جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 27
میراث کے حقیقی وارث
’’میں سب سے پہلے آج اس فورم میں موجود ان تمام محبان وطن اور قائداعظم کے حقیقی وارث وکلاء برادری کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ انہوں نے جب اپنے ملک کی سالمیت کو خطرے میں دیکھا تو وہ تحریک پاکستان والا جذبہ لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ پُرمسرت بات ہے کہ آج اس فورم میں موجود تمام وکلاء حضرات جمہوریت اور آئین کی بحالی کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قانون دانوں کی جدوجہد، پاکستان کو آئین دلانے اور جمہوری نظام کی بحالی کے لئے قائداعظم سے لے کر آج تک سیاستدانوں کے لئے ہمیشہ مشعل راہ رہی ہے۔ ہر آمر کے سامنے قانون دانوں نے ہمیشہ جنگ لڑی اور اللہ کے فضل و کرم سے جیتی ہے۔ اس بار بات جمہوریت اور آئین بحال کرانے سے بھی آگے نکل گئی ہے۔ اب تو سالمیت پاکستان شدید خطرے میں ہے۔ یہود و ہنود کے ایجنٹ اپنے اوپر مکر کالبادہ اوڑھے حکومت کا حصہ بن کر پاکستان اور اسلام کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں۔ ان سازشی عناصر کے عزائم کے بارے میں آج اس فورم کی وساطت سے قوم کو آگاہ کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ شہدائے تحریک پاکستان اور شہدائے ختم نبوت کی روحیں برقرار ہیں۔
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 26 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
9نومبر کو قوم نے یوم اقبال تو منالیا مگر فکر اقبال کو بھول گئے۔ شاید ہم ڈاکٹر اقبال مرحوم کی روح کی تڑپ محسوس نہیں کرتے۔ اسی لئے ایک شاعر امیر الاسلام ہاشمی نے پاکستان کی حالت زار پر حال ہی میں ایک نظم لکھی
دہقان تو مرکھپ گیا اب کس کو جگاؤں
ملتا ہے کہاں خوشہ گندم کہ جلاؤں
مانا کہ ستاروں سے آگے ہیں جہاں اور
شاہین ہیں مگر طاقت پرواز کہاں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
واقعی اقبال کے دیس کا حال سنانے کا نہیں رہا۔
پاکستان بنانے والو! آج تمہیں پاکستان بچانا بھی ہوگا۔ قانون کا مقدس پیشہ جہاں مظلوموں کی داد رسی کرکے عبادت کی منزل تک پہنچتا ہے وہاں ان پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنے ملک کی سالمیت کے لئے کسی بھی بڑی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ ایک قانون دان نے ہی جمہوری، سیاسی، نظریاتی اور قانونی جنگ لڑ کر دو قومی نظریہ کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا۔ قائداعظم نے اس ملک کے لئے ایک واضح حکمت عملی اور واضح لائحہ عمل پیش کیا جس میں انہوں نے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے سول انتظامیہ، عدلیہ، فوج، پریس، قانون ساز اداروں کا حق اور اختیار 11 اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے واضح کردیا تھا۔
آج اگر کوئی وزیراعظم آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے کسی نااہل شخص کو ملک کی سالمیت پیش نظر رکھتے ہوئے ریٹائر کردے تو وہ سرکش سازشی غیر آئینی طور پر اسی وزیراعظم کو پابند سلاسل کردے تو ان حالات میں وقت کا قانون اور عدل اس سازش کو کیا نام دے گا؟ یہ میں آپ پر چھوڑتی ہوں۔
یاد رکھیے! عدل اور انصاف ایک فلاحی جمہوری اور مساویانہ سلوک پر یقین رکھنے والی مملکت کی ضرورت ہی نہیں، یہ تو ہر مسلمان کے ایمان کا بنیادی حصہ ہے۔ جس معاشرے سے انصاف اور عدل اٹھ جائے، اس معاشرے سے خدا کی رحمت بھی اٹھ جاتی ہے۔ توحید، ختم نبوت، قیامت پر ایمان اور انصاف ہر مسلمان کے عقیدے کی بن یاد اور ناقابل تنسیخ اصول ہیں۔
میں اپنی وکلاء برادری سے پوچھتی ہوں کہ کیا آج بے اصولیاں نہیں ہورہی ہیں۔ آج اللہ کی رحمت سے کون لوگ محروم ہیں؟ آج مسلمان کے چہرے پر وہ نور کیوں موجود نہیں جس نور کی موجودگی مسلمانوں کے چہرے پر اس کے مومن ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ آج بڑے بڑے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں کے چہرے اس لئے بے نور ہیں کہ اسلامی معاشرہ اپنی حقیقی اسلامی عدل و انصاف کی روایات سے دور ہوتا جارہا ہے۔ وکلاء برادری کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی بھی غیر عادل کی حکومت، انصاف دشمن حکمران اور معاشرے کو برداشت نہیں کیا۔ قانون کی حکمرانی، انصاف کی بالادستی، آئین کی عملداری کے لئے وکلاء اور عدلیہ نے ہمیشہ بنیادی شہری حقوق کی پامالی کے خلاف جدوجہد میں قوم کا ساتھ دیا ہے مگر آج 16 ایم پی او کے تحت بند کئے جانے والے شہریوں کی رہائی کے لئے اسلام آباد سے فیکس کے ذریعے ڈکٹیشن لی جارہی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ملک کو شفاف سیاسی فضا اور جمہوری اور عادلانہ معاشی نظام دیا جائے کیونکہ
کہنے کو تو ہر ایک شخص مسلمان ہے لیکن
دیکھیں تو کہیں نام کو کردار نہیں ہے
بے باکی و حق گوئی سے گھبراتا ہے مومن
مکاری و روباہی پہ اتراتا ہے مومن
جس رزق سے پرواز میں کوتاہی کا ڈر ہو
وہ رزق بڑے شوق سے اب کھاتا ہے مومن
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
ملک کی سیاسی تاریخ میں وہ وقت آپہنچا ہے کہ طالع آزماؤں کا راستہ روکنے کے لئے جس طرح وکلاء برادری اکٹھی ہوئی ہے اسی طرح تمام سیاسی جماعتیں اکٹھی ہوکر بحالی جمہوریت کے لئے آمریت کی راہ میں دیوار بنیں اور آئندہ جمہوریت کو مستحکم بنانے کے لئے کوئی اصولی، ٹھوس اور مستقل طریقہ کار طے کریں۔ عوام کے ووٹ سے قائم کی گئی جمہوری حکومت کو مدت پوری کرنے اور تمام سیاستدانوں کو اپنے ایجنڈے کے مطابق ملک و قوم کی خدمت کا موقع دینا ہوگا۔ اب ہٹاؤ، چلاؤ، بھگاؤ اور آؤ کی دقیانوسی منفی سیاست کو ختم کرکے مختلف ایجنسیوں کے آلہ کاروں اور ان کی سیاست کو عدل کے ایوانوں میں دفن کرنا ہوگا اور اب ہم ملک کو کسی ’’امپورٹڈ‘‘ اور این جی اوز کے وظیفہ خوار کی ڈکٹیشن پر نہیں چلنے دیں گے۔ معین قریشی نے جو ڈکٹیشن ریٹائرڈ جنرل مشرف کو دی ہے، اگر حکومت میں جرأت ہے تو وہ بات عوام کو بتادے تاکہ معلوم ہو کہ جو بات وہ کہہ ہرے ہیں اس کے خلاف نہ صرف آواز بلند کرنا جہاد ہے بلکہ ہم سب کے لئے راہ نجات بھی ہے۔ آپ مظلوموں کو انصاف دلاتے ہیں اس لئے میری آپ سے یہ استدعا ہے کہ انصاف کو روز محشر پر انصاف کو موقوف نہ ہونے دیں۔
آخر کب تک پی سی او کی لاٹھی سے ملک کو ہانکا جائے گا۔ یہ ملک ایک مقدس نظریہ کی بنیاد پر بنا ہے۔ اس کا ایک آئین ہے، لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس آئین کا تحفظ کرنے کی بجائے اس پر چوتھی بار طالع آزماؤں نے ضرب شدید لگائی ہے۔ آپ حضرات قانون جانتے ہیں کہ جس ایف آئی آر میں ضرب شدید ثابت ہوجائے تو وہ ارادہ قتل بنتی ہے۔ میں اس عظیم فورم سے چیف جسٹس سعید الزمان صدیقی کو، ریٹائرڈ یا حاضر سروس؟ اس کا فیصلہ تو آپ کریں اور ان کے رفقاء کار کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں، انہیں سلام کرتی ہوں۔ میں سمجھتی ہوں کہ ساری جمہوریت محب وطن قوم میرے اس جذبے میں برابر کی شریک ہے کہ جنہوں نے پی سی او پر عدم اعتماد کرکے عدالت عظمیٰ کا چیف جسٹس ہوتے ہوئے آئین پر ارادہ قتل ثاقب کرکے نظر ثانی کی گنجائش نہیں چھوڑی۔ جسٹس صاحب اور ان کے رفقائے کار نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی لاج رکھ لی اور ثابت کردیا کہ اس دھرتی پر قیامت تک ایسے سپوت پیدا ہوتے رہیں گے جو کسی بھی دباؤ کی پروا کئے بغیر چاغی کے پہاڑوں کو عدل، انصاف، غیرت، عزت اور وقار کی سفیدی سے روشن کرتے رہیں گے۔
محترم چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان حمود الرحمن مرحوم کی حق گوئی اور جرأت کی تاریخ ہمیشہ یاد رکھی جائے گی کیونکہ انہوں نے بھی سقوط مشرقی پاکستان کے سانحہ کی رپورٹ انتہائی جرأت اور دیانت سے رقم کی تھی۔ 1993ء میں اس وقت کے صدر مملکت غلام اسحاق خان نے جب حکومت برطرف کرکے غیر آئینی طور پر اسمبلیوں کو کالعدم قرار دیا تو پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے تاریخی فیصلہ دے کر یہ ثابت کیا کہ ملک کی عدالتیں حکمرانوں کے دباؤ اور ان کے جبر سے مکمل طور پر آزاد ہیں اور مظلوموں کی داد رسی اور حق کا فیصلہ کرنے کے لئے ہر وقت موجود اور تیار ہیں، لیکن افسوس کہ جبر کے یہ دن بھی ہمیں دیکھنے پڑے کہ آمریت نے اپنے مقاصد کے لئے دھونس اور دھاندلی سے کام لیا اور پی سی او کے ہتھوڑے سے اس کے دست و بازو توڑ دئیے۔
میں نے پہلے کہا تھا کہ سپریم کورٹ نے خود ساختہ حکومت کو وقت دیا ہے، کوئی گارنٹی نہیں دی۔ جنرل مشرف کا ایجنڈا بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ اسی لئے شاعر نے کہا ہے
آئے ہیں نظر مسند شاہی پہ رنگیلے
تقدیر امم سوگئی طاؤس پہ آکر
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
اب حکومت بری طرح ناکام ہونے کے بعد عدالتی ایجنڈے کا سہارا لے کر اپنی موجودگی کا ناحق جواز بنارہی ہے۔ سپریم کورٹ نے انہیں وقت دیا ہے اور ایسا صرف مجبور کا سودا نبھانے کی ضمانت ہے اور یہ بھی عبوری ضمانت ہے جسے عدالت نے ابھی عوامی دلائل سن کر کنفرم کرنا ہے۔ مگر وکلاء برادری نے متحد ہوکر اس عبوری ضمانت کو مسترد کردیا ہے۔ وکلاء اور سیاستدانوں کو ملک کے جمہوری نظام کی بحالی کا ٹائم فریم خود قوم نے دینا ہوگا کیونکہ پاکستان کو سرزمین بے آئین رکھنا قائداعظم کے نظریات کی توہین اور دو قومی نظریہ سے بغاوت ہے۔ قرار داد مقاصد 12مارچ 1949ء، نظریہ پاکستان اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کی ضامن ہے اور اس سے انحراف کا مطلب جج صاحبان، وکلاء حضرات اور علماء کرام سب بخوبی جانتے ہیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ آئین فریادی بن کر عدالت عظمیٰ میں کھڑا ہوگا اور آمریت عدالت سے ایسا فیصلہ کرائیں گے کہ آئندہ رہتی دنیا تک پاکستان میں کوئی بھی طالع آزما خود سرآمر چاہے وہ کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو جمہوریت، آئین اور قانون کی حکمرانی پر شبخون نہیں مارسکے گا۔ انشاء اللہ، آپ جس عظیم پیشے سے تعلق رکھتے ہیں یہ آپ کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ آپ کا فرض ہے کہ آپ پاکستان کو غیر آئینی سراب سے نکالنے کے لئے اپنی جدوجہد کا آغاز کریں۔
پاکستان نہ صرف عظیم وکیلوں کی میراث ہے بلکہ قیام پاکستان کے بعد بھی کئی بڑے وکلاء نے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی ہے اور ماضی میں جب بھ ی کسی نے آمریت کو مسلط کرنے کی کوشش کی تو یہ آپ کی وکلاء برادری ہی تھی جو ہر اول دستہ بن کر ہر جدوجہد میں شریک رہی۔ تحریک نظام مصطفی ﷺ کی ابتداء وکلاء برادری کا وہی جلوس تھا جو لاہور ہائیکورٹ سے مسجد شہداء تک گیا اور مجھے یقین ہے کہ وکلاء آج بھی قانون کی پاسداری، جمہوریت کی بحالی، آئین کی بالادستی اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لئے اسی جذبے اور عزم کے ساتھ متحد ہیں۔ میں اس جدوجہد میں آپ کے ساتھ آپ کی ایک بہن اور کارکن کی حیثیت سے شریک ہوں۔ اٹھیے کہ وقت تیزی سے تباہی کی جانب جارہا ہے۔ ہم نے اپنے وطن اور اپنے چمن کو ان تباہ کرنے والے ہاتھوں کی پہنچ سے نہ صرف بچانا ہے بلکہ انہیں مروڑ کر توڑنا بھی ہے تاکہ یہ مٹھی بھر سازشی ہاتھ اپنے چمن اور وطن کی جانب کبھی دوبارہ اٹھ ہی نہ سکیں۔ مسلم لیگ کے قائد محمد نواز شریف اور پاکستان کا استحکام لازم و ملوزم ہیں۔ اس لئے بجا طور پر نواز شریف یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوریت کی بحالی وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس کے لئے ایک ایسی تحریک چلانا ہوگی جو ہر دل سے ابھرے اور اسلام آباد کے مٹھی بھر سازشی گھروں کو خاکستر کردے، انشاء اللہ
آپ بانی پاکستان حضرت قائداعظم کے وارث ہیں کیونکہ وہ بھی ایک عظیم وکیل تھے اور ان کی ولولہ انگیز قیادت میں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے عظیم قربانیوں سے یہ ملک حاصل کیا تھا اور میں سمجھتی ہوں کہ آج قائداعظم کی روح بھی آپ کو آواز دے رہی ہے کہ آپ اٹھیں اور قائداعظم کی میراث کو مٹھی بھر آمروں اور غاصبوں سے نجات دلا کر اس منشور اور مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں جس کے لئے قائداعظم نے یہ ملک بنایا تھا۔ اسی لئے میں کہتی ہوں کہ آج قائداعظم کی جماعت مسلم لیگ کے صدر میاں محمد نواز شریف اور سالمیت پاکستان لازم و ملوزم ہیں۔ یہ تاریخی جبر کی صداقت بھی ہے اور نوشتہ دیوار بھی۔‘‘
پاکستان پائندہ باد
(کلثوم نواز شریف کا خطاب: 24 نومبر 2000ء)