منصب کے منافی ہے ، بطور بینچ ممبران وہ قانونی طور پر حقائق اور قانون سے اختلاف کر سکتے ہیں ،ساتھی ججز مختلف رائے دے سکتے  ہیں ، ساتھی ججز دوسرے کی رائے پر کمنٹس بھی دے سکتے ہیں ، رائے دینے کیلئے وہ وجوہات بھی دیں کہ دوسرے ججز کی رائے میں کیا غلط ہے ، انتخابی تنازع بنیادی طور پر دیگر سول تنازعوں سے مختلف ہوتا ہے ۔

سپریم کورٹ کا الیکشن کمیشن کے فیصلے پر حیران کا اظہار

سپریم نے الیکشن کمیشن کے رویے پر بھی حیرانی کا اظہار کر دیا، عدالت نے کہا کہ الیکشن کمیشن بنیادی فریق مخالف کے طور پر کیس لڑتا رہا، الیکشن کمیشن کا بنیادی کام صاف شفاف انتخابات کرانا ہے، الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی عمل میں نمایاں غلطیوں کے باعث عدالتی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے۔

اس میں بتایا گیا کہ رول 94 آئین اور الیکشن ایکٹ 2017 سے متصادم ہے، رول 94 مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے طریقہ کار سے متعلق ہے، انتخابی رولز الیکشن ایکٹ کے مطابق ہی بنائے جا سکتے ہیں، انتخابی رولز میں ایسی چیز شامل نہیں کی جا سکتی جو الیکشن ایکٹ میں موجود نہ ہو، رول 94 کی وضاحت میں لکھا گیا ہے کہ سیاسی جماعت اسے تصور کیا جائے گا جس کے پاس انتخابی نشان ہو، رول 94 کی وضاحت آئین کے آرٹیکل 51(6) اور الیکشن ایکٹ کی شق 106 سے متصادم ہے، انتخابی نشان نہ ہونے پر مخصوص نشستیں نہ دیا جانا الیکشن کمیشن کی طرف سے اضافی سزا ہے۔

کیس کا پس منظر
6 مئی کو سپریم کورٹ نے 14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بینچ کو ارسال کردیا تھا۔

3 مئی کو ‏پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو مخصوص نشستیں نہ ملنے کا مقدمہ سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہوگیا تھا۔

4 مارچ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی درخواستیں مسترد کردی تھیں۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں 5 رکنی کمیشن نے 28 فروری کو درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل 53 کی شق 6، الیکشن ایکٹ کےسیکشن 104 کےتحت فیصلہ سناتے ہوئے مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کی سنی اتحاد کونسل کی درخواست کو مسترد کردیا تھا۔

چار ایک کی اکثریت سے جاری 22 صفحات پر مشتمل فیصلے میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ نہیں کی جا سکتی، قانون کی خلاف ورزی اور پارٹی فہرست کی ابتدا میں فراہمی میں ناکامی کے باعث سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے لسٹ جمع نہیں کرائی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہیں گی، یہ مخصوص متناسب نمائندگی کے طریقے سے سیاسی جماعتوں میں تقسیم کی جائیں گی۔

الیکشن کمیشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔

چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

بعد ازاں 4 مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو ’غیر آئینی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔
 

مزیدخبریں