اتوار کو اپنے اطوار کا جائزہ لیجئے

Sep 24, 2025

ڈاکٹر سیف اللہ بھٹی

 ذرا دھیان کیجئے،ایک لحظے کے لیے یہ گمان کیجیے،آپ بزرگ بن چکے ہیں،اپنے آ پ سے سلوک شایان شان کیجئے،ذرا بتائیے کیا آ پ اپنے بزرگوں کے ساتھ وہ سلوک کر رہے ہیں؟ہر اتوار کو اپنے اطوار کا جائزہ لیجئے،اگر ہر اتوار کو نہیں  تو آج کے اتوار ضرور اپنے اطوار کا جائزہ لیجئے،ہم اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں، بزرگ دور کہیں انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔   مصروفیات کی وجہ سے ہم چھٹی کے دن بھی ان کے لیے چند لمحے نکال نہیں پاتے۔اگر چند لمحے نکال بھی لیں تو  اپنے دکھڑے سناتے رہتے ہیں،ان کے غم ہم نہیں سنتے. ہم چھوٹے تھے تو وہ بزرگ بہانے بہانے سے ہماری ضروریات پوچھتے تھے،حالت پوچھتے تھے۔اگر ہم کبھی اداس نظر آتے تھے،موڈ برا ہوتا تھا تو ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے تھے،انتہائی تشویش لاحق ہو جاتی تھی۔ بدقسمتی سے بزرگ سائیڈ لائن کر دیے جاتے ہیں۔ جھنگ کے شاعر رام ریاض نے کہا تھا کہ میں بڑا ہوں اور اب یہ چلن ہو گیا ہے کہ بڑوں کو گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔اپنے بزرگوں کے ساتھ بد سلوکی کر کے ہم خود بھی زیادہ دیر خوش نہیں رہ سکتے۔کالم نگار ایسے کئی صاحبان کو جانتا ہے جنہوں نے کسی خاتون کی شکل یا دولت کی وجہ سے اس سے شادی کی،بالکل پرواہ نہ کی کہ وہ ان کے والدین کے ساتھ کیسا سلوک کر رہی ہے،والدین کے ساتھ ہر طرح کی بد سلوکی نہ صرف برداشت کی بلکہ اکثر اوقات بیوی کا ساتھ دیا۔والدین کو نظر انداز کیا۔جب ان والدین میں سے کوئی ایک دنیا سے چلا گیا تو انہیں یک لخت احساس جرم کا دورہ پڑا۔تب تک خاتون کے حسن میں بھی تھوڑی کمی لاحق ہو چکی تھی اور ان کی عقل اور شعور میں تھوڑی زیادتی ہو چکی تھی۔مرد نے خاتون سے بدلے لیے اور بڑھ چڑھ کے لیے۔طلاق دی اور  طلاق کے بعد بھی خاتون کی زندگی اجیرن کرنے کی پوری کوشش کی۔

  یاد ہی نہ رہا کہ ظلم کتنا ہوا ہے اور بدلہ کتنا لیا ہے۔ضمیر کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ یہ سونے میں  تو پھر بھی وقت لگاتا ہے لیکن جاگنے کا کوئی پتہ نہیں چلنے  دیتا۔ اچانک  بیدار ہو جاتا ہے اور بیدار ہوتے ہی بے قرار کر دیتا ہے اور بعض اوقات ضمیر کی بے قراری وہ رنگ لاتی ہے کہ عقل اور خرد شرماتی ہے۔

 بہت پہلے کہہ دیا گیا تھا کہ کوا اگر ہنس کی چال چلے تو نہ وہ ہنس بن سکتا ہے اور نہ  کوا رہتا ہے۔  یہی ہمارے معاشرے کے ساتھ ہو رہا ہے۔ہم جدید مغربی دْنیا کے ذہنی غلام بنتے جا رہے ہیں،لیکن نہ مغربی بن سکتے ہیں اور نہ ہی ہم مشرقی رہے ہیں۔درخت اپنی جڑ سے کٹ جائے تو سلامت نہیں رہتا۔انسان بھی اگر اپنی جڑ سے کٹ جائے تو وہ انسان نہیں رہتا،کچھ اور بن جاتا ہے،نفسیاتی امراض کا مجموعہ بن جاتا ہے۔ہمارے بزرگ ہماری جڑ ہیں۔ہم جتنی مرضی کوشش کر لیں،ہم بزرگوں سے اپنی شناخت سے کٹ کر خوش نہیں رہ سکتے۔بہت سے لوگ اس بات کی زندہ مثال ہیں۔انہوں نے جوانی، ادھیڑ عمری اس غلط فہمی میں گزار دی کہ وہ اپنی شناخت کو چھوڑ کر کچھ اور بن گئے ہیں۔ایک دن سچائی کا لمحہ آیا اور ماضی بہا کر لے گیا۔

 نہ جانے کیوں آج کل سسرال کے ساتھ شریکے والا رشتہ سمجھا جاتا ہے۔بہو ساس سسر کو انسان نہیں سمجھتی،داماد بھی ساس سسر کو انسان نہیں سمجھتا۔بہو شوہر کے بہن بھائیوں کو ناپسند کرتی ہے،شوہر  بیوی کے بہن بھائیوں سے نفرت کرتا ہے۔رشتے اس لیے بنائے گئے کہ انسان ایک دوسرے کے کام آئیں۔انسان بنیادی طور پر  قبائلی ہے۔قبائلی نظام کی جگہ خاندانی نظام نے لے لی ہے۔خاندان سسرال کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔اسلامی مزاج ہے کہ کسی بھی انسان کے تین والدین ہوتے ہیں،وہ جو اسے دنیا میں لانے کا باعث بنتے ہیں،وہ جو اسے تعلیم دیتے ہیں اور وہ جو اسے اپنا لخت جگر  دیتے ہیں۔

 ہم گھنٹوں فیس بک دیکھتے رہتے ہیں اور اس ہستی کا فیس نہیں دیکھتے جس کا فیس دیکھنے کا اجر بے پناہ ہے۔ہم ٹویٹر پر ٹویٹ کرتے رہتے ہیں اور اپنے رشتوں کے ساتھ ایک لطیفہ شیئر نہیں کرتے۔ ہم انسٹاگرام پر ہر پوسٹ لگاتے رہتے ہیں لیکن اپنے قریبی عزیز و اقارب کو اتنا بتانا گوارا نہیں کرتے کہ ہم کہاں آ رہے ہیں،ہم کہاں جا رہے ہیں۔آج کل کی نوجوان نسل سے گزارش ہے کہ نہ اپنی بیوی سے اس کے رشتے چھینیں،نہ اسے اپنے رشتے چھیننے دیجیے،اضافہ کیجیے،اپنی بیوی کے خاندان میں ایک مرد کا اضافہ کیجئے۔بیوی کو چاہیے،وہ اپنے شوہر کے خاندان میں ایک خاتون کا اضافہ کرے۔اضافہ ایسا ہو کہ دونوں خاندان فخر کریں،ایک دوسرے کا سہارا بنیے۔ایک دوسرے کے بزرگوں کو اپنا بزرگ سمجھیے،کسی کو اس کے والدین کے خلاف نہ کیجئے۔کوئی آج اگر اپنے والدین کی عزت نہیں کر رہا تو وہ آپ کے والدین کی کیا عزت کرے گا؟اصلاح کیجئے، بیوی کو شوہر کی اصلاح کرنی چاہیے۔ شوہر کو بیوی کی اصلاح کرنی چاہیے۔ایک دوسرے کی آخرت تباہ نہ کیجیے،نہ ایک دوسرے کی دنیا برباد کیجیے۔آج کا انسان مادی مسائل کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہے۔اپنی تنہائی دور کیجئے،اپنے بزرگوں کی تنہائی دور کیجیے۔ یقین کیجئے والدین کی نافرمانی گناہ کبیرہ ہے۔اسلام میں بزرگ کو بہت عزت دی گئی ہے۔سفید بال والی ہستی کا اللہ تعالی بھی لحاظ کرتے ہیں،اٹھے ہاتھوں کا  مان رکھتے ہیں،بزرگ کو بد دعا کے لیے ہونٹ تک نہیں ہلانے پڑتے. بزرگوں سے دعا لیجئے۔زندگی میں برکت آ جائے گی۔آج ہمارے پاس سب کچھ ہے،لیکن خیر اور برکت نہیں ہے. خیر و برکت کے بغیر زندگی شرمندگی ہے۔شرمندگی سے محفوظ رہیے،دوسروں کو بھی محفوظ رکھیں۔

مزیدخبریں