سوال۔میں نے آپ سے کہاتھا کہ مجھے رزق میں اضافہ کی تسبیح دے دیں تو آپ نے بتایا کہ مجھے استغفراللہ کی تسبیح کرنی چاہئے،سوال یہ ہے کہ کیا اللہ سے رزق مانگنا گناہ ہے ؟ میں جب کوئی غلط کام نہیں کرتا تو میں کیوں اس بات پر فکر مندا ہواکروں کہ دراصل میں ہر وقت گناہوں میں مبتلا ہوں جس پر مجھے سزا دی جارہی ہے ۔میں ذرا کنفیوژ ہوگیا ہوں ۔میری اصلاح کردیں ۔(مبشر نقوی لاہور)
جواب ۔اللہ تبارک تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کرنا بھی تکبر کی ایسی بیماری کو ظاہر کرتی ہے کہ کوئی اسکا تصور بھی نہیں کرتا کہ دراصل اس سے ایک ایسی خطا ہورہی ہے جو اُس انسان کی روحانی بیماری کو بڑھاتی اور پھر اسکی جسمانی قوتوں پر غالب آجاتی ہے اور یوں وہ انسان مضمحل ہوجاتا ہے ،ناکامیاں اسکی راہ کاٹنے لگتی ہیں۔ نیکیوں پر گھمنڈ بھی انسان کو کمزور کردیتا ہے ۔انسان تو خطاکا پتلا ہے ،نہ جانے کس وقت اس سے کوئی ایسی خطا ہوجائے جو اسکو روحانی طور پر کمزور کرنے کا باعث بن جائے۔اچھا گمان اچھی بات ہے لیکن ایسا گمان کہ میں کوئی غلطی نہیں کرتا تو یہ بھول ہے اور خود فریبی ہے ۔اللہ عزوجل فرماتے ہیں مجھ سے ہی مانگو ،بلاشبہ اللہ ہی رازق ہے ،ہم کو اسی سے مانگنا چاہئے لیکن یہ سوچنا کہ مجھے توبہ استغفار نہیں کرنی چاہئے،اس سے بڑا فتنہ اور کیا ہوسکتا ہے جو انسان کے اندر شورش پیدا کرکے اسکو اللہ کا شکر ادا کرنے کی نعمت سے محروم کردے ۔جو لوگ شکر نہیں کرتے ،وہ بھی گھمنڈ کرتے ہیں ،استغفراللہ کی تسبیح اس لئے پڑھنے کی تلقین کرتا ہوں کہ ہمیں یہ یاد رہے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہوتا ہے،وہ باریک بیں ہے اور اس معاملے سے بخوبی آگاہ ہے جس پر ہماری نظر نہیں پڑسکتی۔اس ذات کریم سے زیادہ شکر اور توبہ کا حق رکھنے والا کوئی نہیں،شکر ہم اسکی نعمتوں کا کرتے ہیں اور توبہ استغفار ان نعمتوں کے شکر کو بجا نہ لانے والی کوتاہی پر کرتے ہیں،شکر اور استغفار کرنے والوں کو اللہ بے حد پسند کرتا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا ہے کہ دن اور رات کی ہر گھڑی توبہ کرنے کا وقت ہے ۔استغفار کرنے والوں کے چھوٹے بڑے گناہ معاف ہوتے رہتے ہیں اور روح انسان میں عاجزی پیدا ہوتی ہے جس کا اثر جسم و اعمال پر پڑتا ہے انسان کے راستے کشادہ ہوتے ہیں۔میری کوشش ہوتی ہے کہ ہر کسی سے یہی کہوں کہ جس دور میں ہم جی رہے ہیں اس میں ہم دنیاوی امور کو نبٹانے کے لئے بیحد مجبور ہوچکے ہیں اور خطائیں کرتے رہتے ہیں۔اس پر یہ کہ ان خطاوں کو ہم کاروباری مجبوریاں یا رشتوں کونبھانے کے لئے جائز سمجھ لیتے ہیں۔جھوٹ ،نفرت،عناد،فساد،کینہ ،حسد،لالچ ،نفسانی آوارگی ایسی بے شمار حرکتیں اور عبادات سے غفلت جیسے امور میں کوتاہی پر اللہ سے روزانہ معافی ہی مانگنی چاہئے ۔ توبہ کرنا بھی ایک بڑی عبادت ہے جو ہم ایسے گناہ گاروں کو گند سے پاک کرتی ہے ۔میں تو اسے اپنی عقلی بساط کے مطابق اینٹی وائرس اور فائر وال سمجھتا ہوں جو روح کو بد اعمالی کے موذی وائرس سے بچاتی اور ان کے خلاف ڈھال بن جاتی ہے ۔اللہ ہم سب کو زیادہ سے زیادہ استغراللہ کرنے اور شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
۔۔۔۔۔
میں نے یونیورسٹی کے زمانے میں گھر والوں سے پوچھے بغیر نکاح کرلیا تھا کیونکہ ....
سوال۔میں نے میڈیکل کی تعلیم کے دوران چھ سال گھر سے دور گزارے ہیں۔مجھے ہاسٹل میں قیام کی اجازت نہیں ملی تو ایک گھر میں مجھے پینگ گیسٹ کے طور پر رہنا پڑا ۔یہ ایک بیوہ کا گھر کا تھا جس کے بچے پڑھتے تھے اور اس نے ایک کمرہ مجھے دیا تھا ،دوسرے کمرے میں ایک فارنر لرکی رہتی تھی ۔ میرے علاوہ بھی ایک دوسرا لڑکا جو ڈاکٹر بن رہا تھا وہ میرے ساتھ ہی رہنے لگا تھا ۔دوسرے سال کی بات ہے میں نے دیکھا کہ بہت سے طالب علم گمراہی کی زندگی گزارتے ہیں تو میں نے اس فارنر طالبہ سے انڈرسٹینڈنگ ہونے کے بعد اسکی ہی تمنا پر نکاح کرلیا اور پھر اس کے ساتھ اسی گھر میں رہائش اسطرح اختیار کرلی کہ اس آنٹی کو سب سچ سچ بتادیا کہ ہم نے نکاح کیوں کیا ۔ میں نے اپنے گھر والوں کو نہیں بتایا تھا کہ میں نے نکاح کیا ہوا ہے ۔اس فارنر لڑکی نے البتہ اپنے والدین کو بتایا ہوا تھا ۔میرا روم میٹ اس نکاح کا گواہ تھا ۔نکاح کے بعد وہ کسی اور جگہ چلا گیا اور ہم میاں بیوی دونوں اس آنٹی کے مہمان بنے رہے ۔اسطرح وقت گزرگیا ۔میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ فارنر لڑکی ہاوس جاب کے بعد اپنے ملک واپس چلی گئی ۔میڈیکل کے بعد مجھے پرائیویٹ ہاسپٹل میں جاب مل گئی ۔تو والدین نے اب میری شادی پر زور دے دیا ہے۔میں نے اب تک گھر والوں کو اپنی شادی کے بارے نہیں بتایا جبکہ مجھے وہ فارنر بیوی بہت یاد آتی ہے۔میں نے اسکو فون کیا ہے اور پوچھا ہے کہ وہ پاکستان واپس آسکتی ہے تو آجائے ،لیکن ساتھ ہی میں کنفیوژ بھی ہوں کہ وہ آگئی تو نہ جانے میرے گھر والے اسکو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔وہ بہت اچھی اور سلیقہ مند لڑکی ہے اور ابھی تک میری بیوی ہے ۔وہ بھی چاہتی ہے کہ ہم دونوں اکٹھے ہی رہیں ۔میرے والد دراصل اپنی بھتیجی سے شادی کرانا چاہتے ہیں۔استخارہ کرکے میری رہ نمائی کریں کہ میرے لئے کیا بیسٹ ہے ۔(ڈاکٹر وقا ر،لاہور )
جواب۔استخارہ کی رو سے تو اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ آپ کو ایک دن سچائی بتانی پڑے گی اور یہی آپ کے حق میں بہتر بھی ہوگی۔نکاح کرکے آپ نے خود کو گناہوں سے بچایا ہے تاہم اپنے والدین کو نہ بتا کر آپ نے ان کے ساتھ زیادتی کی ہے ۔ استخارہ کے مطابق لگ رہا ہے کہ آپ عنقریب ہجرت کریں گے ،اسکا مطلب ہے آپ مزید تعلیم کے لئے باہر بھی جاسکتے ہیں۔اگر اس پہلو پر آپ سوچتے ہیں تو ممکن ہے آپ کی فارنر بیوی آپ کی مدد کرے اور اس سے مسئلہ کو حل کرنے میں مدد مل جائے ۔ذہانت سے اسکو حل کریں اور اپنے بہن بھائیوں اور والدہ کو اعتماد میں لیکر والد کو رام کریں ۔کوئی بڑا دنگا فساد ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ان شاءاللہ خیریت ہی رہے گی۔آپ روزانہ تین سو بار”یا عزیزیا جبار“ کی تسبیح پڑھا کیجئے ۔
۔۔۔۔۔
شوگر کا مریض ہوں،دوائیاں کھا کھا کر تنگ آگیا ہوں ،روحانی تسبیح دیجئے
سوال۔میں شوگر کا مریض ہوں جبکہ میری عمر ابھی تیس سال ہے۔میرا استخارہ کرکے بتائیں کہ کیا میں کبھی تن درست ہوجاوں گا ۔اللہ کا کلام شفائے کاملہ ہے ۔مجھے کوئی تسبیح بتائیں کہ میری شوگر کنٹرول میں رہا کرے اور میری ادویات سے جان چھوٹ جائے ۔(احمد درانی ،چکوال)
جواب۔شوگر جب لاحق ہوجائے تو اسکا ادویہ سے علاج کرنا ترک نہیں کرنا چاہئے ۔البتہ اپنے معمولات میں تبدیلی لائیں اور طرز زندگی بدل کر شوگر کو قابو رکھنے کی کوشش کریں ۔ساتھ اسم ربّی ” یا باری “ تین سو تیرہ بار دل میں پڑھ کر پانی پر دم کرکے پیا کریں ۔اللہ کریم کے اس اسم مبارک کی خاصیت سے مردہ سیلز میں جان پڑ جاتی ہے ۔ان شا ءاللہ اس اسم مبارکہ کی تسبیح جاری رکھیں گے اور ساتھ غذائی پرہیز بھی اختیار کرتے رہیں گے تو بہتر افاقہ محسوس کریں گے ۔بدن میں توانائی ازسر نو پیدا ہوگی۔(استخارہ کے ذریعے ہر طرح کے معاملات کے حل میں رہ نمائی حاصل کرنے کے لئے اپنا نام ،والدہ کا نام ،شہر،کاروبار ،عمر مفصل سوال لکھ کر ای میل کریں ،جواب باری آنے پر دیا جائے گا systemtoday14@yahoo.com )