اوکاڑہ کے ایک مذہبی گھرانے کے وہابی سوچ اور فکرِ مودودی سے متاثر نوجوان نے کسی طرح کچھ عرصے کے لئے فلمی شاعری بھی کی اور کس طرح اپنی تحریر کا اخلاقی معیاربرقرار رکھا، یہ بھی سن لیجئے! امریکی حکومت کے لاہور میں شعبہء اطلاعات میں جب میں ڈپٹی ایڈوائزر مقرر ہوا اور خاص طور پر جب آٹھ سال بعد انفارمیشن ایڈوائزر بن کر اس شعبے کا سربراہ بنا تو اسلام آباد چھوڑ کر تمام پنجاب کے میڈیا کے اداروں سے انٹرایکشن میری ذمہ داریوں میں شامل تھا جس میں لاہور میڈیا اور کلچر کا نمایاں مرکز سب سے اہم تھا۔ اخبارات ٹیلی ویژن، ریڈیو اور کسی حد تک فلم سٹوڈیو میں ہونے والی سرگرمیوں میں دلچسپی میرے کام کا حصہ تھا۔ اس دوران پہلی پشتو فلم بنانے والا ڈائریکٹر عزیز تبسم (جسے میں پشتو فلموں کا قائداعظم کہتا تھا) لاہور شفٹ ہو کر اردو فلمیں بنانے لگا جس نے کسی طرح مجھ تک رسائی حاصل کرلی۔ اسے میرے شاعر ہونے کا علم تھا اور یہ بھی پتہ تھا کہ ای ایم آئی گراموفون کمپنی نے میری ایک غزل کا ریکارڈ تیار کیا ہے اور وہ غزل ریڈیوپاکستان لاہور کے پروگراموں میں بھی سنائی جاتی ہے۔ میرے دفتر میں دو تین ملاقاتیں ہی ہوئی تھیں کہ وہ کہنے لگے کہ میں ”نیویارک کے چکر باز“ کے نام سے ایک نئی فلم شروع کررہا ہوں جس کے تمام گیت آپ لکھیں گے۔ فی الحال آپ اس کا پہلا گیت لکھیں جس کی سچوئیشن میں آپ کو ابھی لکھ کر دے دیتا ہوں۔حمیرا چنا اسے گائیں گی۔ مجھے پتہ ہے کہ سٹوڈیو کے مالک سجاد گل اور شہزاد گل آپ کے دوست ہیں۔ آپ ان کو فون کرکے ریکارڈنگ ہال بھی بک کرا دیں اور سفارش کریں کہ سٹوڈیو میں شوٹنگ کے لئے ضروری سہولتیں بھی مجھے دیں۔
میں نے کہا بکنگ وغیرہ کے تو سب کام کرا دوں گا لیکن آپ نے خود سے ہی کیسے فرض کرلیا کہ میں فلموں کے لئے گیت بھی لکھوں گا۔ میں تو روایتی رومانوی شاعری بھی نہیں کرتا اور فلمی رومانوی شاعری سب حدیں پار کر جاتی ہے اس لئے یہ میرے مزاج کے خلاف تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں مداخلت نہیں کروں گا اور آپ اپنے انداز اور احتیاط سے پوری آزادی سے لکھیں لیکن وہ گیت سچوئیشن کو نبھا جائیں۔ میں نے ایک غیر ملکی حکومت کے ساتھ کام کرنے کی وجہ سے سیاسی اور ملکی موضوعات پر لکھنے کو چھوڑ کر سرے سے کالم نگاری ختم کر دی تھی۔ شاعری اور ادب کے میدان میں طبع آزمائی کا سوچ رہا تھاکہ عزیز تبسم نے یہ پیشکش کر دی جسے میں نے قبول تو کر لیا لیکن عمل اپنے حساب سے کیا۔ پہلے گیت میں مجھے معمولی سی لائن کراس کرنی پڑی جو معیوب نہیں تھی لیکن اس کے بعد میں نے جو کچھ بھی فلمی شاعری لکھی وہ میرے معیار کے ہی مطابق رہی۔
حمیرا چنا کے لئے میں نے جو گیت لکھا جو بہت مقبول ہوا اس کے بول تھے:
کچھ پتہ ہے میں نے کیا رات دیکھا
خوشیوں کا ست رنگ خواب دیکھا
پورے جوبن پہ بہتا ہوا
پیار کا چڑھتا چناب دیکھا
عزیز تبسم کے ذریعے اداکار جاوید شیخ اور موسیقار امجد بوبی سے تعارف ہوا جن سے بعد میں بہت زیادہ دوستی ہو گئی اور ان کے ساتھ مل کر اور فلمی گیت بھی لکھے۔
سید نور کی پہلی بیوی رخسانہ نور کو میں جنگ اخبار کی فیچر رائٹر کے طور پر جانتا تھا جو شاعرہ بھی تھی۔ علامہ اقبال ٹاؤن کے ستلج بلاک میں،میں نیا گھر بنا کر شفٹ ہوا جہاں تھوڑے سے فاصلے پر نرگس بلاک میں سید نور اور رخسانہ نور کا گھر تھا۔ رخسانہ نے مجھے گھر بلایا جہاں امجد بوبی بھی موجود تھے۔ ویک اینڈ میں وہاں ایک غیر رسمی سیشن ہوتا تھا۔ رخسانہ کوئی نہ کوئی استھائی امجدبوبی کو دیتی اور وہ ہارمونیم پر طرز بنانے لگ جاتے۔ انہوں نے مجھے بھی دعوت دی اور اس شوقیہ کام میں میں اتنا مگن ہو گیا کہ باہر کے لوگوں میں میری، امجد بوبی اور رخسانہ کی دو بھائیوں اور ایک بہن کی منہ بولی تکون مشہور ہو گئی۔ سید نور سے میرے پہلے سے تعلقات تھے لیکن وہ تعلقات اس تکون سے بہت پیچھے رہ گئے۔
رخسانہ نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ اظہر بھائی! فلمی شاعری میں آپ کو ”ادبی معیار“ ترک کرکے روایتی چلت رومانوی انداز میں لکھناہوگا۔ میں نے جواب دیا بی بی!آپ نے جو کرنا ہے کرو، میری کوئی مجبوری نہیں تھی۔ جس طرح عام شاعری میں اپنے ادبی معیار کو قائم رکھتے ہوئے اخلاقی دائرے سے باہر نہیں نکلتا میں وہی کام یہاں بھی کروں گا جسے پسند آئے اسے قبول کرلے۔ یہ میرا ذریعہ روزگار تو نہیں ہے۔
سید نور کا چھو بھائی سید قاسم وہاں ساتھ موجود ہوتا جس سے میرا ذاتی تعلق آج تک قائم ہے۔ سید نور کے گھر اس”تخلیقی سیشن“ میں، میں پہلے استھائیاں لکھتا اور امجد بوبی کے مشورے سے چند ایک کے مکمل گیت بھی لکھ دیتا اور وہ اس کی طرزیں بنا کر محفوظ کرتے جاتے۔ سید قاسم نے میرے کام کا ایک فولڈر بنا لیا جو وہ حفاظت سے اپنے پاس رکھتا۔ میں نے ایسے ہی مہندی کی سچوئیشن میں پہلے ایک استھائی لکھی
ڈھولکی کی تھاپ یہ دُلہنیا کا روپ سہانا لگتا ہے
سکھیوری سکھیو لگاؤ مہندی
حُسن پہ نیا اک نکھار آیا چاہتا ہے
پھر امجد بوبی کو پسند آنے پر گیت بھی مکمل کر دیا۔ رخسانہ بولی اظہر بھائی!”آتا ہے“ کی بجائے یہ ادبی اظہار کہ ”آیا چاہتا ہے“ فلموں میں نہیں چلتا لیکن میں نے سُنی اَن سُنی کر دی۔ پھر یہی گیت سید نور نے فلم گھونگھٹ میں استعمال کیا۔اسی گھر میں، میں نے ایک گیت لکھا:
میں نے تجھے کھویا تو ایسا لگا
جیسے میرے پاس ہو کچھ نہ بچا
امجد بوبی نے چپکے سے اسے جاوید شیخ کو سنایا جو انہیں اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اور بھی گیت لکھوائے اور اپنی پہلی فلم”چیف صاحب“ میں استعال کئے۔میں نے جتنی بھی فلم شاعری کی اگرچہ صاف ستھری کی لیکن اپنی خاندانی روایت کے باعث شرمندہ شرمندہ ہی رہا اور اسے زیادہ نشر نہیں کیا، لیکن سید نور نے فیس بُک پر میرے ایک غیر فلمی گیت پر تبصرہ کرتے ہوئے بھانڈا ہی پھوڑ دیا۔ انہوں نے لکھا:
”اظہر زمانٖ! آپ کا کلام جب بھی سننے اور پڑھنے کو ملتا ہے زبان سے بے اختیار واہ جی واہ نکلتی ہے۔آپ کے میری فلموں کے لئے لکھے ہوئے گیتوں نے میری فلموں کو بہت عزت دلائی جو میں کبھی نہیں بھول سکتا۔وقت ملے تو کچھ مکھڑے لکھ بھیجئے۔ عزت افزائی ہو گی۔سید نور“
میں امریکن سنٹر اپنی گو نا گوں مصروفیت میں گم رہا۔ میرے لکھے ہوئے گیت ان کے گھر سید قاسم کے پاس فولڈر میں محفوظ تھے۔ سید نور وہاں سے جو موزوں ہوتا استعمال کر لیتے۔ان سے ایسا بھائی چارہ تھا کہ مجھ سے باقاعدہ اجازت کی ضرورت نہیں تھی، میرے ان گیتوں کا ریکارڈ سید قاسم کے پاس ہے مجھے کچھ علم نہیں۔ کہنے کو بہت کچھ باقی ہے لیکن کالم کی جگہ ختم ہو گئی ہے۔
(ختم شد)