جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 25
محفوظ پورہ ٹارچر سیل
’’میں آج مسلم لیگی کارکنوں اور عوام کو یوم سیاہ منانے اور اسے کامیاب کرنے پر مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ دراصل یہ یوم سیاہ حکومت کی ایک سالہ ناقص کارکردگی اور اسلام دشمن سرگرمیوں پر عوام کی نفرت کا اظہار تھا۔ اس دن کی سیاہی تو 12 اکتوبر 1999ء کو ہی ملک پر چھاگئی تھی، ریٹائر ڈ جنرل نے رات کے اندھیرے میں جب ملک میں جمہوریت اور آئینی عملداری پر ڈاکہ مار کر اسے ختم کیا۔ 13 اکتوبر کو ملکی تایرخ کی سب سے بڑی ڈکیتی، دہشتگردی اور سیاسی تخریب کاری کی گھناؤنی سازش کو مکمل کرنے کے بعد اس نے 14 کروڑ عوام سے خطاب کیا، جس میں اس نے آئین، جمہوریت اور عوامی حکومت ختم کرنے کا اعلان کیا اور 7 نکاتی ایجنڈے کے نام سے ایک پھندا عوام کے گلے میں ڈال دیا جس کی تکلیف اسی دن سے شروع ہوگئی تھی۔ ایک حکومتی آرڈر کے تحت حکومت نے اپنے شبخون کو تحفظ دینے کے لئے 12 اکتوبر کے دو دن بعد تمام عدالتی دروازے بند کردئیے تھے، بڑی بڑی گاڑیوں کے اوپر L.M.G اور R.R نصب کرکے قوم کو یہ خوف دلایا گیا کہ یہ مہلک ہتھیار حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کے لئے استعمال ہوسکتے ہیں۔ ملک میں خوف و ہراس کی ایک ایسی فضا تھی، لگتا تھا کہ اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے کی شدید سزا ہوگی۔ اس سیاہ دن سے ہی یہ ثابت ہوگیا تھا کہ اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنے کی شدید سزا ہوگی۔ اس سیاہ دن سے ہی یہ ثابت ہوگیا تھا کہ محبان جمہوریت کو اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں محفوظ پورہ ٹارچر سیل میں عبرتناک سزا سلواکر حق کی آواز کو دبانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ عوام بندوق کی نوک پر دبوچے گئے تھے۔ چار دیواری کے اندر رات کے اندھیرے میں بدبخت لوگ اپنے پیارے بھائیوں پر کوڑے برسارہے تھے اور مشرقی پاکستان والی نفرت کا ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت آغاز کیا جارہا تھا۔ ان حالات میں، داد دیتی ہوں او ران لوگوں کو جو خود ساختہ حکومت کی مخالفت میں بڑے سے بڑے نقصان کی پروا کئے بغیر جذبہ حب الوطنی کے تحت پابند سلاسل ہوئے۔
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 24پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ہم یوم سیاہ کیوں نہ مناتے، پاکستانی تاریخ کا یہ المیہ ہے کہ جو ملک دو قومی نظریہ اور اسلام کی سربلندی کے لئے بنا تھا اس پر فوجی انقلاب کی شکل میں درحقیقت قادیانی انقلاب کی سازش نے قبضہ کرلیا۔ یہ وہی سازش تھی جو قائداعظم کے وقت سے شروع ہو ئی اور اسی سازش کی بھینٹ لیاقت علی خان چڑھے۔ یہ اندرون خانہ سازش ہر دور میں ہوتی رہی مگر اس دفعہ ایک ریٹائرڈ سکیورٹی رسک جنرل کے ذریعہ پروان چڑھنے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔ انشاء اللہ اس دھرتی کے سپوت اور پاک فوج اس ملک پر قادیانیوں کا قبضہ نہیں ہونے دیں گے۔ اب لوگ قادیانی انقلاب کے خلاف اپنے سروں پر کفن باندھ کر باہر نکل آئیں گے۔
صوبہ سرحد کے غیور عوام جو ریلی لے کر چلے تھے اگر اس ریلی کی راہ میں حکومتی مشینری رکاوٹ نہ ڈالتی، میں دعویٰ سے کہتی ہوں کہ وہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر لاہور پہنچتے ہی قادیانی سازش کے خاتمے کی نوید سنادیتا۔ اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والو! 1953ء میں بھی تحفظ ناموس رسالت ﷺ کے لئے ہم نے اپنے خون سے اس دھرتی کو سرخ کردیا تھا اور تمہارے عزائم خاک میں ملادئیے تھے اور اب 1953ء والی مارشل لاء کی گھناؤنی سازش دہرانے نہیں دیں گے۔ عوام یہ جان چکے ہیں کہ ریٹائر ڈ جنرل اکیلا ہے، یہ فوجی انقلاب نہیں بلکہ قادیانی انقلاب ہے۔ نحوس بھرا ایک سال مکمل ہوگیا، عوام کی نفاذشریعت کی دیرینہ خواہش سازش کی نذر ہوگئی۔ مہنگائی اپنے زوروں پر ہے، افراط زر میں اضافہ ہوا، روپے کی قیمت کو گرایا گیا، خود سوزیاں معمول بن گئیں، اسلام آباد کے اندر دھماکوں نے خود ساختہ حکومت کو سلامی دی۔ کوئٹہ کا شہر پچھلے سال سے آج تک میدان کا رزار بنا پڑا ہے، نوجوان بے روزگار ہوگیا، کسان بے یارومددگار ہوگیا۔ امریکہ کے دورے میں پاکستان کے عالمی وقار کو جو جھٹکا لگا اس کا مداوا اب کیسے ہوسکتا ہے۔
میں اس فورم سے تمام مکاتب فکر کے علماء و مشائخ کو دعوت دیتی ہوں کہ وہ اپنے فروعی اختلافات کو بھلا کر ناموس رسالتﷺ کے تحفظ کے لئے اکٹھے ہوجائیں۔ آج اگر علماء ون پوائنٹ ایجنڈا تحفظ ختم نبوت پر اکٹھے نہ ہوئے تو یاد رکھو! قیامت کے دن کس منہ سے حضور پاک ﷺ کی شفاعت کی بھیک مانگو گے۔ اب ان ناپاک لوگوں سے پاک فوج کو بھی پاک کرنا ہوگا اور ان کے عزائم بھی خاک میں ملانا ہوں گے۔ یہودیوں کی تنخواہ دار این جی اوز کا راستہ روکنا ہوگا۔ آج اس ملک کا آئین سرکش لوگوں کی سرکشی کے باعث معطل ہے۔ اس آئین کا جرم یہ ہے کہ اس نے مرتد کو مرتد قرار دیا، یا اس آئین کا جرم یہ ہے کہ اس نے وزیراعظم پاکستان کو یہ اختیار دیا کہ وہ کسی بھی سکیورٹی رسک جنرل کو ملکی سلامتی کے لئے وقت سے پہلے ریٹائر کرسکتا ہے۔ ایک سال پہلے جب ملک کا وزیراعظم یہ بھانپ گیا تھا کہ اس کا چیف آف آرمی سٹاف اب ملک کے لئے خطرے کی علامت بن چکا ہے کیونکہ ملک کسی عاقبت نااندیش کی کارگل جیسی سازش کا دوبارہ متحمل نہیں ہوسکتا اور پاکستان کے آٹھ سو سپوتوں کے خون کا حساب مانگا گیا تو اپنے گناہ چھپانے کے لئے اس شخص نے چودہ کروڑ عوام کو یرغمال بنالیا۔
کارگل سازش اصل میں دفاع پاکستان کو کمزور کرنے اور جہاد کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لئے ہنود و یہود کو ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جو انہوں نے پرویز مشرف سے پورا کروایا۔ اسلام دشمن یہ بھانپ گئے تھے کہ پاکستان اب ایٹمی طاقت ہے، وہ کسی بھی دشمن ملک کے دانت کٹھے کرسکتا ہے۔ دشمن نے ایک منصوبہ کے تحت کارگل میں جنگ شروع کرواکر اصل میں ملکی خزانے کو کمزور کرنے کی کوشش کی اور آج کی منصوبہ کے تحت مصنوعی مہنگائی کا مقصد بھی یہی ہے کہ پاکستان کو معاشی طور پر دیوالیہ کردو تاکہ مستقبل میں وہ کسی جارحیت کا مقابلہ نہ کرسکے۔ دنیا یہ جانتی ہے کہ جس ملک کی اکانومی مضبوط ہوگی اس کا دفاع بھی مضبوط ہوگا کیونکہ اقتصادیات بنیادی ڈھانچہ ہوتا ہے اور باقی سب کچھ بالائی ڈھانچہ ہوتا ہے۔ پوچھو آج ان مجاہدوں سے جو کارگل میں اپنے ملک پر قربان ہورہے تھے، دشمن کے مقابلے میں ان کے حوصلے بلند تھے مگر اپنوں کی ناقص منصوبہ بندی اور ذرائع رسدان کے لئے پریشانی کا باعث بن گئے۔ ریٹائرڈ جنرل! کیا جنگیں کمزور لاجسٹک سے جیتی جاسکتی ہیں؟ افسوس کہ منتخب حکومت کو یہ وقت نہ دیا گیا کہ وہ اس سازش کو بے نقاب کرتی تاکہ قوم کو 28 سال تک حمود الرحمن کمیشن کی طرح کارگل سازش کے بے نقاب ہونے کا انتظار نہ کرنا پڑے۔
این جی اوز مافیا کے باس جاوید جبار نے کہا تھا کہ سورج 12 اکتوبر کو بھی نکلے گا، سورج 12 اکتوبر کو ضرور نکلا مگر اس کی تپش تم تک 15 اکتوبر کو پہنچی۔ اب آنے والا ہر دن اسلام کے نام لیواؤں اور ملک سے پیار کرنے والوں کے لئے ایک روشن دن ہوگا۔ حکومتی مشینری کے اختلافات آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں۔ پرویز مشرف کے امریکہ جانے سے پہلے کچھ اختلافات منظر عام پر آئے تھے حکومت کا ہر وزیر اپنی جیب میں استعفیٰ لئے پھررہا ہے۔ اب استعفیٰ دو یا معافیاں مانگو، قانون قدرت تمہیں معاف نہیں کرے گا کیونکہ ان لوگوں نے پاکستان کا آئین معطل کیا اور اسلامی قانون کی راہ میں رکاوٹ بنے، جس معاشرے میں انصاف کی فراہمی جبر کی مشکلات کا سامنا نہ کرسکے، جس معاشرے میں اپنے گھر کے درودیوار سے خوف آنا شروع ہوجائے، مہنگائی کے گھٹن میں سانس لینا مشکل ہوجائے، ہر روز نیا منی بجٹ آرہا ہو، آٹا، چینی، روزمرہ کی ضروریات درد سر بن جائیں تو ایسے حالات میں ہر نکلنے والا سورج یام سیاہ کی علامت نہیں بنے گا تو اور کیا ہوگا۔ لوگ ہسپتالوں میں مہنگائی کے ہاتھوں اور ادویات خریدنے سے عاجز ہیں مگر ڈیفنس میں اب بھی کرپٹ لوگ عام پلاٹوں کو کمرشل پلاٹوں میں تبدیل کرنے کے قانون بنارہے ہیں۔ بھل صفائی مہم نے اب بھل بھرائی کی طرف رخ کرلیا ہے۔ ذہانت کا عالم یہ ہے کہ نہروں سے اتنی بھل نکال لی کہ زمیندار کی زمین میں پانی کی سطح کم ہوگئی، اب دوبارہ اپنے ہی ہاتھوں سے نکالی گئی بھل کو نہروں میں ڈال کر پانی پورا کیا جارہا ہے۔ جو لوگ ایک پانی نہ چلاسکیں وہ پورے ملک کا نظم و ضبط کیسے سنبھالیں گے۔ جو ریٹائرڈ جنرل E.M.E سے کرپشن ختم نہ کرسکے وہ 14 کروڑ عوام کو کیا انصاف دلوائے گا۔ جو ایک سال میں محکمہ سی بی آر کا نظام بھی ٹھیک نہ کرسکے، وہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے قرضے کیسے اتاریں گے۔
12 اکتوبر کو 14کروڑ عوام کی نفرت نے یہ ثابت کردیا ہے کہ عوام اپنے ملک کی سلامتی کے فیصلے خود کیا کرتے ہیں۔ اب حکومت کو بہت جلد چھینا ہوا اقتدار واپس دے کر عزت کے ساتھ جانا ہوگا۔ اب عدالت عظمیٰ کو چاہیے کہ عوام میں جتنی نفرت اس خود ساختہ حکومت کے لئے پیدا ہوگئی ہے اس کے تحت اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے اور ملک کو خانہ جنگی کے حالات سے بچائے۔
مجھے یقین ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہوگا۔ ہم بہت جلد ایک نیا سیاسی سیٹ اپ قائم کرنے کے لئے ایسا لائحہ عمل مرتب کریں گے جو ملک کی دینی و سیاسی سب جماعتوں کو بھی قابل قبول ہوگا اور اس میں نہ صرف ان کا بلکہ سب کا بھلا ہے کہ ملک میں جلد از جلد جمہوریت اور جمہوری ادارے بحال کردئیے جائیں اور ملک اس وقت جن اندرونی و بیرونی خطرات سے دوچار ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جمہوریت بحال کی جائے اور اس سلسلے میں مَیں وکلاء برادری کو بھی خراج تحسین پیش کرتی ہوں کہ پنجاب بار کونسل نے بحالی جمہوریت کی قرارداد منظور کی ہے اور وقت ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اے پی سی کے پلیٹ فارم پر متفقہ قرارداد منظور کرچکی ہیں۔ اس ملک کے مسائل کا صرف اور صرف حل یہ ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو ان کا حق حکومت دیا جائے اور انہیں ایسا کرنا ہوگا۔‘‘
(خطاب: 15 اکتوبر 2000ء)(جاری ہے)