بوڑھے کی روح نے ایک طویل سانس لے کر کہا ’’میں جانتاہوں لیکن ابھی تمہیں ایک اور نیک کام کرنا ہے۔‘‘
میں خاموش ہوگیا اور بزرگ روح کے ہیولے کی طرف تکنے لگا۔ ہیولے میں ایک لرزش پیدا ہوئی اور مجھے اپنے کان میں اس کی پراسرار آواز سنائی دی ’’دریا پار ایک بستی ہے رنگا پتی ڈاکو وہاں لوٹ مار کرتا رہتا ہے۔ رنگاپتی اس گروہ کا سردار ہے جس کے دو آدمی میرے نواسے کو اٹھانے یہاں آئے تھے۔ اس گاؤں کو رنگا پتی ڈاکو کے ظلم و ستم سے بچاؤ۔ بھگوان نے تمہیں جو خفیہ طاقت دی ہے اس سے بادشاہوں ہی کی نہیں غریبوں کی بھی مدد کرو۔‘‘
میں نے رنگا پتی ڈاکو کی کمین گاہ کے بارے میں سوال کیا تو سمادھی کے ہیولنے کے بتایا کہ آگے جاکر دوسرے کوس پر دریا میں سے ایک ندی نکل کر پہاڑیوں کی طرف جاتی ہے۔ جہاں ندی دو سرخ چٹانوں کے درے میں سے گزرتی ہے اس کے اوپر پہاڑی میں ڈاکو رنگا پتی کا خفیہ ٹھکانہ ہے۔ سمادھی کا ہیولا غائب ہوگیا تھا۔ چند لمحے میں وہاں کھڑا سوچتا رہا۔ پایہ تخت دہلی یا لکھنو میں اب میرے لئے کشش باقی نہیں رہی تھی۔ دوسری طرف سمادھی کے پراسرار ہیولینے دریا پار گاؤں کو خونی ڈاکو کے چنگل سے چھڑانے کی مجھ پر اخلاقی ذمے داری عائد کردی تھی۔ میرا فرض بن گیا تھا کہ میں اس گاؤں کے بے بس اور کمزور لوگوں کی مدد کروں۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 148 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
رات دم توڑ رہی تھی۔ ستارے ماند پڑنے لگے تھے۔ میں دریا کی طرف چل دیا۔ دریا کے کنارے رات کے پچھلے پہر کا سناٹا چھایا تھا۔ اندازے سے میں دوسرے کوس پر پہنچ کر رک گیا۔ دریا پار کرنا میرے لئے کوئی مشکل بات نہیں تھی۔میں دریامیں اتر گیا اور تیرتا ہوا دوسرے کنارے پر پہنچ گیا۔ یہاں پر کچھ آگے جاکر ایک چھوٹی سی ندی جنگل کی طرف پہاڑیوں کے درمیان جاتی تھی۔ میں اس ندی کے کنارے کنارے چلنے لگا۔ پوپھٹ رہی تھی۔ندی کے کنارے اونچے اونچے املی اور سال کے درخت اگے ہوئے تھے۔ دونوں جانب پہاڑوں کے نشیب تھے جن پر گھنے جنگل پھیلتے چلے گئے تھے۔ ندی پہاڑی جنگلوں میں پیچ و خم کھاتی گزررہی تھی اردگرد کے جنگل اتنے گھنے تھے کہ درختوں کے نیچے دن کی روشنی پوری طرح سے نہیں پہنچ رہی تھی۔ دن کا پہلا پہر مجھے ندی کنارے چلتے چلتے گزرگیا۔ جنگل میں کئی مقامات پر مجھے درندوں کی آوازیں سنائی دیں۔ میں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ دن کا دوسرا پہر گزررہا تھا کہ آسمان ابرآلود ہوگیا اورہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی۔ یہاں بادل بڑے گھنے اور سیاہ تھے جن کے باعث جنگل میں دن کی روشنی کم ہوگئی تھی۔ آخر میری نظر ان دو سرخ چٹانوں پر پڑی جن کے درمیان ندی ایک سانپ کی طرح گزررہی تھی۔ یہی وہ چٹانیں تھیں جن کے اوپر پہاڑی پر رنگاپتی ڈاکو کا مسکن تھا۔ کچھ دیر کھڑا میں اوپر پہاڑی کے درختوں کو دیکھتا رہا۔ پھوار گرنا بند ہوگئی۔ ایک گہرا سکوت چاروں طرف چھاگیا۔ ہوا بھی بہت دھیمے دھیمے چلنے لگی تھی۔میں نے تلاش بسیار کے بعد ایک پتھریلی پگڈنڈی ڈھونڈ نکالی جو گنجان درختوں اور خاردار جھاڑیوں کے بیچ سے ہوتی اوپر چلی گئی تھی۔ میں اس پگڈنڈی پر درختوں کی اوٹ میں ہوکر اوپر چڑھنے لگا۔ مجھے اپنے پیچھے گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دی۔ میں ایک درخت کے تنے کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔ تین گھڑ سوار میرے قریب سے گھوڑے دوڑاتے گزر گئے۔ انہوں نے اپنے چہروں پر ڈھاٹے باندھ رکھے تھے اور کمر کے ساتھ تلواریں لٹک رہی تھیں۔ مجھے اطمینان ہوا کہ ڈاکوؤں کا مسکن اوپر ہی ہے لیکن اب مجھے بڑی احتیاط کی ضرور ت تھی۔ اگرچہ ڈاکو مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے تھے لیکن جس بدنصیب گاؤں کو رنگاپتی کے چنگل سے چھڑانے آیا تھا وہ ذرا سی بداحتیاطی کے سبب خطرے میں پڑسکتا تھا۔ چنانچہ مجھے پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت تھی۔
پہاڑی کی ڈھلان ایسی تھی کہ گھوڑے بڑی آسانی سے دوڑ سکتے تھے۔ پتھریلے راستے پر سنگریزے بکھرے ہوئے تھے اور یہاں گھنے درختوں کی جھکی ہوئی شاخوں نے ایک طویل محراب بنا رکھی تھی۔ پہاڑی کے اوپر ایک ہموار جنگل آگیا جہاں درخت اس قدر گنجان تھے کہ ان کی ٹہنیاں ایک دوسرے میں پھنسی ہوئی تھیں۔ ان درختوں کے پہلو میں ایک تنگ سا راستہ درختوں اور جنگلی جھاڑیوں کو کاٹ کر بنایا گیا تھا۔ یہاں مجھے گھوڑوں کے ہنہنانے کی آواز آئی۔ میں چھپ کر آگے بڑھنے لگا۔ ابر آلود آسمان کی وجہ سے یہاں روشنی زیادہ نہیں تھی۔ آگے کھلی جگہ آگئی۔ یہ ایک کھلا آنگن سا تھا۔ جس کی ایک طرف پتھروں سے دیوار بنا دی گئی تھی۔ بیچ میں ایک کھوہ تھی جس کے باہر دو آدمی تلواریں لئے ز مین پر آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ دیوار کی دوسری جانب گھوڑے بندھے ہوئے تھے جن کی صرف گردنیں ہی نظر آرہی تھیں۔ یہ دونوں آدمی شکل صورت سے جرائم پیشہ لگ رہے تھے۔ میں ایک جگہ چھپ کر ان کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے ہوئے تھا۔ وہ ملیالم زبان میں آپس میں باتیں کررہے تھے اور میرے اندازے کے مطابق وہ اپنے ان دو ساتھیوں کے بارے میں بات کررہے تھے جن کو میں نے گاؤں کے تالاب کے کنارے ہلاک کردیا تھا اتنے میں مجھے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز آئی۔ یہ آواز میرے عقب سے آرہی تھی۔ میں پھرتی سے درخت پر چڑھ کر شاخوں میں چھپ کر بیٹھ گیا۔ تین گھڑسوار چلے آرہے تھے۔ وہ میرے نیچے سے گزرگئے ایک گھڑ سوار ان کے آگے آگے تھا وہ کالے سیاہ رنگ کا ڈراؤنی شکل والا ہٹا کٹا آدمی تھا۔ جس کے کانوں میں ض سبز پتھر چمک رہے تھے۔ اس آدمی کو دیکھ کر آلتی پالتی مار کر بیٹھے ہوئے ڈاکو تعظیم سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ سیاہ رو جرائم پیشہ شخص گھوڑے سے اتر پڑا اور ملیالم زبان میں بولا ’’گاؤں میں ان کی لاشیں پڑی ہیں۔ بھیس بدل کر جاؤ لاشیں اٹھا لاؤ۔‘‘ دونوں ڈاکو فوراً دیوار کی دوسری جانب چلے گئے۔ گھوڑے کھول کر ان کی باگیں تھامیں اور پہاڑی سے نیچے اترنے لگے۔
سیاہ رو آدمی کے ساتھ جو دو ڈاکو آئے تھے وہ گھوڑوں سے اتر پڑے۔ ان میں سے ایک نے کہا ’’رنگا پتی! ہمارے آدمیوں کو گاؤں والوں نے مارا ہے۔‘‘
میں چوکنا ہوگیا۔ یہ ڈاکو رنگاپتی تھا جس کی خون ریزیوں کے بھیانک قصے مشہور تھے اور جس نے اردگرد کے علاقے میں دہشت پھیلارکھی تھی۔ رنگا پتی ڈاکو گھوڑے سے اتر کر ایک پتھر پر بیٹھ گیا اور اپنی تلوار کو زانوؤں پر رکھ کر بولا۔ میں جانتا ہوں گاؤں والو کو نہیں چھوڑوں گا۔ مگر لگتا ہے یہ کسی اور ہی شخص کی کارستانی ہے۔ گاؤں والوں میں اتنی جرأت نہیں ہے۔‘‘ اس کے ساتھی خاموش اس کے سامنے زمین پر بیٹھے تھے۔ اس کے بعد وہ آپس میں قدرے جھک کر سرگوشیوں میں باتیں کرنے لگے۔ ان کی سرگوشیاں مجھ تک نہیں پہنچ رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد رنگاپتی دیوار کے دوسری طرف سے گھوڑا کھول کر جنگل کی ڈھلان پر اتر گیا۔ نہ جانے اسے کیا کام آپڑا تھا۔ میں درخت کی شاخوں پر چھپا یہ سارا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ پھر میں درخت سے اتر کر چند قدم چلنے کے بعد ان ڈاکوؤں کے سامنے آگیا۔ میری شکل دیکھتے ہی ان پر جیسے بجلی سی گرپڑی۔ تڑپ کر اٹھے اور تلواریں کھینچ کر مجھ پر جھپٹے۔ میرے پاس کو ئی تلوار نہیں تھی۔ دونوں کی تلواروں کے وار میرے جسم پر پڑے اور میرا کرتہ دو جگہوں سے کٹ گیا۔ ظاہر ہے میرے بدن پر ایک خراش تک بھی نہ آئی۔ ڈاکوؤں کو ابھی میری خفیہ طاقت کا وہم و گمان تک نہ تھا۔ انہوں نے دوسری بار وار کیا تو میں نے دونوں وار اپنے بازوؤں پر لئے۔ دونوں تلواریں میرے بازو سے ٹکرا کر ٹوٹ گئیں۔ ڈاکو یہ سمجھے کہ میں نے لباس کے اندر لوہے کی جالی پہن رکھی ہے۔ وہ دیوار کے ساتھ لگے نیزے کی طرف لپکے لیکن اب میں نے انہیں اتنی اجازت نہ دی اور چھلانگ لگا کر ان کے سر پر پہنچ گیا۔ میں نے دونوں کو نیچے گرادیا۔ وہ میری طاقت سے خوفزدہ ہورہے تھے۔ میں نے نیزہ اٹھایا کہ انہیں باری باری جہنم رسید کردوں کہ وہ ہاتھ جوڑ کر رحم کی بھیک مانگنے لگے۔ میں نے تیزی سے دونوں ڈاکوؤں کو اوندھے منہ لٹا کر ان کے صافے اتارکر ان کے منہ میں ٹھونسے، رسی سے دونوں ڈاکوؤں کی مشکیں باندھ دیں اور پھر میں وہیں جھاڑیوں میں چھپ کر ڈاکو رنگا پتی کا انتظارکرنے لگا۔ اچانک جنگل میں ہاتھی کی چنگھاڑ سنائی دی۔ جنگل کے سناٹے میں یہ چنگھاڑ کمزور دل کو دہلانے کے لئے کافی تھی۔ میں سمجھ گیا کہ اس جنگل میں ہاتھی بھی موجود ہیں جن کی موجودگی یقیناًڈاکوؤں کی مددگار ثابت ہوتی ہوگی۔ کوئی بھی ادھر کا رخ نہ کرتا ہوگا۔(جاری ہے)