ان دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے۔غزہ کی صورت حال قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور پاکستانی وزیراعظم شہبازشریف کی سرگرمیوں پر توجہ مرکوز ہے اور میڈیا کے پاس بھی اب تازہ موضوع ہے کہ منگل کے روز نیویارک میں عرب ممالک ۔ ترکیے اور پاکستان کے رہنماؤں کی صدر ٹرمپ سے ملاقات بھی معنی خیز ہے جبکہ وزیراعظم شہبازشریف اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غیررسمی بات چیت نے دونوں رہنماؤں کے درمیان خصوصی ملاقات کا راستہ کھول دیا، جو آج واشنگٹن میں ہو رہی ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بھی امریکہ میں ہیں اور امکانی طور پر وہ بھی اس موقع پر وزیراعظم کے ساتھ ہوں گے۔ اس ملاقات کے حوالے سے یہی اطلاعات سامنے آئی ہیں جوتحریر کردیں۔ اب ان احوال کے حوالے سے بات کرنے اور لکھنے کے لئے بہت دوست موجود ہیں جن کو خارجہ امور کا تجربہ ہے اور وہ اپنے صحافتی فرائض کے حوالے سے دفتر خارجہ سے بھی منسلک رہے ہیں، ان میں سے بعض دوست یقینی طور پر تجربہ کار ہیں اور ان کی نگاہ عالمی حالات پر رہتی اور وہ کھوج میں رہتے ہیں اس کے لئے ان کو بہت کچھ پڑھنا بھی ہوتا ہے جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے تو اس حوالے سے میری خیالات ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسے وقت میں اس حوالے سے بات کرنا مناسب بھی نہیں، لہٰذا اپنے نظریات، خیالات اور تحفظات کو اپنی ذات تک محفوظ رکھتے ہوئے بہتر وقت کا انتظار کروں گا۔
یہ درست کہ ان دنوں عالمی سطح پر میرے ملک کی پذیرائی ہو رہی اور ہم سب پاکستانی دل سے بھی یہی چاہتے اور دعا کرتے ہیں،لیکن ہمارے بعض شعبے ایسے بھی ہیں جن کے لئے لاکھوں دعائیں بھی کام نہیں آتیں کہ اگر صرف دعاؤں ہی سے سب کچھ مل جائے یا ہو جائے تو پھر دو تین سو سال قبل ہی گوروں کی توپوں میں کیڑے پڑتے اور وہ لوہا کھا جاتے، دعاء بھی مستجاب اور قبول ہوتی ہے لیکن محنت اور ہمت کے بغیر ممکن نہیں، جب تک آپ دیانت اور امانت کی راہ پر نہیں چلتے وہ ذات اقدس بھی جو دو جہانوں کی مالک اور جس کے قبضہ قدرت میں سب کچھ ہے، مدد نہیں کرتی، کامیابی کے لئے آپ کو اپنی مہارت اور محنت پر ہی انحصار کرنا ہوتا ہے، یہ بات میں اپنی کرکٹ ٹیم کے حوالے سے کرنا چاہتا ہوں کہ جو دو بار بھارت سے ہار چکی اور اب ایسے امکان بھی پیدا ہو رہے ہیں کہ تیسری مرتبہ مقابلہ ہو۔ میرے سمیت کسی بھی پاکستانی نے دل اور زبان سے یہ نہیں کہا کہ ہماری ٹیم مقابلے کی اہل ہے کہ یہ سازش سے بنی اور میرٹ کے نام پر میرٹ کی دھجیاں اڑائی گئیں، موجودہ ٹیم کا چناؤ عالمی کپ کے مقابلوں تک کے لئے کیا اور دعوے بھی کئے گئے، سابق ریکارڈ یافتہ کھلاڑیوں اور ماہرین نے لاکھ سر پٹخے کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے، لیکن نئے قبضہ گروپ کے ترجمان عاقب جاوید نے سب کی مذمت کر دی اور کہا یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی اور یہ روشنی ایسی ہوئی کہ بھارت کے ساتھ دوسرے میچ سپر فوروالے میں تو بھارتی کھلاڑیوں نے بے حد کوشش کی کہ وہ ہار جائیں کہ ہماری ٹیم کو رن آؤٹ سمیت کیچ چھوڑنے سمیت چھ مواقع دیئے اچھی ٹیم کو ایک موقع مل جائے تو سنبھل جاتی ہے لیکن ہم جن کھلاڑیوں کو آسمان پر چڑھائے ہوئے تھے انہوں نے ہی سنبھلنے نہ دیا اور پھر بھی شکست کھائی۔ اس کے بعد فخر زمان کے کیچ آؤٹ پر بہت کچھ کہا اور اس کا سہارا لیا گیا۔ بے شک یہاں تیسرے ایمپائر نے زیادتی کی اور باؤنڈری چیک سے بھی کم وقت میں آؤٹ کا فیصلہ دے دیا حالانکہ جس جس نے بھی ٹی وی ری پلے دیکھا ان سب نے جانا کہ گیند گراؤنڈ سے لگ کر گلوز میں آئی تھی، لیکن سوال تو یہ ہے کہ پوری ٹیم صرف فخر زمان پر تو انحصار نہیں کرتی، کپتان صاحب تو صاحبزادہ فرحان، صائم اور محمد حارث کو خصوصی توجہ دے کر سراہ رہے تھے، لیکن کھیل میں صائم ایوب، خود سلمان اکبر اور محمد حارث کے بڑے بولوں کا تیا پانچہ ہو گیا اور یہ مسلسل ناکام چلے آ رہے ہیں قدرت اور نصیب کا دیا کچھ اور ہوتا ہے سازشی گروہ تو فخر زمان کے ساتھ ساتھ شاہین آفریدی اور حارث کو بھی فارغ کرنا چاہتا ہے جیسے نسیم شاہ کو باہر بٹھا دیا گیا لیکن ان تینوں حضرات کی کارکردگی اتنی خراب نہ ہو سکی کہ ان کو باہر بٹھایا جاتا، اگرچہ حارث (باؤلر) کو گروپ میچوں میں موقع نہیں دیا گیا تھا۔
اب ذرا ماہرین میں سے ایک سابق کپتان وسیم اکرم کی تازہ ترین رائے ملاحظہ فرمالیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر یہ کہا ہے کہ بھارت کی ٹیم ایک مربوط اور نظام کے تحت بنی ہوئی اور اچھی ٹیم ہے۔ پاکستان کی ٹیم غیر متوقع چناؤ اور غلط طریق کار کی وجہ سے ہار جاتی ہے۔ یہ بات یوں بھی درست ہے کہ نہ صرف بھارت کئی صوبوں والا بڑا ملک ہے اور اس میں کھیلوں پر توجہ دی جاتی ہے، کرکٹ پرائمری سطح سے شروع ہو کر یونین سٹی سطح تک اور کلب کرکٹ علاقے سے شروع ہو کر اضلاع اور مرکز تک کے نظام میں منسلک ہے اور بھارت میں کئی ٹرافی مقابلے ہوتے ہیں اور ٹیم کا چناؤ بھی مجموعی کارکردگی اور ٹیلنٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ سینئرز کے ساتھ ساتھ نئے کھلاڑیوں کو ایک ایک دو دو کرکے موقع دیا جاتا ہے اور یوں تبدیلی کی جاتی ہے، جیسے روہت شرما اور کوہلی کی حالیہ مثال ہے جبکہ ان سے پہلے کھیل کو الوداع کہنے والے بھی کئی نامور ہیں جن کے متبادل پہلے تیار ہوتے ہیں اس ساری گفتگو سے یہ مطلب نہیں کہ بھارتی ٹیم ناقابل شکست ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اپنی ٹیم کا چناؤ زبانی نہیں حقیقی میرٹ پر کریں، میں کسی کی حمائت یا مخالفت کئے بغیر یہ عرض کروں گا کہ یہ ٹیم واپس آئے تو سلمان اکبر سے نیچے تک تمام وہ کھلاڑی فارغ کر دیں جن کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ چاہے وہ کوئی بھی ہو اور ساتھ ہی حالیہ مدارالمہام عاقب جاوید کو بھی جھنڈی دکھائیں جو پوری کرکٹ پر قبضہ جما بیٹھے ہیں حالانکہ ان کو اکیڈیمی میں خدمات کے لئے رکھا گیا ہے۔
اس حوالے سے ذرا اکیڈیمی کی بھی بات کر لیں۔ آج کا دور مصنوعی ذہانت تک پہنچ چکا جبکہ اس سے پہلے بھی آئی ٹی کا زمانہ تھا اور ہے۔ اب تو میچوں کی کوریج اتنے زیادہ پہلوؤں سے ہوتی ہے کہ اپنی خامیوں اور دوسروں کی خوبیوں کا علم ویڈیوز سے ہو جاتا ہے تو کیوں نہیں، پاکستان کے چنے گئے اور متوقع کھلاڑیوں کے اس اکیڈیمی میں ریفریشر کورس نہیں ہوتے اور بیٹنگ، باؤلنگ سے فیلڈنگ تک کے کیمپ کیوں نہیں لگائے جاتے۔ عاقب جاوید کا خصوصی تعلق لاہور قلندر سے ہے اور کیا وہ نہیں جانتے کہ لاہور قلندر کے مالکان نے اپنا پروگرام پی سی بی کے ٹیلنٹ ہنٹ پروگرام تک بڑھا دیا ہے اور نتائج بہتر نکل رہے ہیں۔ اب ضرورت ہے کہ سکول سے کلب اور ریجن تک کرکٹ کا باقاعدہ ڈھانچہ ہو اور مقابلوں سے کھلاڑی ابھریں، اب قوم کا مطالبہ ہے کہ محسن نقوی سمیت سلیکشن کمیٹی اور انتظامیہ سمیت سب کو فارغ کیا جائے اور اگر پی سی بی کے الیکشن کے لئے الیکشن کمشنر مقرر کر دیا گیا ہے تو پھر بورڈ انتظامیہ الیکشن سے چنی جائے۔