ماحولیاتی تبدیلی کا چیلنج، برطانیہ اور اٹلی کی قابل تعریف کوششیں

Sep 24, 2021 | 08:46 PM

زینب وحید

ٹویٹر  ہو انسٹاگرام یافیس بک، آج کل ٹرینڈز میں آپ کو Pre-COPاور(COP26) کہیں نہ کہیں  ٹرینڈنگ کرتے نظر آہی جاتے ہیں ۔ ہمارے جیسے لوگ عام طور پر اس کو نظرا نداز ہی کر دیتے ہیں کہ جانے یہ کیا بلا ہے بلکہ ہم سکرول کرتے ہیں کہ کہیں سیاسی لڑائی جھگڑے، سیاسی گالم گلوچ ، مینار پاکستان جیسے واقعات ،شو بزشخصیات کے لڑائی جھگڑے، شادی یا  اُن کے ہاں بچے کی پیدائش، بچے کا نام  اور بگ باس  میں کام کرنے والے سی گریڈ فنکاروں کے سکینڈلز مل جائیں لیکن حالات بہت سنجیدگی کا تقاضہ کر رہے ہیں۔یہ جو آپ کو ٹرینڈ پر  Pre-COPاور(COP26)  نظر آتے ہیں، یہ دراصل  دنیا کے سب سے سنگین اور سلگتے ہوئے مسائل کی طرف  آپ کی توجہ دلاتے ہیں۔ 
Pre-COPوہ ماحولیاتی کانفرنس ہے  جو 30 ستمبرسے 2 اکتوبر 2021 تک  اٹلی کے خوبصور ت شہر میلان میں ہو رہی ہے اور اس کے انعقاد میں اٹلی کو برطانیہ کا بھی تعاون حاصل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی اس میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز بخشا ہے اور  انشاء اللہ میں اس  کانفرنس کے دوران ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لئے پاکستان کے اقدامات اور کوششوں کو دنیا بھر کے نوجوانوں کےسامنے پیش کروں گی۔ 
 Pre-COP کانفرنس کےدوران پاکستان سمیت تقریباًچالیس ممالک سےآنےوالےنوجوان ماحولیاتی تبدیلی کےموضوع پرگلاسکومیں ہونےوالی (COP26 )  کانفرنس کا ایجنڈا طے کریں گے۔ کانفرنس کے ایجنڈے کے مطابق میں دنیا بھر سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سمارٹ انداز اور تیز رفتاری کے ساتھ  کام کرنے والے گروپوں میں شرکت  کروں گی اور ٹھوس تجاویز COP26 میں شریک وزراء کو پیش کی جائیں گی۔اس بڑی کانفرنس کا موضوع UNITING THE WORLD TO TACKLE CLIMATE CHANGE منتخب کیا گیا ہے۔ کانفرنس کی میزبانی برطانیہ کر رہا ہے۔ COP26 کے تحت برطانیہ تمام سٹیک ہولڈرزکو ایک موقع فراہم کرے گا کہ وہ پیرس معاہدے اور ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے تحت اہداف حاصل کرنے کے لئے کوششیں تیز کریں۔

میزبان کے طور پر برطانیہ تمام ممالک، انٹرنیشنل سول سوسائٹی، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور افراد سے مل کر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے  پرعزم ہے۔ اس کانفرنس میں 35 سے 40 ممالک ، یو این ایف سی سی سی سیکریٹریٹ کے نمائندے ، کنونشن کے ماتحت اداروں کی چیئرز اور دیگر سٹیک ہولڈرز شرکت کریں گے۔ہم یہ سمجھیں کہ  (COP26)  ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع پر بڑی کانفرنس ہےاور  Pre-COP اس موضوع پر چھوٹی کانفرنس ہے۔ تو اس چھوٹی کانفرنس کواٹلی کی وزارت ماحولیات  کر و ا رہی ہے اور اس کا موضوع  Youth4Climate#DriveingAmbition  منتخب کیا گیا ہے۔ جب سے اس کانفرنس کے لئے میرا انتخاب ہوا ہے، مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اٹلی نے مجھے گود لے لیا ہے۔ ہر تھوڑی دیر کے بعد ایک ای میل آتی ہے کہ آپ کیسی ہیں؟ صحت کیسی ہے؟ کھانسی تو نہیں ہو رہی؟ آنکھیں تو نہیں جل رہیں؟ کھانا وقت پر کھائیں، پانی زیادہ پئیں،  کانفرنس کی تیاری کے طور پرورچوئل اور انٹرایکٹو میٹنگز کا  ایک سلسلہ جاری ہے جس میں شریک  تمام ممالک کے نوجوان اپنے خیالا ت کا اظہار کر رہے ہیں ۔

اس سلسلے کو Youth4ClimateLiveSeries کا نام دیا گیا ہے ۔یہ بات مجھے بھی بہت دیر سے پتہ چلی کہ اٹلی والوں کو میری کم اور اپنی فکر زیادہ ہے کہ کہیں کوئی بیمار  ان کی سرزمین پر قدم رکھ کر انہیں بھی بیمار نہ کر  دے۔ لاہور سے دبئی اور دبئی سے میلان تک صحت کے حوالے سے کن ہدایات  پر عمل کرنا ہے، ان کو قلم بند کرنے کے لئے پوری کتاب درکا ر ہے، لیکن اس کا ذکر اگلے آرٹیکل میں کروں گی۔ مجھ سمیت دنیا بھر کے ماحولیاتی تبدیلی کے لئے کام کرنے والے ایکٹوسٹس کا خیال ہے کہ تیزی سے ہاتھوں سے نکلنے والی  ماحولیاتی تبدیلی کو کنٹرول کرنے کے نئے عزم اور وعدوں پر عملدرآمد کرنے کے لئے (COP26)  آخری موقع ہو سکتا ہے ۔کانفرنس کے دوران شریک ممالک کے منتخب گروپس ان امور اور پہلوؤں پر غور کریں گے  کہ کس طرح بدلتے ہوئے موسم کے برے اثرات سے بچا جا سکتا ہے ۔  اقو ام متحدہ  ترقی یافتہ ممالک کےساتھ مل کر تین دہائیوں سے تقریباً تمام ملکوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر رہا ہے تاکہ عالمی سطح پر  آب و ہوا کے مسائل سے نمٹا جا سکے اور اسی کو COPs کہا جاتا ہے، یعنی ‘Conference of the Parties’ ۔
 موجودہ دور میں ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ بن کر تقریباً تمام ملکوں کی  ترجیح بن گئی ہے۔برطانیہ دنیا کےدیگر ممالک کےساتھ مل کر کوشش کر رہا ہےکہ ماحولیاتی تبدیلی کو کنٹرول کیا جا سکے۔ہمارے ملک میں بھی اب موسم بدل رہا ہے۔ کراچی سے لے کر گلگت تک اور پشاور سے گوادر تک گرمی کی شدت کم ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن اگلے  سال  جون میں یہ دن دوبارہ آجائیں گے اور ہر  گزرتے دن کے ساتھ  تپش میں مزید شدت آتی جائے گی۔ حالات اتنے اچھے نہیں جتنے نظر آتے ہیں ۔ کرہ ارض کے درجہ حرارت کو کنٹرول میں رکھنے کےلئے ضروری ہے کہ اس میں  اضافے کو 1.5 ڈگری تک محدود  کیا جائے۔ دنیا نے اپنے لئے 'نیٹ زیرو' کا ایک ہدف رکھا ہے جس کا مطلب ہے کہ اس  صدی کے  نصف تک ہمیں کاربن کی   پیداوار کم کرنی ہے۔

اس وقت دنیا ایک کم کاربن مستقبل کی طرف بڑھ رہی ہےلیکن بدقسمتی سے کارکن کے اخراج کو کم کرناہی  کافی نہیں ہے۔سچ پوچھیں تو  بہت سی قوموں کے لئے  تصویر کا دوسرا رخ بہت بھیانک ہے۔اگر ہم درجہ حرارت کو 1.5 ڈگری تک محدود کرنے اور آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات کو اپنانے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں اپنی زمین اور سمندروں کی دیکھ بھال  کرنا ہوگا۔اگر ہم دنیا کی بائیو ڈائیورسٹی کی حفاظت اور بحالی چاہتے ہیں  تو  COP26 میں تمام ممالک کو عزم مصمم  کرناہو گاکہ دیگر شراکت داروں کےساتھ مل کر جنگلات اور خراب ہوتےماحولیاتی نظام کی حفاظت  کی جائےاورجہاں خرابی ہو چکی ہےاس کو درست کرنےکے  لئے مل کر کام کریں۔امیر اور غریب  کو مل کر  پائیدار ، لچکدار اور فطری مثبت زراعت کی طرف منتقل ہونا پڑے گا۔ 
یہاں میں اگر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے برطانیہ اور اٹلی کی کوششوں کا اعتراف نہ کروں تو بہت زیادتی ہوگی ۔برطانیہ تمام دنیا سے کہہ رہا ہے کہ وہ 2030ء تک  کاربن کے اخراج میں کمی کے اہداف کے ساتھ آگے بڑھیں اور ایسے اقدامات کریں کہ صدی کے وسط تک نیٹ زیرو کا ٹارگٹ حاصل کر سکیں ۔ برطانیہ اور اٹلی دنیا کو یاد کروا رہے ہیں کہ موسمی تبدیلی لمحہ موجود کا سب سے بڑا خطرہ ہے۔ایسے وقت میں جب  دنیا بھر میں طوفان ، سیلاب اور جنگلات کی آگ شدت اختیار کر رہی ہے، فضائی آلودگی خطرناک حد تک  لاکھوں لوگوں کی صحت برباد کر رہی ہے،  غیر متوقع موسم سے لاکھوں لوگ بے گھر ہو رہے ہیں اور دنیا بھر میں معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے، ان حالات میں ماحولیاتی  تبدیلی کے تباہ کن اثرات سے نمٹنے میں پیشرفت ، آنے والی نسلوں کو صاف ہوا  اور اچھی ملازمت  کی فراہمی ، فطرت کی بحالی اور مساو ی معاشی ترقی کے لئے دنیا کونہ صرف  مل کر کام کرنا ہوگا بلکہ  ہنگامی اقداما ت بھی کرنا ہوں گے۔ 
بات چل نکلی ہے تو ایک نظر 2015ء کے پیرس معاہدے پر ڈال لیتے ہیں جب پہلی بار  دنیا کو احساس ہوا کہ  گلوبل وارمنگ بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور اب تمام دنیا کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ 12 دسمبر 2015ء کو پیرس کی  ماحولیاتی کانفرنس  کے دوران  دنیا نے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت  2050ء تک دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کو 2  ڈگری تک محدود کیا جانا تھا۔ اس معاہدے کے لئے    پیرس میں دو ہفتے مذاکرات ہوتے رہے  اور عزم کیا گیا  دنیا بھر میں   کاربن کے اخراج میں  کمی کی جائےگی۔  معاہدے کے تحت عالمی  دنیا اپنی کوششیں تیز کرے گی اور عالمی سطح پر درجہ حرارت کو  1.5 ڈگری تک محدود کیا جائے گا۔  پیرس میں  ا تفاق کیا گیا  کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرات  پہلے کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہیں، پیرس معاہدے کے تحت ہونے والی پیش رفت کا ہر پانچ برس بعد جائزہ لیا جائے گا۔ 2020ء سے ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کےلئے  سالانہ ایک سو ارب ڈالر کی مالی مدد فراہم کی جائے گی اور پھروقت کے ساتھ  اس  میں اضافہ کیا جائے گا۔دنیا کے تمام ممالک  عالمی سطح پر درجہ حرارت کو 2 درجے اضافے تک محدود کرنے کےقانونی طور پر عملدرآمد کے پابند ہوں گے۔
تھوڑا اور پیچھے جائیں تو  2009ء میں  امیر ممالک نے  اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ 2020ء تک ہر سال 100 بلین ڈالر کا فنڈ جمع کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ   ماحولیاتی  تبدیلی کےاثرات سےبچانےکےلئےتمام ممالک کی مدد کی جاسکے۔اب اس ماہ کےآخرمیں  میلان  میں Pre-COP اورگلاسکو میں (COP26 )کے دوران ماضی پر نظر دوڑائی جائے گی کیا کھویا  اور کیا پایا؟کس نے وعدے کر کے توڑ دیئے اور کس نے وعدے کو نبھایا۔ 2021ء کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل  طے کیا ہو گا؟ یہ بات قابل ذکر اور قابل ستائش ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں نمایاں حصہ نہ ہونے کے باوجود پاکستان ماحولیاتی تبدیلی کی مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لئے نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔

(زینب وحید ماحولیاتی تبدیلی کیلئے کام کرنے والی معروف سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ اور کیمرج کی طالبہ ہیں۔ وہ صف اول کی مقررہ،مصنفہ اورمتعدد عالمی شہرت یافتہ اداروں کی سفیربھی ہیں ۔ زینب وحید مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں جس کے بعد انہیں اقوام متحدہ کی یوتھ سمٹ میں شامل کیا گیا۔زینب وحید کے سوشل میڈیا لنکس مندرجہ ذیل ہیں twitter.com/UswaeZainab3  facebook.com/uswaezainab.official)

 نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں