اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 165

Apr 26, 2019 | 03:24 PM

اے حمید

رات کا پچھلا پہر ہوا تو مجھے قید کی کوٹھری سے باہر اذان کی آواز سنائی دی۔ پھر دوازہ کھلا۔ دو ہٹے کٹے جلاد نما آدمی تلواریں اٹھائے ایک باریش بزرگ کے ساتھ اندر داخل ہوئے، انہوں نے مجھے وضو کروایا، سفید چادر پہننے کو دی اور کہا کہ میں زندگی کی آخری نماز پڑھ کر خدا سے اپنی بخشش کی آخر ی دعا مانگ لوں۔ اب اس حقیقت میں ذرا سا بھی شبہ باقی نہیں رہا تھا کہ میری شکل ہو بہو عبداللہ بن علی ہی کی شکل میں تبدیل ہوچکی تھی۔ میں نے نماز پڑھ کر خدا سے دعا مانگی کہ وہ مجھے پھر سے نئی زندگی عطا فرمائے اور میرے گناہ معاف فرمادے۔ میرے دل کو بہت تسلی اور اطمینان تھا کہ دو محبت کرنے والے دل ایک دوسرے سے مل چکے ہوں گے اور میں اب قانون اور انصاف کا بول بالا کررہا ہوں، نماز سے فارغ ہوا تو مجھ سے پوچھا گیا کہ میری آخری خواہش کیا ہے۔ میں نے مزید اطمینان کرنے کے لئے کہا کہ میری لاش کو دریا کی لہروں کے حوالے کردیا جائے۔ باریش بزرگ نے کہا ”رواج کے مطابق تمہاری لاش کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا کیونکہ قاتل کی لاش زمین بھی قبول نہیں کرتی۔“ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ لوگ مجھے بند کرکے چلے گئے۔ غرناطہ میں سورج طلوع ہوچکا تھا کہ ایک بار پھر دروازہ کھلا۔ اس بار چار مسلح سپاہی داخل ہوئے انہوں نے مجھے زنجیر پہنائی اور قید خانے سے نکال کر ایک چھکڑے میں سوار کرایا اور غرناطہ کے سب سے بڑے چوراہے پر لا کھڑا کردیا۔ میرے سینے پر ایک حکم نامہ لٹکادیا جس میں میرا جرم او رجرم کی سزا درج تھی۔ چوک لوگوں سے بھرا ہوا تھا اور وہ اسلامی قانون اور انصاف کے حق میں نعرے لگارہے تھے۔ میرے پاﺅں کی زنجیر اتاردی گئی۔ میرے دونوں ہاتھوں کو پشت پر رسی سے باندھ دیا گیا۔ ایک جلاد جس نے سیاہ لبادہ پہن رکھا تھا میرے پہلو میں آکر کھڑا ہوگیا۔ اس کے ہاتھ میں چوڑے پھل والی تلوار تھی جس کا پھل سورج کی روشنی میں بار بار چمک رہا تھا۔ قانون کے دو محافظ عہدیدار ایک طرف کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ ان کے ہاتھ میں دستاویزات تھیں۔ میری آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ مجھے اپنی زندگی کا سب سے خطرناک تجربہ ہونے والا تھا۔ مجھے جلاد کی اپنے طرف آنے کی آواز سنائی دی۔ اس کے بعد میری گردن پر تلوار کا بھرپور وار پڑا اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا۔

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 164 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اگلی صبح پادری خانقاہ پر تالا ڈال کر شہر کے چوک میں آگیا جہاں میرا سر قلم کیا جانے والا تھا۔ پادری کا بیان تھا کہ وہ مجھے چوک میں عبداللہ بن علی کی شکل میں دیکھ کر حیرت زدہ ہوکر رہ گیا تھا۔ پھر اس کے سامنے میر اسر دھڑ سے الگ کردیا گیا۔ لوگوں نے اموی خلیفہ مسترشد کے حق و انصاف کا نام بلند کرکے چھکڑے پر ڈال دیا گیا اور چھکڑا مسلح گھڑ سوار سپاہیوں کی نگرانی میں دریا کی جانب روانہ ہوگیا۔ پادری نے بھی اپنے گھوڑے کا رخ دریا کی جانب کردیا اور جس مقام پر میری لاش کو دریا کی لہروں کے سپرد کیا جانا تھا۔ وہاں سے دور دریا کے کنارے پر آکر انتظار کرنے لگا۔ سپاہیوں نے بوری دریا میں پھینک دی، بوری جس میں میری کٹی ہوئی لاش تھی وہ ایک بار ڈوب ابھر کر لہروں کے بہاﺅ بہنے لگی۔ سپاہی واپس چلے گئے۔ بوری تیرتی ہوئی جب اس مقام پر پہنچی جہاں پادری موجود تھا تو اس نے دریا میں چھلانگ لگادی اور بوری کو کھینچ کر کنارے پر لے آیا۔ بوری کو کنارے پر لانے کے بعد اس نے میری لاش کو باہر نکالا اور میرا کٹا ہوا سر میرے دھڑ کے ساتھ لگا کر خود ایک طرف جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھ گیا۔
جب جلاد کی تلوار کی کاری ضرب میری گردن پر پڑی تو مجھے کچھ ہوش نہیں رہا تھا۔ میں اس وقت سے لے کر کٹی ہوئی گردن کے دھڑ کے ساتھ لگانے تک عالم لاشعور میں رہا۔ جونہی میرا سر میرے دھڑ کے ساتھ دوبارہ لگا تو میرا شعور اور ہوش و حواس واپس آگئے۔ میں آنکھیں کھول دیں۔ دن کے اجالے میں مجھے اپنے اوپر نیلا آسمان دکھائی دیا۔ غیر شعوری طور پر میر اہاتھ میری گردن کی طرف اٹھ گیا۔ میر اہاتھ اٹھتا دیکھ کر پادری جلدی سے میرے پاس آگیا۔ میں نے گردن پر ڈتے ڈرتے ہاتھ پھیرا۔ میری گردن جڑ چکی تھی۔ وہاں تلوار کا کوئی زخم نہیں تھا۔ میں خدا کا نام لے کر اٹھ بیٹھا۔ پادری کے منہ سے بے اختیار نکل گیا ”یہ خدا کا معجزہ ہے۔“ میں نے اصلی عبداللہ بن علی کے بارے میں پوچھا۔ پادری نے کہا تم نے جیسے کہا تھا میں نے ویسے ہی کیا۔ تمہارے جانے کے تھوڑی دیر بعد وہ آن پہنچا تھا اور اب اپنی بیوی عذرا کے ساتھ خانقاہ میں محفوظ ہے۔ میں نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔ میرے اصلی نقوش واپس آچکے تھے۔ پادری نے مسکرا کر کہا ”تم اس وقت اپنی اصل شکل میں ہو۔“ میں ہاتھ باندھ کر خدا کے حضور سجدہ شکرانہ ادا کیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ہم گھوڑے پر بیٹھ کر واپس پہاڑی کے ڈھلانی جنگل والی خانقاہ میں آگئے۔ عذرا مجھے دیکھتے ہی فرط مسرت سے بولی
”عبداللہ بھائی۔ دیکھو یہ کون ہے؟“
میں نے اس کے خاوند عبداللہ بن علی کو گلے لگالیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ میں رات کو کہاں چلا گیا تھا۔ پھر اس نے مجھے بھی اپنی رہائی کی ”حیرت انگیز“ داستان سنائی اور بار بار سر جھٹک کر کہنے لگا میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔
”مگر عبداللہ سپاہی میرے فرار کے بعد میری تلاش میں ہوں گے۔ ہمیں یہاں سے نکل کر کسی دور دراز مقام پر چلے جانا چاہیے۔“
عذرا بولی ”اندلس میں ہمیں نہیں رہنا چاہیے۔ یہاں تمہیں کسی وقت بھی پکڑلیا جائے گا۔“
عبداللہ بن علی نے کہا ”ہم پرتگال چلے جائیں گے۔ وہاں میرا ایک دوست جہاز سازی کا کاروبار کرتا ہے۔ اس کے پاس ہمیں پناہمل جائے گی۔“
عیسائی پادری نے معنی خیز نگاہوں سے میری طرف دیکھا پھر عبداللہ بن علی سے کہا کہ وہ قرطبہ اپنے والد کے پاس کیوں نہیں چلا جاتا۔ اس پر عبداللہ بن علی نے چونک کر کہا
”نہیں نہیں۔ میں ان کے پاس گیا تو وہ مجھے دوبارہ قانون کے حوالے کردیں گے۔ میں اندلس میں نہیں رہوں گا۔ ہم دوسرے ملک میں جاکر ایک نئی زندگی شروع کریں گے۔“
اس وقت پرتگال کا مغربی علاقہ مسلمانوں کی عمل داری میں نہیں آیا تھا اور وہاں عیسائی حکومت تھی۔ ہم نے عبداللہ بن علی اور عذرا کو یہ بات بالکل نہ بتائی کہ قانون کے فیصلے کے مطابق اس کے ایک ہم شکل عبداللہ بن علی کو موت کی سزا دی جاچکی ہے۔ وہ خانقاہ کی کوٹھری میں بند تھے انہیں شہر کے چوک میں کسی قاتل کے سر قلم ہونے کی خبر بھی نہیں تھی۔ عبداللہ بن علی یہی سمجھ رہا تھا کہ وہ قید خانے سے فرار ہوگیا ہے اور سپاہی اس کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔
میں ان دونوں کو اندلس سے نکال کر ان کی منزل مراد کی طرف روانہ کرنے کے بعد ان سے جدا ہونا چاہتا تھا۔ ہم نے اندلس سے فرار کی ترکیبیں سوچنا شروع کردیں۔ ابھی ہم غوروفکر ہی کررہے تھے کہ خبر آئی سلطان اندلس کی فوجوں نے پرتگال پر چڑھائی کردی ہے۔ یہ خبر ہمارے لئے تشویشناک تھی۔ اب ہم پرتگال کا رخ نہیں کرسکتے تھے۔ آکر یہ طے پایا کہ فرانس کی طرف فرار ہوا جائے۔ فرانس، اندلس کے شمال کی سرحد تھی اور غرناطہ سے ہمیں باجا، مرسیہ، ترکونہ او ربار سلانہ کی طرف سفر کرتے ہوئے فرانس کے سرحدی پہاڑی سلسلے پیرینس کی وادی میں پہنچنا تھا۔ یہ ایک طویل مسافت تھی لیکن اس کے بغیر چارہ کار بھی کوئی نہیں تھا۔ ہم نے غرناطہ سے کوچ کی تیاریاں شروع کردیں ہماری پہلی منزل باجا کا شہر تھی۔
عذرا کو عیسیٰ راہب عورتوں اور عبداللہ بن علی کو عیسائی پادریوں کا لباس پہنایا گیا۔ عیسائی پادری اپنی خانقاہ چھوڑ کر ہمارے ساتھ نہیں جاسکتا تھا چنانچہ ایک رات ہم غرناطہ سے باہر جانے والے قافلے میں عیسائی راہبوں کے بھیس میں شامل ہوکر باجا کی طرف روانہ ہوگئے۔ یہ بحیرہ روم کے ساتھ ساتھ اندلس کی طویل ترین سرحد کا سفر تھا۔ باجا سے قافلہ پکڑ کر ہم مرسیہ اور پھر وہاں سے بار سلانہ پہنچ گئے۔(جاری ہے)

اہرام مصر سے فرار۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت‎۔۔۔ قسط نمبر 166 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں