جنگ کیوں ضروری ہے (آخری قسط)

چھٹا اور آخری مرحلہ
جون 1944ء میں اتحادی افواج ساحل نارمنڈی (فرانس) پر اتر گئیں اور یورپ میں اس جنگ کا آخری مرحلہ شروع ہوا۔ ایک ماہ بعد ایک اور فرانسیسی بندرگاہ مارسیلز کی جانب سے ایک اور چھوٹی اتحادی فوج بھی فرانس میں اتاری گئی۔ ستمبر 1944 ء میں جرمن افواج، اتحادی فورسز کو اپنی سرحدوں پر روکنے میں ایک حد تک کامیاب ہو گئیں اس طرح دسمبر 1944ء میں ہٹلر نے بلجیئم کے جنوب میں سلسلہء کوہ آرڈینز (Ardennes) میں اتحادی فورسز پر ایک آخری حملہ کیا……یہ بجھتے ہوئے چراغ کی آخری لو تھی جو ایک حیران کن چمک کے ساتھ نمودار ہوئی اور پھر بجھ گئی۔
جنوری 1945ء میں اتحادیوں نے جرمنی کے دارالحکومت کی طرف دوبارہ یلغار کا آغاز کیا، مارچ میں دریائے رائن عبور کیا جو جرمنی کا مشہور دریا ہے۔ اپریل میں جب سب کچھ ہاتھ سے نکلتا معلوم ہوا تو ہٹلر نے خود کشی کر لی۔ اوائل مئی 1945ء میں ایک طرف سے روسی اور دوسری طرف سے اتحادی افواج کابرلن میں ملاپ ہوا اور اس طرح یورپ میں جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ لیکن جاپان نے جنگ جاری رکھی۔ وسط 1945ء میں برطانوی اور ہندوستانی فورسز نے مل کر جاپانیوں کو برما سے بھی نکال دیا۔اگست 1945ء میں امریکہ نے جاپان پر دو ایٹم بم گرائے اور شہنشاہ جاپان نے جنگ ختم کرنے اورہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا۔
جاپان پر ایٹمی حملے سے صرف ایک ہفتے پہلے روس نے بھی جاپان کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا اور مانچوریا پر ایک زبردست ٹینک یلغار کی۔ جاپانی فورسز اس یلغار کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ تاریخ میں اگرچہ اس روسی ٹینک یلغار کا ذکر بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جاتا لیکن مانچوریا کی یہ فتح، رشین میکانائزڈ افواج کی ایک یادگار اور عظیم الشان کامیابی تھی…… اس طرح جب 14اگست 1945ء کو جاپان نے اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تو اس جنگ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔
نتائج
جرمنی نے یہ جنگ پہلی جنگ عظیم میں اپنی شکست کا بدلہ چکانے کیلئے شروع کی تھی۔ مورخین کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر جرمنی اس جنگ کے آغاز سے ڈیڑھ سال بعد روس پر حملے کی غلطی نہ کرتا تو اسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہو جاتی۔ جون 1941ء میں سارا یورپ ہٹلر کے سامنے سرنگوں تھا۔ صرف برطانیہ تھا جو آخری ہچکیاں لے رہا تھا۔ اگر ہٹلر اورسٹالن جو تب تک اس جنگ میں حلیف تھے وسط 1941ء میں اپنے اپنے مقبوضات پر اکتفا کر لیتے تو دنیا ایک اور قسم کے ”عالم نو“ (نیوورلڈ آرڈر)کا نظارا کرتی۔ لیکن جب یہ جنگ ختم ہوئی تو دنیا نے دیکھا کہ سارا جرمنی، جنگ عظیم اول کے مقابلے میں کہیں زیادہ زخم زخم اور لہو لہو تھا اور یہ بربادی صرف جرمنی تک محدود نہ تھی۔ فرانس، روس، اٹلی، برطانیہ اور سارا یورپ فاتح ہونے کے باوجود بھی تباہی اور خانہ ویرانی کی بھیانک تصویر پیش کر رہا تھا۔ جرمنی کے دوسرے حلیف، جاپان کا حال تو بہت ہی ابتر تھا۔ ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری حملوں کی تباہ کاریوں کے علاوہ بھی سارا جاپان خاک و خون میں لتھڑا پڑا تھا۔ دنیا کے تمام بڑے بڑے ممالک اور عالمی قوتیں جن کا 1939ء سے پہلے چار دانگ عالم میں ڈنکا بجا کرتا تھا، آشفتہ حال، نڈھال اور ایک انجانے تاریک مستقبل سے دوچار تھیں …… صرف امریکہ تھا جو اس دنگل کا واحد فاتح پہلوان تھا۔
سرزمین امریکہ کا اس جنگ میں کوئی قابل ذکر نقصان نہ ہوا۔ ہاں اس کے چار لاکھ آٹھ ہزار سپاہی ضرور جنگ کا ایندھن بنے۔ لیکن یہ قتل و غارتگری سرزمین امریکہ سے دور دوسرے براعظموں اور سمندروں میں وقوع پذیر ہوئی۔اس جنگ کو سپورٹ کرنے میں امریکی قوم نے دن رات محنت کی۔ اس کی اسلحہ ساز فیکٹریوں سے روزانہ سینکڑوں ہزاروں طیارے، ٹینک، توپیں، آبدوزیں، جنگی بحری جہاز اور جنگی سازو سامان تیار ہو ہو کر ساری دنیا میں پہنچایا جاتا رہا۔ اگست 1945ء میں جب جنگ کا شور تھما اور آخری رائفل خاموش ہوئی تو دنیا کی ساری صنعتی اقوام کی بقاء کا دارومدار امریکہ پر تھا اور یہ انحصار آئندہ 25 برسوں تک قائم رہا۔ اس چوتھائی صدی میں امریکہ کا ”دینے والا ہاتھ“ دنیا کے لینے والے ہاتھوں کے مقابلے میں کہیں آگے نکل گیا۔ یہ فرق آج تک مٹایا نہیں جا سکا اور یہ خلیج ہنوز پاٹی نہیں جا سکی۔ بلکہ ہر آنے والا دن اس خلیج کی وسعت میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔
جرمنی کا حشر 1945ء میں بھی وہی ہوا جو 1918ء میں ختم ہونے والی پہلی عالمی جنگ کے بعد ہوا تھا۔
ایسٹ پرشیا(Prussia) روس کو مل گیا۔ (بعض قارئین کے ذہنوں میں شائد پرشیّا اور پرشیا کے بارے میں ابہام ہو۔پرشیا (Persia)کو آج کل ایران کہا جاتا ہے جبکہ پرشیا (Prussia) مشرقی جرمنی کا ایک صوبہ ہے) سلیشیا،پولینڈ کے حصے میں آیا اور الساس اور لورین کے علاقے فرانس نے حاصل کر لئے۔ باقی جرمنی بھی تقسیم ہو گیا۔ پولینڈ کا مشرقی علاقہ روس نے ہتھیا لیا۔ اس علاقائی ردوبدل اور بندر بانٹ کے نتیجے میں کروڑوں انسان بے گھر ہو گئے۔ یورپی ممالک کی گرفت ان کے سمندر پار مقبوضات پر ڈھیلی پڑنے لگی اور جنگ کے کچھ ہی برسوں بعد یورپ کی ایشیائی اور افریقی نو آبادیوں (Colonies)کو آزادی مل گئی۔ روس نے البتہ امریکہ سے کوئی امداد نہ مانگی، جبکہ باقی مغربی یورپ کو مارشل پلان کے ذریعے امریکہ کا ہمنوا اوردست نگر بننا پڑا۔ روس نے اپنے زیر اثر مشرقی یورپی ممالک کو بھی امریکی امداد لینے سے روک دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ممالک، مغربی یورپ کے دوسرے ممالک سے پیچھے رہ گئے اور ان کی صنعتی اور اقتصادی اساس مضبوط نہ ہو سکی۔
جاپان نے دسمبر 1941ء میں پرل ہاربر حملہ کر کے خطہء بحرالکاہل اور مشرق بعید میں جاپانی امپیریل سلطنت کے قیام کا جو خواب دیکھا تھا، وہ بھی بکھر گیا۔ جنگ کے خاتمے پر اسے اپنے تمام جنوبی اور شمالی مقبوضہ جزیروں سے ہاتھ دھونے پڑے۔ جاپان کی ایک نوآبادی کوریا جلد ہی دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ تاہم جاپان نے بھی جرمنی کی طرح مغربی (امریکی) امداد کے لئے جھولی پھیلا دی اور دیکھتے ہی دیکھتے جرمنی کی طرح دنیا کی ایک بڑی اقتصادی قوت بن کر اُبھرا۔ چین میں جنرل چیانگ کائی شیک کو ماؤزے تنگ کے کمیونسٹوں نے شکست دی اور تائیوان میں دھکیل دیا۔ امریکہ نے جرمنی اور جاپان کی طرح تائیوان کی بھی مدد کی لیکن یہاں اس کا مقابلہ ماؤزے تنگ اور اس کی انقلابی قیادت سے تھا، جس نے امریکی امداد کے باوصف چیانگ کی ایک نہ چلنے دی۔گرم جنگ کے خاتمے پر سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ دنیا دو سپر پاورز میں تقسیم ہو کے آگے بڑھنے لگی لیکن 1990ء میں آخر کار ایک سپر پاور (سوویت یونین) کا سقوط ہو گیا اور امریکہ دنیا کی واحدسپر پاور رہ گیا۔
آج بھی امریکہ کی عسکری اور اقتصادی قوت کا عالم یہ ہے کہ امریکہ کے بعد دنیا کے باقی ممالک کی اگر سلسلہ وار فہرست بنائی جائے تو اس میں روس، چین، فرانس، برطانیہ، جرمنی اور جاپان نظر آئیں گے لیکن ان چھ ممالک کی مجموعی عسکری اور اقتصادی قوت بھی امریکہ کی مجموعی عسکری اور اقتصادی قوت سے کم ہوگی۔ یہی فرق ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ تیسری عالمی جنگ کا سبب بنے گا۔ لیکن اس جنگ کی تاریخ کون قلمبند کرے گا، اس کا جواب دینا مشکل ہے۔ ہاں اقبالؒ کے الفاظ میں حیرت کا اظہار کیا جا سکتا ہے:
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اُچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا