جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 23
گلشن قائد کے تحفظ کا عہد
’’ستمبر 65ء کی جنگ میں اس پاک دھرتی پر جانیں نثار کرنے والوں کے مزارات اور یادگاروں پر جانے اور ان کی روحوں کے ایصال ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کا موقع ملا۔ وہاں پہنچ کر دلی سکون اور راحت نصیب ہوئی۔ جس ملک کو ’’لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہﷺ‘‘ کے نام پر حاصل کیا تھا اس پر اپنی جانیں نچھاو رکرنے والوں کا جذبہ آج بھی اسی طرح زندہ و تابندہ ہے۔ شہداء کو سلام پیش کرتے ہوئے یہ محسوس ہورہا تھا کہ وہ ہماری آمد سے باخبر ہیں اور ہمارے تحفظ پاکستان کے عہد کو داد دے اور تائید کررہے ہیں۔ ہم ان کی عظمت کو کیوں نہ سلام کریں، کیوں نہ ان کے مشن کو آگے لے کر چلیں، وہ خود تو ہمارے شعور سے دو رہیں مگر ان کی قربانیاں تو آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ اور مشعل راہ ہیں۔ وہ شہید ہوگئے او ررہتی دنیا تک اس خطے کے مسلمانوں کو تحفظ، آزادی اور جذبہ جہاد کا سبق سکھاگئے۔ جو اللہ کی راہ میں لڑے اور شہید ہوئے وہ مرے نہیں زندہ ہیں۔
ملک پاکستان جس کی بنیاد ہی دو قومی نظریہ یعنی دین اسلام ہے، شہداء کے خون کا ثمر ہے اور اس ملک کے سپوت ہونے کے ناطے ہمارے اوپر یہ لازم ہے کہ اس کی سلامتی، استحکام اور اسلام کی سربلندی کے لئے تحریک پاکستان والے جذبہ کے ساتھ دن رات ایک کرکے وطن کی سربلندی اور نفاذ شریعت کے لئے جدوجہد کریں۔ چھ ستمبر کا دن میں نے اپنے کارکنوں کے ساتھ پرعزم اور تجدید عہد کے ساتھ گزارا، شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر سرمحمد اقبال کے مزار پر حاضری دی، میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر کے مزار پر کاروان تحفظ پاکستان نے اختتامی دعا کی اور وطن کے اس عظیم سپوت کی عظمت کو سلام پیش کیا۔ مگر 7 ستمبر کو جب صبح کے اخبارات پر نظر پڑی تو دل خون کے آنسو رونے لگا کہ جن شہداء کو ہم نے خراج تحسین پیش کیا، جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر، اپنے سے کئی گنا بھاری دشمن کے مقابلہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اپنی عسکری طاقت کا لوہا منوایا، جن کی قربانیوں سے افواج پاکستان کا وقار بلند ہوا، یقیناًوہ ہستیاں بھی ضرور رنجیدہ ہوئی ہوں گی کہ جو کچھ ہم نے اسلام کی سربلندی اور سالمیت پاکستان کے لئے کیا تھا، 12 اکتوبر 1999ء سے ایک ریٹائرڈ جنرل ہماری ان قربانیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر مسلموں کے اشارے پر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچارہا ہے بلکہ اب وہ اس خطے میں اسلام اور جہاد کے لئے خطرہ بن گیا ہے۔
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 22پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جن سپوتوں نے بھارت سے جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا ان کی روحیں آج اس حکومت سے کیونکر خوش ہوں کیونکہ یہ حکومت تو ہمارے ازلی دشمن بھارت کو کبھی پسندیدہ ترین قوم قرار دے رہی ہے اور کبھی اشارۃً اس کے سامنے گھٹنے ٹیک رہی ہے۔ تاریخ کا عجیب تماشہ ہے، کہیں دو قومی نظریہ کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور کہیں سیکولر سٹیٹ بنانے کے ناپاک خواب دیکھے جارہے ہیں، کہیں جہاد کشمیر پر اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے سودابازی ہورہی ہے اور کہیں اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت پاکستان کو سی ٹی بی ٹی پر دستخط کرنے کے اشارے دئیے جارہے ہیں اور کہیں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنے کے لئے اپنے ملکی وقار اور اس کی سالمیت کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔
میں 7ستمبر کے اخبارات کے حوالے سے بات کررہی تھی کہ اس صدی کا سقوط ڈھاکہ سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ جس ملک کی بنیاد حب رسول اللہ ﷺ اور جذبہ جہاد پر ہے، اس کے وفاقی وزیر برائے مذہبی امور ’’ڈاکٹر محمود احمد غازی‘‘ کا 7 ستمبر کو شرمناک بیان پڑھ کر سرشرم سے جھک گیا، جسم کانپنے لگا کہ خود ساختہ حکومت کا ایک اسلام دشمن وزیر قومی اسمبلی سے متفقہ طور پر پاس شدہ قانون تحفظ ناموس رسالت ﷺ پر کھلے عام حملہ آور ہے اور یہ کہہ رہا ہے کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا ایک جذباتی فیصلہ تھا۔ کیا یہ توہین رسالت ﷺ نہیں ہے؟ میں پوچھتی ہوں کہ مسیلمہ کذاب کے خلاف خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے اعلان جہاد کے بارے میں اس حکومت کا عقیدہ کیا ہے؟ مرتد کو مرتد کہنا اور اس کے خلاف جہا دکرنے کا حکم آج سے 1400 سال پہلے مسلمانوں پر فرض ہے، میں مجلس تحفظ پاکستان کے فورم سے 14کروڑ عوام سے سوال کرتی ہوں کہ ایسا بیان دینے کے پیچھے موجودہ حکومت کے کون سے ناپاک عزائم مضمر ہیں۔ آئے دن یہ حکومت ناموس رسالت ﷺ پر حملہ آور ہوکر عوام کے جذبات کا امتحان لیتی ہے۔ مگر اللہ کے فضل و کرم سے انہیں کوئی موقع نہیں ملے گا کہ جس ناپاک ارادے کو بزعم خویش یہ لے کر آئے ہیں اس کو پایہ تکمیل تک پہنچاسکیں۔ 14 کروڑ عوام اب اپنے علماء سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ایسے خیالات رکھنے والے شخص کے بارے میں اپنی رائے دیں۔
منسٹر صاحب! اخباری تردید سے کام نہیں چلے گا۔ کیا 12اکتوبر کو شبخون اس لئے مارا گیا تھا کہ اسلام کے نفاذ کو روک کر غیر مسلموں کو ناموس رسالت ﷺ پر رکیک حملے کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جائے؟ این جی اوز کی بنائی ہوئی حکومت ناحق، ناروا بلکہ سراسر بلا جواز و ضرورت اشتعال دلا کر ہمیں مجبور کررہی ہے کہ 1953ء والی قومی تحریک کو دہرایا جائے۔ اب حضرت مولانا ابو الحسنات قادری، مولانا عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لاکھوں عقیدت مند اور شاگرد آج بھی تحفظ ناموس رسالت ﷺ کی خاطر اس غیر اسلامی ذہن رکھنے والی حکومت کے ہاتھوں ایک بار نہیں ہزار بار پھانسی کی سزا پانے کو تیار ہیں۔
مذہبی امور کے وزیر نے دین اسلام اور مقام مصطفی ﷺ کے بارے میں اپنی کم علمی کا ثبوت دے ہی دیا ہے تو اب ہمیں بھی اس این جی او کی تلاشکرنا ہوگی جس کی سفارش پر وہ وزارت مذہبی امور کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں۔ وزیر صاحب کا ناموس رسالت ﷺ پر اخباری بیان ان کے عقیدہ تحفظ ختم نبوت کو واضح کرگیا ہے۔ غازی صاحب! اب تمہاری غذا مشکوک ہوگئی ہے۔ ذہن میں ہزاروں سوال اٹھتے ہیں، اب تمہیں پی سی او میں شامل اسلامی دفعات کے تحت دوبارہ حلف اٹھانا پڑے گا، مرتد کو مرتد کہنا پڑے گا، میں تمہارے عقیدے کو درست کرنے کے لئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی کتاب موسومہ (قادیانی مسئلہ) بھیج رہی ہوں اور اس کتاب میں موجود مولانا مودودی صاحب کا عدالت کے اندر ایمان افروز بیان شاید تمہیں راہ راست پر لے آئے کیونکہ اب عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے تمہاری شخصیت متنازعہ بن گئی ہے۔ تمہارے عقیدہ ختم نبوت پر حملہ سے 12 اکتوبر کے فوجی نہیں بلکہ قادیانی انقلاب کی تائید ہوتی ہے اور تم نے یہ ثابت کردیا ہے کہ 12 اکتوبر کی سازش کے پیچھے کیا عزائم کارفرماتھے۔ آج پیر مہر علی شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی روح کس قدر کرب میں مبتلا ہوگی کہ تحفظ ختم نبوت کا جو مشن انہیں گنبد خضریٰ سے (بذریعہ حاجی امداد حسین مہاجر مکی) سونپا گیا تھا اور جس کو انہوں نے اپنی زندگی کا نصب العین بنایا تھا آج اس تحفظ ختم نبوت پر حکومت پہلے 12 اکتوبر کو پاکستان کے آئین کو ختم کرکے اور اب اپنی کابینہ کے مذہبی امور کے وزیر سے بیان دلوا کر براہ راست حملہ آور ہے۔
خود ساختہ چیف ایگزیکٹو کے مغربی ممالک کے دورے کے دوران یہ بیان اس لئے دلوایا گیا تھا کہ یہ تاثر دیا جائے کہ یہ حکومت اسلامی نظریاتی حکومت نہیں اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ میں مولانا عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ کے لئے درازی عمر کی دعا کرتی ہوں۔ا گر یہ ہستیاں تحفظ ختم نبوت پر مرمٹنے کا عزم لئے ہوئے ہم میں موجود رہیں تو انشاء اللہ ہم کبھی غیر مسلموں کے ارادوں کو اس پاک سرزمین میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
ریٹائرڈ اور متنازعہ جنرل اپنی سکیورٹی کے پیش نظر عام پرواز پر امریکہ جاکر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ جنرل صاحب! آج کی پانچ منٹ کی بے معنی اور بے سود تقریر اس ملک کے خزانے پر کتنے کروڑ کا بوجھ بنی ہے اور جسے نفرت کی بنا پر پاکستان کی اکثریت نے دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہ کی اور جس جنرل اسمبلی کے ہال میں آپ خطاب فرمارہے تھے، آپ کی محبت کے اظہار میں خالی کرسیوں اور جنرل اسمبلی کے سٹاف کے علاوہ کسی بھی جمہوری ملک کے سربراہ نے اس کو سننے کے لئے اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کیا۔ جنرل اسمبلی کے باہر محبان جمہوریت کا نفرت بھرا جذبہ آپ نے دیکھ ہی لیا ہوگا اور جنرل اسمبلی میں بھارت کے رویہ کو جاننے کے باوجود کہ وہ کسی بھی مرحلے پر آپ کی خود ساختہ حکومت سے مذاکرات کرنے کو تیار نہیں تھا اور اپنے اٹوٹ انگ کو دہرارہا تھا، آپ نے بھارت کو جنگ نہ کرنے اور اپنی فوجیں کم کرنے کی پیشکش کردی اور ساتھ ہی مذاکرات کی دعوت بھی دے دی۔ مگر بھارتی وزیراعظم نے آپ کی درخواست کے باوجود بغیر فائل دیکھے آپ کے ہاتھ میں پکڑادی۔ اس موقع پر پوری قوم کا سرشرم سے جھک گیا، چاہیے تو یہ تھا کہ آپ کشمیری مجاہدین کی تحریک آزادی کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے اور بھارت کو یہ باور کراتے کہ پاکستان اپنے مسلمان بھائیوں کی آکلاقی، سیاسی امداد کرتا رہے گا۔
مجھے یاد ہے کہ 1998ء میں پاکستان کے منتخب وزیراعظم محمد نواز شریف نے اسی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بھارت کو للکارا اور یہ اعلان کیا کہ کشمیر کی آزادی تک جنگ جاری رہے گی۔ یہ اسی کا نتیجہ تھا کہ بھارتی وزیراعظم نے ملاقات کے دوران پہلی بار مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کے لئے ورکنگ گروپ بنانے کا اعلان کیا اور آج وہی واجپائی کشمیری مجاہدین کی تحریک کو مذہبی دہشتگردی کا نام دے کر اس کی مخالفت کرنے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ ہمارے ریٹائرڈ جنرل استقبالیہ لابی میں سرراہ دو دو منٹ کی ملاقاتوں کو اپنی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے سی ٹی بی ٹی اور کشمیر کے بارے میں جو خفیہ معاہدوں کے اشارے ملے ہیں، میں اس پر سے جلد پردہ اٹھاؤں گی۔ میں اپنی پاک فوج کو یہ بتارہی ہوں کہ وہ امریکہ نژاد قادیانی منصور اعجاز کی سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لیں اور مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے وہ جو خفیہ معاہدہ کروانے کی کوشش کررہا ہے اسے قوم اور فوج کسی صورت منظور نہیں کریں گے کیونکہ اس ملک کے اندرونی اور بیرونی سالمیت اور استحکام کا فریضہ عوام اور فوج نے ادا کرنا ہے۔
ریٹائرڈ جنرل کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ بھارتی وزیراعظم کے غیر مناسب رویے کا موثر طور پر جواب دیتے، لیکن ان کی ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے بھارت سے مذاکرات کی بھیک کے عوض پاکستان کی ایٹمی اور میزائل ٹٰکنالوجی ختم کرنے کی پیشکش کردی ہے۔ میں پرویز حکومت سے سوال کرتی ہوں کہ انہیں یہ پیشکش کرنے کا اختیار اور حق کس نے دیا ہے؟ پاکستان نہ صرف ایک ملک بلکہ سارے عالم اسلام کے لئے باعث فخر ایٹمی قوت ہے۔ اب یہ فردواحد اس ایٹمی طاقت کو جسے لاکھوں جتن کرکے ہم نے حاصل کیا اسے صرف بھارت سے بے سود مذاکرات کے عوض ختم کرنے پر آمدہ ہیے۔ خود ساختہ ریٹائرڈ جنرل کان کھول کر سن لو! کہ اس ملک کے عوام اور فوج تمہاری من مانیوں کو قبول نہیں کریں گے اور نہ ہی تمہیں ایسا کرنے دیں گے۔ اب فردواحد کے فیصلے قوم او رفوج ماننے کو تیار نہیں۔
مجلس تحفظ پاکستان نے نچلی سطح سے اوپر کی سطح تک موجودہ حکومت کی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھنے کے لئے محبت وطن، باصلاحیت، مخلص اور دیانتدار افراد پر مشتمل ضلع سے مرکز کی سطح تک تحریک تحفظ پاکستان مانیٹرنگ سیل قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو اس حکومت کی بدعنوانیوں، بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کو مانیٹر کرکے ہمیں باضابطہ رپورٹ دے گا اور ان افراد کی خصوصاً نشاندہی کی جائے گی جن کی سفارش پر قادیانیوں کو اہم عہدوں پر تعینات کیا جارہاہے۔ ہم انہیں مجلس کے فورم سے بے نقاب کریں گے اور جو شخص بھی حکومتی کرپشن کے بارے میں اس سیل کو مطلع کرے گا اس کے نام کو نہ صرف صیغہ راز میں رکھا جائے گا بلکہ مجلس اس کے مکمل تحفظ کی ضمانت بھی دے گی۔
حکومت کی پالیسیوں کا یہ حال ہے کہ عوام پر بجلی، آسمانی بجلی بن کر ٹوٹی ہے اور یہ خبر بھی آئی ہے کہ پٹرول کی قیمتوں میں بھی اجافہ کیا جارہا ہے جس سے ہر چیز مہنگی ہوجائے گی اور ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکمرنو ا ’’غربت مکاؤ کی بجائے غریب مکاؤ‘‘ پروگرام پر عمل کررہے ہیں۔ خدا کے لئے اس قوم پر رحم کریں اور جتنا جلدی ہوواپس چلے جائیں۔‘‘
(کلثوم نواز شریف کاخطاب: 10 ستمبر 2000ء)(جاری ہے)