جناب عارف علوی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ہیں۔ لیکن صدر پاکستان کا عہدہ اتنا زیادہ آئینی ہو گیا ہے کہ اس میں سے اختیار ختم ہو گیا ہے۔ پاکستان کے غیرفوجی صدر بھی اپنے صدر ہی کہلاتے ہیں مگر ان پر یہ پابندی ہوتی ہے کہ وہ کچھ نہ کرنے کا کمال کرتے رہیں۔ جناب فضل الٰہی چوہدری کے دور میں تو کسی نے ایوان صدر کی دیوار پر یہ نعرہ بھی درج کر دیا تھا کہ ”صدر کو رہا کرو۔“ صدر عارف علوی جب ایوان صدر سے نکلتے ہیں تو سکیورٹی کے ادارے عوام کو بتاتے ہیں کہ وہ صدر ہیں۔ اگر صدر کے اختیار و اقتدار کی یہی صورت رہی تو ایک آدھ عشرے کے بعد مقابلے کے امتحان میں سٹوڈنٹس اس لئے فیل ہو جائیں گے کہ انہیں صدر مملکت کے نام کاعلم نہیں ہو گا۔ صدر اور گورنر یونیورسٹیوں کے چانسلر بھی ہیں اور ان یونیورسٹیوں کے متعلق ان کے اختیارات بھی ہیں۔ مگر گزشتہ چند عشروں سے ان اختیارات کو غیر معمولی طور پر کم کر دیا گیا ہے اور انہیں صرف آئینی بنا دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کی تاریخ میں غیر آئینی عہدے اتنے طاقتور رہے ہیں کہ آئینی عہدوں کا وقار کم ہو گیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں افغانستان سے وزیرریلوے پاکستان آئے تو ان سے چبھتا ہوا سوال کیا گیا کہ افغانستان میں تو ریلوے ہی نہیں ہے آپ وزیر ریلوے کیسے ہیں؟ اس پر انہوں نے برجستہ جواب دیا کہ آپ کے ہاں پارلیمنٹ نہیں ہے مگر یہاں ایک وزیرپارلیمانی امور باقاعدہ حلف یافتہ ہیں۔ تاہم ابھی صدر اور گورنر کی صورتحال اتنی خراب نہیں ہوئی۔
صدر عارف علوی دانتوں کے ڈاکٹر ہیں مگر لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی کے سولہویں کانووکیشن کے موقع پر انکشاف ہوا کہ وہ چیریٹی کا بہت زیادہ کام کرتے ہیں۔ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور نے اس سلسلے میں جناب عارف علوی صاحب اور ان کی اہلیہ کے فلاحی کاموں کی اتنی زیادہ تعریف کی کہ ہمیں ان کی عظمت کا قائل ہونا پڑا۔ چوہدری محمد سرور برٹش پارلیمنٹ کے پہلے مسلمان ممبر رہے ہیں۔ انہوں نے انگریزوں سے اپنی سچائی اور ذہانت کا لوہا منوایا ہے۔ اس لئے جب وہ کوئی بات کرتے ہیں تو ہم پہلے آنکھیں بند کرتے ہیں اور پھر اس پر پوری طرح سے یقین کر لیتے ہیں۔
صدر عارف علوی صاحب نے ماسک کا نقاب ہٹا کر جب فی البدیہہ تقریر شروع کی تو انکشاف ہوا کہ وہ دانشور بھی ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں اسلام کے حوالے سے عورتوں کے حقوق اور عظمت پر بڑی دلپذیر تقریر کی۔ ان کا ماضی اور حال کا علم زبردست تھا۔ ان کی گفتگو سے حاضرین پر خواتین کی عظمت اجاگر ہو رہی تھی۔ وہ بتا رہے تھے کہ اسلام نے چودہ سو سال پہلے عورتوں کو وراثت کے حقوق دیئے جبکہ یورپ میں بیسویں صدی کے پہلے عشرے تک عورت کو پراپرٹی سمجھا جاتا تھا اور اس کی کمائی ہوئی رقم بھی اس کے شوہر یا باپ کی ملکیت ہوتی تھی۔ صدر عارف علوی نے کہا کہ افغانستان میں بمباری سے جب معصوم خواتین اور بچے شہید ہو رہے تھے تو کسی کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا خیال نہیں آ رہا تھا۔ اب جبکہ افغان عورتوں نے پردہ کرنا شروع کر دیا ہے تو اسے بمباری سے بڑے جرم کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ صدر عارف علوی کی تقریر سے پاکستان کے مستقبل کے روشن ہونے پر یقین کرنے کو دل چاہا۔ مگر الفاظ کے معاملے میں ان کی کفایت شعاری کچھ زیادہ اچھی نہ لگی جب انہوں نے بتایا کہ ایک یونیورسٹی کرائے کی عمارت میں قائم کر دی ہے اور گزشتہ چند سالوں میں اس نے حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ دل کھول کر اس یونیورسٹی کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے یہ بتانے سے پرہیز کیا کہ قوم کی یہ خدمت ورچوئل یونیورسٹی کر رہی ہے اور اس کے نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو وائس چانسلر اور ان کے ساتھیوں نے قائد اعظمؒ کے کام، کام اور کام کے ماٹو کو اپنا طرز زندگی بنا لیا ہے۔
گورنر پنجاب غیر معمولی ذہانت اور دانش کے مالک ہیں۔ انہوں نے کورونا میں یونیورسٹی کے سٹاف کی کارکردگی کی تعریف کی اور اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ لڑکے کسی یونیورسٹی میں تو تعلیم کے میدان میں لڑکیوں سے آگے نظر آئیں۔ انہوں نے بتایا کہ طالبات تعلیمی شعبے میں غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔ صدر مملکت جناب عارف علوی اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور سے یہ امید وابستہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ اس پر تحقیق کرائیں کہ پاکستان کی یونیورسٹیوں میں طلبا اور طالبات کی تعلیمی کامیابی کا تناسب کیا ہے اور پاکستان میں مختلف شعبوں میں غیر معمولی کامیابی حاصل کرنے کے بعد طالبات اپنی تمام ذہانت اور فطانت کو کچن میں کیوں استعمال کر رہی ہیں؟ یوں ان کی تعلیم پر قومی خزانے سے جو کچھ خرچ ہورہا ہے اس کا بری طرح ضیاع کیسے ہو رہا ہے۔
لاہور کالج یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر بشریٰ مرزا کی گورنر صاحب نے کھل کر تعریف کی جنہوں نے اس ادارے میں تحقیق اور تدریس کے کام کی ایک نئی روح پھونک دی ہے۔ محنت، میرٹ، ٹرانسپئرنسی اداروں کی کارکردگی کو کیسے کیسے کمال تک پہنچاتے ہیں اس کا مشاہدہ ڈاکٹر بشریٰ مرزا کے اس ادارے میں کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے قومی اداروں ہی نہیں عالمی سطح پر لاہور کالج یونیورسٹی نے ایک قابل احترام علمی ادارے کی پہچان حاصل کر لی ہے۔ لاہور کالج یونیورسٹی ایک صدی کا سفر طے کر چکی ہے۔ خواتین کی تعلیم کے سلسلے میں اس کا کردار واقعی سنہری لفظوں سے لکھا جائے گا۔ ڈاکٹر بشریٰ مرزا میرٹ پر وائس چانسلر ہیں اور ان سے یہ امید وابستہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ اپنی محنت اور قابلیت کے ذریعے نئی صدی میں جاتی ہوئی یونیورسٹی میں تعلیم و تحقیق کے معیار کو اس حد تک لے جائیں گی کہ مغرب میں بھی اس پر رشک کیا جائے گا۔
پروفیسر فائزہ لطیف شعبہ ابلاغیات کی نئی سربراہ ہیں۔ وہ محنت اور عزم صمیم پر اتنا یقین رکھتی ہیں کہ اکثر محنت کو ان کی کامیابیوں کے سفر کے ساتھ چلنے کے لئے بھاگنا پڑتا ہے۔ وہ اپنی وائس چانسلر بشریٰ مرزا سے غیر معمولی متاثر ہیں اور ان کے خیال کے مطابق یونیورسٹی اگلے چند سالوں میں ریسرچ میں غیر معمولی مقام حاصل کر لے گی۔
لاہورکالج یونیورسٹی تعلیم اور تحقیق کے جو نئے معیار قائم کرنے جا رہی ہے وہ مردانہ یونیورسٹیوں کے لئے بڑے چیلنج کھڑے کرے گی اور ہمیں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی یہ خواہش پوری ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی کہ کسی تعلیمی ادارے میں طلبا، طالبات سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ ہمیں تو خدشہ ہے کہ اگلے چند سالوں میں صدر پاکستان اور گورنر پنجاب کے عہدے بھی خواتین کے پاس ہوں گے اور اس تبدیلی میں لاہور کالج یونیورسٹی کا اہم کردار ہو گا۔اقبال کو وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ نظر آئے تھے۔ امید کی جاتی ہے کہ آنے والے سالوں میں خواتین اپنے علم اور ذہانت سے پاکستان کو نئے اور خوبصورت رنگ دیں گی۔