جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 26

Oct 26, 2018 | 04:10 PM

انجینئرڈ بدعنوانی کا عوامی مقدمہ
’’محترم جناب نوابزادہ نصر اللہ خان صاحب!میرے ہائی کورٹ بار کے صدر اور جملہ عہدیداران!میرے سینئر وکلاء بزرگ اور میری قابل احترام خواتین!السلام علیکم و رحمۃ وبرکاتہ۔۔۔۔میں ہائی کورٹ بار کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے تاریخ کے ایک نازک موڑ پر ہمیشہ کی طرح اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مجھے ان محب وطن اور جمہوریت پسند سیاستدانوں کے روبرو ہونے کا موقع فراہم کیا جن سے آج میں نہ صرف جمہوریت کی بحالی کے لئے بلکہ ملک کو بچانے کے لئے استدعا کرسکوں۔ آج یہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ پاکستان بنانے والوں کے فورم پر پاکستان بچانے والے اکٹھے ہوئے ہیں۔ میں آج آپ لوگوں کے سامنے خود کو پاکر آپ کو بقائے پاکستان کی ضمانت دے رہی ہوں۔ یقیناًآپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ آج ہم نے اپنی ذاتی رنجشیں ختم کرکے ملک کو بچانے کے لئے اس غیر مسلم قوتوں کے اشارے پر بننے والی غیر جمہوری حکومت کے خلاف اعلان جہاد کرنے کا ارادہ کیا ہے اور میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ اب نوابزادہ نصراللہ صاحب کی زیر قیادت، جمہوریت کی گاڑی اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوکررہے گی۔ آج کم از کم تمام سیاسی فکر رکھنے والوں کو یہ احساس تو ہوگیا ہے کہ ہماری چھوٹی چھوٹی لڑائیاں رنجشیں، چپقلشیں کن ناہنجاروں کو موقع فراہم کرتی ہیں کہ وہ سیاستدانوں کے کندھوں کو سیڑھی بناتے ہوئے اقتدار پر قابض ہوجاتے ہیں اور پھر اپنی ہوشیاری سے خود ہی سیڑھی کو زمین پر گرادیتے ہیں۔ آج اگر ملک میں جمہوریت نہیں، انصاف نہیں ہے، شرافت نہیں ہے، آئین نہیں ہے، خوشحالی نہیں ہے، استحکام نہیں ہے اور سالمیت پاکستان کو خطرہ ہے تو میں یہ سمجھتی ہوں یہ ہمارے اعمال کی باز پرس ہے۔ آج ہم اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں۔

جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 25 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
وقت کے حالات لمحہ بہ لمحہ، لحظہ بہ لحظہ آپ سے محب وطن اور جمہوریت پسند لوگوں کے سامنے ہیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کے سیاہ، جمہور دشمن اور ملت کش دن سے لے کر آج تک تقریباً ایک سال کا عرصہ پاکستان کے اس نازک وجود کو زخمی کرتا ہوا گزر گیا جس کے جسم سے پہلے ہی سقوط ڈھاکہ کا خون رس رہا ہے۔ اس ملک کے زخمی دل میں کتنے خیال ٹیس بن کر ابھرتے ہوں گے کہ میرے وجود میں طاغونی عناصر اور شیطانی قوتیں اپنی حماقت سے کیسی دشمنیاں پال رہی ہیں اور نت نئی گروہی تنازعات کو جنم دے رہی ہیں۔ 
’’عیاں راچہ بیان است‘‘
پاکستان کے قیام کے لئے مفکر پاکستان علامہ اقبال نے ہندو مسلم الگ قومیت کا فکرو فلسفہ 1930ء میں خطبہ الہ آباد میں پیش کیا۔ پاکستان کے قیام کی نظریاتی، قانونی، سماجی اور آئینی بنیادیں تاریخ کے قلب میں بطور امانت محفوظ ہیں۔ یہ بنیادیں تاریخ میں امانت کے طور پر اس لئے محفوظ ہیں کہ جب کوئی حقیقی جمہوری نظام اس ملک میں رائج ہوگا تو تاریخ ان بنیادوں کی امانت صحیح معنوں میں قوم کو واپس کرے گی۔ لکھنؤ پیکٹ 1916ء، تجاویز دہلی، دنیا کی نظر میں اعلیٰ قانون دان ملت اسلامیہ کے قائداعظم محمد علی جناح کے مشہور زمانہ 14 نکات، 23 مارچ 1940ء لاہور کی قرار داد پاکستان، برٹش کیبنٹ پلان، جسے خود بانی پاکستان اور ان کی جماعت مسلم لیگ نے انڈیا نیشنل کانگریس کی طرح تسلیم کیا تھا، گورنر جنرل آف پاکستان کی حیثیت سے 11 اگست 1947ء کو قائداعظم کا دستور ساز اسمبلی میں تاریخی خطاب، پرنسپلز آف پالیسی، رولز آف بزنس سب آج بھی گورنمنٹ آف پاکستان میں آئین کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں جمہوریت کے خلاف یہ پہلی سازش تھی کہ پاکستان بنانے والے کی تقریر کو ان دیکھے ہاتھوں نے حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کی طرح پایہ تکمیل تک نہ پہنچنے دیا۔ 
میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ 1949ء کی قرار داد مقاصد منظور کرانے کی پاداش میں شہید ملت سزا پاگئے اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس ملک کے دستور کا بنیادی حصہ نہ بن سکی اور پھر اسی قرارداد مقاصد کی روح کو نواز شریف نے زندہ کرکے جب اسلامی جمہوریہ پاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لئے قرآن و سنت کو مملکت کا سپریم لاء قرار دینے کا متفقہ قانون قومی اسمبلی سے منظور کرایا تو انہیں بھی اسلام دشمن طاقتوں نے پابند سلاسل کراکے سزا دلوائی۔ ’’گونواز گو نواز‘‘ پر تو عمل ہوگیا مگر قائداعظم اور لیاقت علی خان کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا خواب بکھر گیا اور 1951ء میں سید ابوالاعلیٰ مودودی بانی و امیر جماعت اسلامی کی دن رات کی کاوشوں سے مرتب کیا گیا 23 نکاتی آئینی خاکہ جو قرار داد مقاصد کی روح اور علماء کی کاوش کا نتیجہ تھا اور جس پر ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء متفق تھے، نواز شریف کے جانے کے ساتھ ہی خاکہ بھی ختم ہوگیا اور ان علماء کی محنت بھی بندوق کی نوک تلے دب گئی اور آج علماء کی روحیں ضرور اس کی حالت پر تڑپ رہی ہوں گی۔
میری دعا ہے کہ اس تاریخی علماء کنونشن میں بیٹھے ہوئے تمام علماء پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں اور بالخصوص مولانا عبدالستار خان نیازی اور سید ابو اعلیٰ مودودی پر، جن کی تحفظ ختم نبوت کے لئے خدمات اور قربانیوں کو ہم کبھی بھلا نہیں سکتے۔
قرآن و سنت کی بالا دستی مملکت پاکستان کی ایک اہم ترین روحانی اور نظریاتی بنیاد قرار پاتی ہے۔ بانی پاکستان نے آئین، مقننہ، پریس، انتظامیہ اور عدلیہ ہی نہیں فوج کا آئینی اور قانونی کردار بھی بالکل صاف کردیا تھا۔ 1948ء میں کشمیر میں جیتی ہوئی جنگ کو جب پسپائی میں بدلا گیا تو اسی وقت قائداعظم اور شہید ملت لیاقت علی خان نے یہ بھانپ لیا تھا کہ اگر ان تمام اداروں نے اپنا قانونی اور آئینی حق ادا نہ کیا اور ڈسپلن کی پابندی نہ کی تو ملک کی باگ ڈور کسی زور آور ادارے کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔
میں یہ کہنے میں خود کو حق بجانب سمجھتی ہوں کہ قوم کی عظیم ماں محترمہ فاطمہ جناح کا عوامی تائید کے باوجود اقتدار کا راستہ اس لئے روکا گیا کہ قوم کی ماں قائداعظم کے بعد ان کی سوچ کے مطابق کسی ادارے کو قانون کے دائرے میں لاتے ہوئے بند نہ کردے۔ قائداعظم نے فرمایا تھا کہ جمہوریت کا فروغ اور استحکام پاکستان کے بنیادی داخلی اتحاد، اخویت، یکجہتی، ہم آہنگی اور یگانگت میں مضمر ہے۔ استحکام اور ترقی کی واحد بنیاد احساس ذمہ داری کی بیداری ہے۔
1956ء کو پہلا آئین نافذ ہو جو پہلے الیکشن ہونے سے قبل ہی آمریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ 6 مارچ 1953ء میں پنجاب میں خونی مارشل لاء مستقل مارشل لاء کے راستے کو ہموار کرنے کی ایک کڑی تھا۔ 27 اکتوبر 1958ء کو مستقل طور پر آئینی عملداری ختم ہوگئی، ملک قانونی اور آئینی خلا میں چلا گیا جس کے بعد فرد واحد کا دستور اس ملک میں نافذ ہوگیا۔
یحییٰ خان نے پی سی او اور ایل ایف او (لیگل فریم ورک آرڈر) دیا مگر ملک کو اتحاد، اخوت، استحکام اور یگانگت نہ دے سکا۔ حقیقی جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹتا رہا مگر انتخابات کرانے کے بعد نہ تو اسمبلی کا اجلاس طلب کیا اور نہ اقتدار کی پرامن منتقلی اور آئین سازی کے جمہوری عمل کے مکمل کرنے کا وعدہ پورا کیا۔ جس کے مضر اثرات کے نتیجہ میں مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور 90 ہزار سے زائد فوجی بھارت کی قید میں پہنچ گیا۔
1971ء کی جنگ میں بچ جانے والے پاکستان کی اسمبلی نے مارشل لاء کے عذاب کو ٹالنے اور اس ملک کے جمہوری نظم و ضبط کو پٹڑی پر چڑھانے کے لئے 1973ء کا آئین بنایا، مگر اس آئین کے تقدس کو آمریت نے ہمیشہ پامال کیا اور یہ آئین اپنی داد رسی لے کر دو دفعہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں حاضر ہوا مگر سکیورٹی کمیٹی خود ساختہ پی سی او نے ہر دفعہ آئین پاکستان کو نظریہ ضرورت کا قیدی بنادیا۔
1973ء کے آئین کے مطابق 14 اگست 1983ء کو صوبوں کو جو حقوق و اختیارات دینے کا وعدہ کیا گیا تھا، وہ بھی پورا نہ ہوسکا اور یوں ملک میں عملاً ایک نئی ناراضگی کا ماحول پیدا کردیا گیا۔ میں یہاں تشریف فرما ماہرین قانون سے پوچھتی ہوں، کیا آٹھویں دستوری ترمیم نے صوبوں کے اختیارات اور حقوق کا گل انہیں گھونٹا؟ مگر اس گھٹی ہوئی فضا کو ختم کرنے کے لئے پابند سلاسل وزیراعظم نے تمام صوبوں کی چھوٹی پارٹیوں کو وفاق پاکستان کے اندر سیاست کرنے کی دعوت دی اور ان کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ مسلم لیگ کے ساتھ مل کر استحکام پاکستان کے لئے کام کریں اور اجتماعی قومی دھارے کی سیاست میں اشتراک عمل کریں۔
جمہوری عمل نے سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر پاکستان کو جتنا مضبوط کیا، آج اس حکومت نے اتنا ہی آئین مکمل طو رپر منسوخ کیا ہوا ہے۔ جمہوریت کے چلن کو مفلوج کیا ہے اور آئے دن یہ حالات پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔ کہیں چھوٹے صوبوں میں حکومت کے خلاف پید اہونے والی نفرت کسی تباہی کا پیش خیمہ اللہ نہ کرے، نہ بن جائے۔جب ضرورت قانون اور خواہش آئین بن جائے تو پھر ضرورت کا قانون ہی قانون کی ضرورت بن جایا کرتا ہے۔
میں اس فورم پر ہر بات قانون اور آئین کے دائرہ میں رہتے ہوئے کرنا چاہتی ہوں کیونکہ پوری قوم کی نظریں آج وکلاء اور عدالتی نظام کی طرف لگی ہوئی ہیں کہ اب ملک کو بچانا ہے تو انصاف دینے اور دلانے والوں نے بچانا ہے۔ 12 اکتوبر 1999ء کو ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا جو آئین اور قانون کے مطابق وقوع پذیر نہ ہوسکتا ہو یا وزیراعظم کے قانونی، آئینی حق اور اختیار سے باہر ہو۔ آئینی وزیراعظم محمد نواز شریف کو خطاب کرنے سے منع کردیا گیا اور وزیراعظم ہاؤس کو کمانڈو ایکشن کرکے دبوچ لیا گیا۔ یعنی نیب کی ٹیم نے ملک کو NABکرلیا۔
وفاق جو صوبوں نے بنایا اور جو صوبوں کو اکٹھا رکھتا ہے، اس وفاق پر شبخون مارا گیا۔ صوبوں پر غیر آئینی خود ساختہ شخصی اقتدار اعلیٰ مسلط کردیا گیا اور ایک بار پھر قرار داد پاکستان اور قرارداد مقاصدکو فراموش کرکے یہ غیر نمائندہ پرویز حکومت دو قومی نظریہ کے لئے خطرہ بن گئی۔
آپ سب حضرات مجھ سے زیادہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس حکومت نے سماجی، معاشی، سیاسی، انصاف کا حق عدالت سے سلب کرلیا ہے اور ضرورت کے لئے پی سی او کو آئین پرویزی بنا کر نافذ کردیا گیا ہے اور دستور کی حلف برداری کرنے والے خود ساختہ مسیحا کہلائے۔ دیدہ دلیری کی حد تو یہ ہے کہ ریٹائرڈ چیف آف آرمی سٹاف نے ایرانی خسرو پرویز کی طرح خود کو شہنشاہ معظم بنا کر اپنا نام چیف ایگزیکٹو رکھ لیا ہے اور اس طرح پوری دنیا میں پاکستان کے وقار کو ٹھیس پہنچائی۔ سابق دستور کی وفاداری کا حلف اٹھانے والوں سے ناحق اپنی شخصی وفاداری کا حلف دوبارہ لیا۔ مگر چیف ایگزیکٹو نے خود پی سی او کی وفاداری کا حلف نہ اٹھایا۔ یہ ایک اہم قانونی نکتہ ہے کہ چیف ایگزیکٹو ایسا کر بھی نہیں سکتا کیونکہ فوج سے ریٹائرڈ جنرل بھلا کس آئینی شیڈول یا شمار اور کھاتے میں حلف اٹھاسکتا تھا؟ لیکن اسلامی دفعات کی شمولیت کے بعد اب تو قرارداد مقاصد پھر سے لاگو ہوگئی ہے بلکہ قومی اسمبلی کا منظور کردہ قرآن و سنت کو سپریم لاء قرار دینے والا متفقہ قانون از خود نافذ ہوچکا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کے دباؤ پر اللہ کے فضل و کرم سے اسلامی دفعات کو پی سی او میں شامل کرلیا گیا ہے۔ اب 12 اکتوبر 1999ء کے بعد جن لوگوں نے بھی پرویز حکومت کی وفاداری کا حلف اٹھایا ہے ان پر یہ دوبارہ لاگو اور لازم ہوگیا ہے کہ وہ ایک دفعہ پھر اسلامی دفعات کے تحت حلف اٹھائیں اور ناموس رسالت ﷺ کا اقرار کریں اور یہ اس فورم کی ذمہ داری ہے کہ ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں رٹ دائر کرے۔ یہ بھی ایک اذیت ناک واقعہ اور حقیقت ہے۔ میں محترم قاضی حسین احمد کی توجہ اس طرف مبذول کرارہی ہوں کہ چیف ایگزیکٹو، چاروں صوبوں کے گورنروں، وزیروں اور نام نہاد قومی سلامتی کونسل کے ممبران کے حلف سے 12 اکتوبر 1999ء کو نبی پاک ﷺ کا نام مبارک اور آپ کی ختم نبوت پر ایمان کا اقرار اور اعلان اس حکومت نے حذف کرڈالا ہے اور اس کی جگہ اپنی وفاداری کو لازم قرار دے دیا ہے۔ پرویز مشرف! وفائیں تو خون میں شامل ہوتی ہیں اور ضمیر کا حصہ ہوتی ہیں، لکھ کے وفا کا اقرار کرنا یہ تو کوفہ والوں کی پرانی ریت ہے۔ ابو جہل وفا نہ کرسکا ،سردار مکہ سے جہنمی بن گیا اور بلال حبشی رضی اللہ عنہ اپنی محبت اور وفا کے صلہ میں نہ صرف جید صحابی کا مقام حاصل کرگئے بلکہ وارث جنت بن گئے اور آج اس صحابی کا یہ مقام ہے کہ وہ دمشق کی سرزمین کے لئے باعث برکت ہے اور روز قیامت اپنے آقا ﷺ کے ساتھ مدینہ کی پاک سرزمین سے اٹھے گا۔ یہ ہے وفا، وفاداری اور خوئے وفاشعاری اور اس کا عظیم انعام اور محبت کا صلہ جسے خدا نے اپنے بندوں کے لئے قیامت تک کے لئے نمونہ بنایا ہے اور اسلامی تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے۔
جن سے تو نے ’’اپنی وفا‘‘ کے حال ہی میں حلف لئے ہیں، انشاء اللہ وہی یقیناًکل کسی عدالتی کٹہرے میں تمہارے خلاف وعدہ معاف گواہ بھی ہوں گے۔اب اصل بات، جمہوریت کی بحالی کے ساتھ ساتھ جس پر میں زور دینا چاہتی ہوں وہ یہ ہے کہ جمہوریت چلانے کے لئے اب آزادی دینے والے عوامی اور قانونی اقتدار اور آئینی چلن کی ٹھوس ضمانت درکار ہے جو عملاً ناپید ہوچکا ہے۔ طالع آزماؤں نے کئی دفعہ بحالی جمہوریت کا ڈھونگ رچایا مگر بحالی سے پہلے ہی اس کو کالعدم کرنے کے نقشے اور خاکے بھی تیار کرلیے۔ آج حقیقی جمہوریت کو بحال کرنے کے دعوے کرنے والو! تم نے خود صوبائی نفرتوں کو ضلع کی حد تک بودیا ہے جس کی پرویز مشرف کی ٹیم میں بیٹھے ہوئے کچھ ناسمجھ اور کج فہم لوگ آبیاری کررہے ہیں۔
جمہوریت کی بحالی کے دعوے کرنے والے پچھلے ایک سال سے دولت مشترکہ میں اپنا کھویا ہوا وقار نہیں بحال کراسکے۔ اب وقت آگیا ہے کہ یہاں پر موجود تمام سیاسی اور محب وطن لوگوں کو اپنے دلوں میں کدورتیں ختم یا پھر کم کرکے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا، ایک دوسرے کے وجود کو بھی تسلیم کرنا ہوگا اور عوام کی رائے کو مقررہ وقت تک تسلیم کرنا ہوگا۔
پچھلے ایک سال میں آپ نے دیکھ لیا کہ انجینئرڈبدعنوانی نے ملک کو طلب و رسد کے بحران میں مبتلا کردیاہے۔ پاکستان کو ایک محب وطن وکیل کی قیادت میں مسلم لیگ نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر بنایا تھا، جب ایک شاعر کا دل عشق نبی ﷺ سے منور ہوا تو اس دل کی پہلی کرامت برصغیر میں اسلام کے نام لیواؤں کے لئے الگ اسلامی ریاست کے قیام کا تصور تھا۔ جس طرح اس کے نظریاتی، جغرافیائی محافظوں کا تعین ہوچکا ہے اس طرح اس کے آئین اور قانون کے محافظوں کو میں یہ باور کرانے آئی ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریاں کیوں نہیں نبھارہے۔ ہم اس ملک میں بندوق کا قانون نہیں، نظام مصطفی ﷺ کا نفاذ چاہتے ہیں۔ اب آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ ملک کے اندر شہری اور جمہوری آزادیوں، بنیادی انسانی حقوق اور آئینی حاکمیت اعلیٰ کی بحالی کے لئے عدالت کے اندر اور باہر ہر فورم پر انتھک محنت کریں۔
12 اکتوبر 1999ء کو جمہوری نظام کے خلاف تاریخ کی سب سے بڑی ڈکیتی جس کے تاوان کا تعین تک نہیں ہورہا، اس کے تاوان کی پہلی قسط تین سال کی شکل میں سامنے آئی ہے، نہ جانے گلی میں بند مظلوموں کو چھڑانے کے لئے اور کیا کچھ دینا پڑے۔ اقبال رعد مرحوم نے نہ صرف ملک سے وفا بلکہ اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے اپنی جان تک ملک اور جمہوریت پر قربان کردی۔ کیا اس کا قصور یہ تھا کہ وہ اس ڈکیتی کے مجرموں کے ناموں سے وقف ہوگیا تھا۔ فیصلہ آپ پر چھوڑتی ہوں۔ اسیران جمہوریت کو اپنے ہی ملک میں رات کے اندھیرے میں سزا اور اذیت دی جارہی ہے۔ اس پر قانون اور قانون دان حرکت میں کیوں نہیں آرہے ہیں؟
پاکستان کو عالمی برادری میں دہشتگرد قرار دلوانے کے لئے بھارت اور اسرائیل دن رات کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ مگر ریٹائرڈ جنرل نے اعانت مجرمانہ کا گھناؤنا کردار یوں ادا کیا کہ انہوں نے پوری عالمی برادری پر اپنی عاقبت نااندیشانہ سوچ سے یہ ثابت کیا کہ خدانخواستہ ملک کا وزیراعظم اپنے قلم سے ریٹائرڈ کئے ہوئے سابق چیف آف آرمی سٹاف جس کی نہ تو کوئی قانون پوزیشن رہی ہے اور نہ آئینی حیثیت رہی ہے، اس کا نام نہاد طیارہ اغوا کراسکتا ہے تو ملک میں باقی لوگوں کی کیا پوزیشن ہوگی۔ اصل میں یہ طیارہ سازش کیس نواز شریف پر نہیں بنایا گیا بلکہ ہنود و یہود کے اشارے پر پاکستان کی عالمی اسلامی ساکھ پر بنایا گیا ہے۔ ہر بار آئین توڑا گیا اور ہر بار تاوان لے کر اقتدار مشروط طور پر منتقل کیا گیا اور اب حکومت کے اندر فوج کی مکمل شراکت داری کا اشارہ دیا جارہا ہے۔ میں قانون دانوں سے پوچھ رہی ہوں کہ یہ فارمولا پاکستان بناتے وقت تو کہیں طے نہیں ہوا تھا۔ شاید آج آمریت کو پاکستان میں قیامت تک ختم ہوتا دیکھ کر ان کے آقاؤں نے شراکت داری کا فارمولا پیش کردیا۔
اس امپورٹڈ شراکت داری کے فارمولے پر آج تو قراردا دپاکستان بھی علیحدگی کی دستاویز دکھائی دینے لگی ہے۔ یہ قانون دان اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے بغیر نام نہاد لوگوں کی حکومت ماورائے آئین چل رہی ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ ستم ہے کہ قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر منظور کردہ، قرآن و سنت کو مملکت کا سپریم لاء بنانے کا قانون دانستہ طور پر لاگو نہیں کیا جارہا ہے کیونکہ یہ حکومت تو لائی ہی اس لئے گئی تھی کہ قرآن وسنت کو مملکت کا سپریم لاء بننے ہی نہ دیا جائے اور اسلام کو نافذ ہی نہ ہونے دیا جائے۔ کہاں ہیں نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کے حامی اور ہمنوا؟یہ سوال قوم کرتی ہے۔
ملک کو اقتصادی طور پر تباہ کرنے والے اسے کئی عشرے پیچھے لے گئے ہیں۔ قوم حلف شکنی سے باز رہنے والے اصول پسند ہم سفر ججوں کو بھی خراج تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے عدلیہ کی آزادی پر اپنی سفید پوشی قربان کرتے ہوئے اسے نیا نام دیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے جو خلوص فہم کے ساتھ مشروط ترجیحاتی مگر محدود مینڈیٹ دی اہے اس کو بھی حکمران پامال کرنے کے اشارے دے رہے ہیں اور آج تک پرامن انتقال اقتدار کے سوال پر یحییٰ خان والی پالیسی اپنائی ہوئی ہے۔ عدالت عظمیٰ نے قانون ضرورت کے تحت جو ڈیڈ لائن دی ہے وہ محض رعایت ہے گارنٹی نہیں ہے۔ عوامی فیصلے، عوام کی بڑی بڑی سڑکوں پر نکلنے والی ریلیاں کیا کرتی ہیں یا اس کے دانشور اپنے قلم کے زور پر لکھتے ہیں۔ بندوق کے زور پر لکھے جانے والے فیصلے، فیصلے نہیں ہوتے وہ ڈکٹیشن ہوا کرتی ہے۔
ملک میں فرقہ پرستی، تخریب کاری، دہشتگردی اور بھائی کو بھائی سے لڑانے والے فتنے سراٹھارہے ہیں۔ مگر حکومت ’’سب اچھا ہے‘‘ کی رٹ لگارہی ہے اور ’’سب اچھا‘‘ کی رٹ ہی کس حکومت کے جانے کے لئے نقارہ خدا ہوتی ہے۔ ملک کی تمام سیاسی، مذہبی قوتوں کا صرف ایک ہی ایجنڈا ہے کہ آمریت ہٹاؤ، جمہوریت لاؤ اور ملک کو بچاؤ۔
تمام سیاسی سوچ رکھنے والوں نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ اب ریٹائرڈ جنرل اور ملک ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ تمام سیاسی اسیران کو اگر رہا نہ کیا گیا تو خطرہ ہے کہ حالات آہستہ آہستہ فجی والی تاریخ نہ دہرادیں اور میں آج ذمہ دار لوگوں میں کھڑی ہوکر موجودہ حکمرانوں سے کہہ رہی ہوں کہ جمہوریت کو بحال کردیں، پاکستان کی پوری تاریخ میں اتنی کرپشن نہیں ہوئی جتنی پچھلے ایک سال سے اس حکومت کے دور میں ہوئی ہے اور میں ان کو باور کرارہی ہوں کہ ان کو پائی پائی کا حساب دینا پڑے گا کیونکہ یہ قومی دولت ہے۔ قومی جرم معاف نہیں ہوگا، صرف ذاتی رنجش معاف ہوسکتی ہے۔‘‘
پاکستان پائندہ باد
(بیگم کلثوم نواز کا خطاب: 16 نومبر 2000ء)(جاری ہے )

جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 27 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں