جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 24
اسلام، افواج پاکستان اور میاں محمد نواز شریف لازم و ملزوم
ہمارے خود ساختہ چیف ایگزیکٹو صاحب بڑی دھوم دھام سے جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے گئے اور جنرل اسمبلی میں ان کو جمہوری حکومتوں کی طرف سے جو پذیرائی ملی اس سے پوری قوم کا سرشرم سے جھک گیا اور وہاں سے ان کا ایک بیان جاری کیا گیا کہ کشمیر کے پہاڑوں پر آزاد ریاست نہیں بن سکتی۔ میں جنرل صاحب کو بتاتی ہوں کہ پہاڑ ہوں یا میدان، صحرا ہوں یا دریا ہمیں تو حکم اذاں، لا الہ الا اللہ ہے۔ جنرل صاحب کے اخباری بیان سے لگتا ہے کہ کشمیر پر مکمل سودے بازی ہوچکی ہے۔ آج شہدائے کارگل کا خون اس سازشی حکومت سے پوچھ رہا ہے کہ تم نے غیر مسلمانوں کے اشارے کو عملی جامہ پہنانا تھا تو پھر کارگل میں اپنے آٹھ سو سے زائد اسلام کے شیدائیوں کا خون کس لئے کروایا؟ جنرل اسمبلی میں چیف ایگزیکٹو کی تقریر اور کم فہمی کی بنا پر ملک نہ صرف اس خطے میں بلکہ پوری دنیا میں حکومت کی ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے تنہا ہورہا ہے۔
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 23 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مسلم ملک بنگلہ دیش کی وزیر اعظم نے خود ساختہ، نام نہاد چیف ایگزیکٹو کے 12 اکتوبر 1999ء کے غیر جمہوری اقدام اور ملکی آئین کو ختم کرنے کی مذمت کی ہے ۔ دوسری طرف دشمن بھارت نے نام نہاد چیف ایگزیکٹو کی عاجزانہ پیشکش کو ٹھکرا کر دنیا کے جمہوری ملکوں کو یہ باور کرایا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر عزت ان لوگوں کو دی جاتی ہے جو عوام کے حقیقی نمائندے ہوں اور وہ شبخون کے نتیجہ میں بننے والی کسی حکومت کے سربراہ نہیں ہوتے۔ تمہاری ہر التجا پر بھارت کے منفی جواب سے پوری قوم کو پشیماں ہونا پڑا۔ یہ وہی بھارتی وزیراعظم ہے جو ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان پیدل آنے پر تیار تھا۔ وہ بھی وقت تھا جب بھارتی وزیر اعظم نے لاہور میں مینار پاکستان کے سائے تلے پاکستان کے وجود کو تسلیم کیا اور مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کو تیار ہوا۔ یہ وہ تاریخی واقعہ ہے جس سے پاکستانی عوام کے سرفخر سے بلند ہوگئے اور بھارتی وزیراعظم یہ جانتا تھا کہ نواز شریف ہی وہ شخص ہے جو سقوط ڈھاکہ کی شکست کا بدلہ بزور شمشیر کشمیر میں لے کر رہے گا۔ ریٹائر ڈجنرل! عالم اسلام کی بہادر پاک فوج کے وقار سے نہ کھیلو کیونکہ اس پاک فوج کا وقار اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وقار کے ساتھ مشروط ہے، پاکستانی عوام اور پاک فوج اب آپ کے راستے میں دیوار بن چکے ہیں اور بہت جلد تمہیں اپنی من مانیوں میں رکاوٹ محسوس ہوگی۔ ہم کسی کا برا نہیں چاہتے مگر تاریخ گواہ ہے جس نے بھی پاکستان کا برا چاہا، انتقام قدرت سے نہ بچ سکا۔ میں جو کہہ رہی ہوں وہ حقیقت ہے اور حقیقت کے پس منظر میں تقدیر الہٰی اپنی حقیقت لئے ہوئے ہوتی ہے، اس حقیقت کو ہی مکافات عمل کہتے ہیں۔ برصغیر میں ایک ظلم و ستم کی طویل اور سیاہ رات ڈھل گئی اور 1947ء کو اس خطے میں اسلام کی سربلندی کے لئے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو آزادی کی نعمت حاصل ہوئی، ظلم و ستم کی اس سیاہ رات کی درد بھری کہانی آج بھی لاکھوں اپنے پہلو میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ قائداعظم کی پُر خلوص قیادت کا ثمر اور علامہ اقبال کی فکر کی بدولت یہ ملک ہنود و یہود کے چنگل سے نکل کر آزاد ہوا۔ مسلمانوں کے الگ اور آزاد ملک بننے سے اس خطے میں اسلام کی سربلندی یقینی ہوگئی تھی، انگریز برصغیر میں عارضی طور پر غداروں کے ساتھ مل کر ملک پر قابض ہوگیا تھا، مگر اس کا اصل مقصد برصغیر میں اسلام کے جذبہ ایمانی کو ختم کرنا تھا، لیکن برصغیر کے اولیاء اور صوفیا کرام کی اس پاک سرزمین پر اسلام کے لئے دن رات محنت اور تبلیغ کے سامنے انگریز اور اپنے ناپاک ارادے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ یہ اولیاء اللہ کا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سچا عشق ہی تھا کہ ہر جگہ خدا نے ان کی غیبی مدد کی۔ انگریز نے کہیں مساجد اور تبلیغی مراکز کو کمزور کیا اور کہیں علمائے کرام کی تذلیل و توہین کی اور کہیں بھائی کو بھائی سے لڑانے کی کوشش کی اور آخری حربے کے طور پر ہندوستان کے ایک گاؤں قادیان میں اس نے اپنے وظیفہ خوار ایک شخص مرزا غلام احمد سے جھوٹی نبوت کا دعویٰ بھی کروادیا۔
انگریز کا خود کاشتہ یہ پودا جو وقت کے اولیاء اور علماء کے سامنے کئی دفعہ میدان سے بھاگا، ابو الوفامولانا ثناء اللہ امرتسری نے اس جھوٹے نبی کو کئی مقامات پر جھوٹا ثابت کیا۔ حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے کئی مرتبہ مباہلہ میں شکست کے خوف سے راہ فرار اختیار کی۔ دکھ اور افسوس یہ ہے کہ آج اسی خارجی دین کی وظیفہ خور این جی او کے لوگ 12 اکتوبر 1999ء کے قادیانی انقلاب کے نتیجہ میں بننے والی حکومت کے وزیر بنے ہوئے ہیں۔ آج قادیانی ملک کے بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ آج میں سرفروشان اسلام کی دھرتی صوبہ سرحد میں کھڑی ہوکر یہ اعلان کرتی ہوں کہ اب گھر گھر غازی علم دین رحمۃ اللہ علیہ شہید پیدا کرنا ہوں گے، علماء کو اپنے فروعی اختلافات بھلا کر ناموس رسالت ﷺ کے لئے متحد ہونا ہوگا۔ آج مجھے حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری صاحب کے وہ الفاظ یاد آرہے ہیں کہ
’’روز محشر اگر خدا پوچھے گا، بتاؤ میرے محبوب کی ختم نبوت پر جب ڈاکہ پڑا تو میرا کلمہ پڑھنے والے! تم کہاں تھے؟ تو اس وقت ہمارے پاس کیا جواب ہوگا۔‘‘
میں یہاں اعلان کرتی ہوں کہ قادیانی نواز وفاقی وزیر برائے مذہبی امور نے اگر استعفیٰ نہ دیا تو میں اسی صوبے سے اس حکومت کے خلاف تحریک چلاؤں گی۔
1857ء سے چلا ہوا اسلام کی سربلندی اور آزادی کا یہ قافلہ جب 1947ء کو اپنی منزل پر پہنچا تو کہیں بچھڑے ہوؤں کی تلاش کی جارہی تھی، تو کہیں والدین اپنے بیٹوں کے غم میں نڈھال تھے، کہیں بھائی اپنی گمشدہ بہنوں کی تلاش میں نکلے ہوئے تھے اور ایک خون کا دریا تھا جس کو جوان بیٹوں کی لاشیں کندھوں پر رکھ کر عبور کیا گیا۔ یہ ایک جذبہ ایمانی تھا کہ چلو اپنے آزاد وطن چلو اور آزادی کے قافلے اس تڑپ کے ساتھ اپنی آزاد سرزمین پر پہنچے کہ یہاں اسلامی نظام اور معاشرہ قائم ہوگا، اپنی اذان ہوگی، اپنی نماز ہوگی، زندگی نظام مصطفیﷺ کے مطابق بسر ہوگی اور دنیا کی تمام اقوام کے لئے یہ اسلامی مملکت ایک مڈل کہلائے گی۔ ابھی ہم وطن کی آرائش و تزئین میں مصروف تھے، مسائل اور مصائب پر قابو پانے کا عمل جاری تھا کہ قائداعظم جلد دنیا سے رخصت ہوگئے، ان کے جانے کی وجہ سے ہمارے لئے قیادت کا مسئلہ بھی کھڑا ہوگیا، اچانک ایک منظم سازش کے تحت شبخون مار کر ملک پر جبراً آمریت مسلط کردی گئی جس قوم نے بے مثال قربانیاں دے کر بیل گاڑیوں پر دشوار گزار سفر کرکے یہ ملک حاصل کیا تھا اور یہ عہد کیا تھا کہ پاکستان کو ایک مثالی مملکت بنا کر اسلام کا قلعہ بنائیں گے اور وہ ایک جذبہ اور ایمان کے ساتھ اس سفر پر رواں دواں تھے اور دشمنوں کو یہ بات کھٹک رہی تھی کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا کہیں ماہ کامل نہ بن جائے۔ پہلے آمریت کے شکنجے میں اسے جکڑا گیا اور اس کے بعد جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اس ملک کو بچانے کے لئے میدان عمل میں آئیں تو دھونس دھاندلی اور بندوق کے زو رپر انہیں الیکشن میں شکست دی گئی اور دشمنوں نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک پر حملہ کردیا۔ جس میں ہمارے غیور فوجی جوان اور قوم دشمن کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی، لیکن اس کے بعد بقول مادر ملت میدان میں جیتی ہوئی جنگ تاشقند میں میز پر ہاردی، اس کے بعد سازشیں جنم لیتی رہیں کہ ایک آمر کے جانے کے بعد دوسرا فوجی ڈکٹیٹر برسراقتدار آیا جس نے عام انتخابات کے باوجود جمہوری روایات کا احترام نہ کیا اور بات پھر وہاں جاپہنچی کہ ایک رات اچانک یہ روح فرسا اعلان قوم پر قیامت بن کر ٹوٹا کہ اے آزادی کے پروانو! بازو جسد چمن سے جدا ہوگیا ہے، حیدر کرار اور خالد بن ولیدؓ کے وارث جنرل جن اسلامی لشکروں کے سربراہ ہوا کرتے تھے۔ اس اسلامی لشکر کے 90 ہزار سپوت سروں پر کفن باندھے اور جذ بہ شہادت لئے ہوئے دشمن کی اذیت ناک قید میں پہنچ گئے ہیں۔ جانباز اور دلیر جوانوں کے جذبہ تو وہی تھا مگر سپہ سالار بہکے اور بھٹکے ہوئے تھے اور یہ اندوہناک المیہ اور سانحہ ہماری تاریخ کا ایک نہ بھولنے والا دردناک باب بن گیا کہ آج بھی اس زخم سے خون رس رہا ہے اور ہمیں اتحاد و اتفاق کی دعوت دے رہا ہے۔
ریٹائرڈ جنرل! تاریخ بھلائی نہیں جاتی بلکہ اس کو یاد کرکے سابق حاصل کیا جاتا ہے تاکہ اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا اعتراف کرکے مستقبل کو سنوارا جائے اور ان غلطیوں اور کوتاہیوں سے گریز کیا جائے جن کی وجہ سے ہم اپنے ملک کے ایک حصہ سے محروم ہوئے تھے۔ پرویز مشرف! یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ تم نے امریکہ کی سرزمین پر بیٹھ کر نہ جانے کس کو خوش کرنے کے لئے اس سانحہ کی رپورٹ کو مردہ گھوڑا قرار دیا۔ تمہارا یہ کہنا کہ سقوط ڈھاکہ کو 30 سال گزرچکے ہیں، ہمیں تاریخ میں سانس لینے اور ماضی میں گم رہنے کی ضرورت نہیں، ہماری نظریں مستقبل پر ہونی چاہئیں، گویا یہ تم نے اسے بھول جانے کا مشورہ دیا ہے۔ ایسا مشورہ کو ئی ان پڑھ اور تاریخ سے ناواقف شخص ہی دے سکتا ہے۔ اگر ہم بھولنے پر آئے تو سب کچھ بھول جائیں گے، اپنی تاریخ بھی اور جغرافیہ بھی۔ سانحہ مشرقی پاکستان میں 90 ہزار جوان قید ہوئے ان گنت لوگوں کی زندگیوں کے چراغ گل کردئیے گئے۔ اگر اتنی بڑی غداری کو فراموش کردیا جائے تو کیا وہ قوم زندہ کہلانے کا حق رکھتی ہے ۔
ریٹائرڈ جنرل! آنکھیں کھول کر دیکھو اور کان کھول کر سنو کہ قوم نے تمہاری یہ بات مسترد کردی ہے اور اس کو بھولنے کے لئے تیار نہیں اور کیسے بھول سکتی ہے کہ 30سال گزرنے کے باوجود اس کے زخم ابھی تک تازہ ہیں۔ تم کیسے جنرل ہو کہ تمہارے جسم سے یہ زخم مٹ گیا ہے، تم کہتے ہو کہ یہ رپورٹ یکطرفہ ہے کمیشن بنانے والا شخص بھی اس میں ملوث تھا۔ اگر یہ درست ہے تو اس میں جو بھی سیاستدان یا فوجی ملوث ہے، اسے سزا دو۔ غدار کوئی بھی ہو اسے معاف نہیں کیا جاسکتا۔ ذاتی جرم معاف ہوسکتاہے مگر قومی جرم اور خیانت ہرگز معاف نہیں ہوسکتی۔ ایسا لگتا ہے کہ فوجی حکمران ایک کمیشن کو بھولنے کی بات کرکے دوسرے کمیشن سے بچنا چاہتے ہیں، لیکن نہ حمود الرحمن کمیشن سے بچا جاسکتا ہے اور نہ سانحہ کارگل کے ذمہ دار اپنی جان بچاسکتے ہیں۔ جس طرح یحییٰ خان سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار تھا اسی طرح سانحہ کارگل کی جواب طلبی صرف اور صرف تم سے کی جائے گی۔ وقت کا کوئی بھی میر جعفر اور صادق مکافات عمل سے نہیں بچ سکتا۔
شاعر مشرق علامہ اقبال نے جاوید نامہ میں ایسے غداروں کا ذکر کیا ہے جو غداری کی سزا بھگت رہے ہیں جو کسی کمیشن نے انہیں نہیں دی قدرت نے دی۔ یہ قدرت کا فیصلہ ہے کہ وہ غداروں کو معاف نہیں کرتی۔‘‘ (بیگم کلثوم نواز شریف کا خطاب: 25 ستمبر2000ء)
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )