شہدا کی تعداد میں اضافہ؟
ہزاروں سال کی تاریخ اور آسمانی کتابوں میں اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جب تک انسان کی جبلت میں شر کا عنصر موجود ہے دنیا میں فساد موجود رہے گا۔ دنیا کے نقشے میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں قومیں نیست و نابود ہوتی رہتی ہیں شر برپا کرنے میں منفی ذہن کے بادشاہوں، سرداروں، لیڈروں کا کردار بہت زیادہ ہوتا ہے شر حاوی نہ ہوتا تو کربلا کا واقعہ نہ ہوتا، ہلڑ کی وجہ سے دنیا تباہ نہ ہوتی ہندوستان کی شر انگیزیوں کی وجہ سے پاکستان بشمول بنگلہ دیش، سری لنکا، افغانستان، نیپال، چین و دیگر ممالک میں انتشار پیدا نہ ہوتا رہتا۔ پاکستان بننے کے بعد ہندوستان کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ فساد کی فضا جاری رکھی جائے اور امن تباہ کیا جائے، انہی کاوشوں کی وجہ سے مغربی پاکستان علیحدہ ہوا۔ اب موجودہ پاکستان کو بے سکون کرنے کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں جانے دیتا۔ 1947ء میں پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد قائد اعظم اور لیاقت علی خاں کے بعد سیاسی لیڈروں نے ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچایا اور 1958ء میں گیارہ سال بعد فوج نے پاکستان کی باگ ڈور سنبھالی اور مبینہ طور پر عملاً اب تک فوجی حکومت جاری ہے اور 90 فیصد ملکی فیصلے فوجی قیادت ہی کرتی ہے ناقص سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے ملک کا ایک حصہ گنوا دیا گیا، اس کے بعد بھی سیاسی استحکام نہ آ سکا جنرل ضیاء نے روس سے جنگ کر کے ملک میں کلاشنکوف کلچر کی بنیاد رکھی اور پاکستان میں طالبان وجود میں آئے جس سے ملک کا سیاسی ڈھانچہ تباہ ہو گیا جنرل مشرف نے امریکہ کا پھر ساتھ دے کر ملک کے وسائل بڑھانے کے بجائے امداد و خیرات پر ملک کو گامزن کر دیا۔ پی ٹی آئی کے لیڈر عمران خان نے فوج سے مل کر افغانستان سے طالبان کے معاملات کو سیاسی طریقہ سے حل کیا جس سے دہشت گردی میں کمی آئی لیکن قیادت کی تبدیلی سے فوج کو اپنی توانائیاں عسکری مسائل کے بجائے سیاسی مسائل میں صرف کرنا پڑیں ۔ انٹیلیجنس سیاستدانوں پر نظر رکھنے میں مصروف ہو گئے جس کی وجہ سے نتیجے میں شہادتوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو کہ قیادت کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے فوجی قیادت بیان کے ساتھ کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں عملاً ایسا کرے اور ساری توجہ عسکری معاملات پر دے اور ملک کو بھارت کی شرانگیزیوں سے بچائیں تا کہ ملک بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہو، جمہوری ملک ترقی کرتے ہیں۔