جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 22

جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی ...
جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 22

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان توڑنے والوں کا احتساب
1947ء کے بعد ریڈیو اور بعد میں ٹیلی ویژن پر 14 اگست کے حوالے سے یہ خبر سناکرتے تھے کہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں نے پاکستان کا یوم آزادی، چار دیواری کے اندر اور بندوق کی نوک پر دبے اور سہمے ہوئے حالات میں منایا۔ مگر اپنی 53 سالہ تاریخ میں پہلی دفعہ اپنے آزاد ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس طرح کے حالات کا بنفس نفیس مشاہدہ کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس عظیم ملک کے یوم آزادی پر 14 اگست کے دن حکومت کا کراچی میں بانی پاکستان حضرت قائداعظم کے مزار پر یوم آزادی منانے والے محب وطن بھائیوں کے ساتھ ناروا سلوک دیکھ کر فرنگی کے ظالمانہ دور کی یاد تازہ ہورہی تھی۔ ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ جیسے تحریک پاکستان کے وقت فرنگی حکومت میں مسلمان اپنی آزادی کی تحریک چلارہے ہوں۔ پاکستان زندہ باد کے نعروں کو بند کرنے کے لئے حکومت نے عوام پر لاٹھی چارج کروایا۔ لگتاہے پرویز حکومت لوگوں کا جذبہ حب الوطنی دیکھ کر بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی اور اپنے خلاف اٹھنے والی آواز کو دبانے کے لئے انتقاماً ایسا کیا۔
محب وطن پاکستانیوں نے یہ دن ہر صورت منانا ہی تھا اور ان شاء اللہ تا قیامت مناتے رہیں گے کیونکہ یہ ملک قائداعظم کی دلولہ انگیز قیادت میں عوام کی بے مثال قربانیوں سے بنا تھا اور اس ملک کو عوام اور قائداعظم کی حقیقی سیاسی وارث پروان چڑھائیں گے۔ یہ ملک کسی ڈکٹیٹر یا آمر نے نہیں بنایا بلکہ آمریت نے تو اس ملک کے نازک وجود کو ہمیشہ ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ اس پاک سرزمین کو اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کے لئے چور چور کردیا۔ آمروں نے اس ملک کو اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کیا اور آج بھی اسی نقش قدم پر چل کر ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کررہے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ آج ایک شخص تنہا کھڑا اپنی خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ملک اور قوم سے کھیل رہا ہے۔

جبر اور جمہوریت۔۔۔کلثوم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کی چشم کشا کہانی ،خود انکی زبانی... قسط نمبر 21پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
شاید ایک آمر کو 14 اگست پر لاٹھی چارج کرنے کا خیال اس لئے آیا کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ نے ایک سابق آمر کے چہرے پر اوڑھا ہوا حب الوطنی اور شرافت کا نقاب اٹھا کر اس کو ظاہر کردیا اور 28 سال بعد قوم کو ان آمروں کا اصلی چہرہ دکھایا ہے۔ میں دعویٰ سے کہتی ہوں کہ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت 28 سال تک ان آمروں نے عوام کی نظروں سے پس پشت رکھا۔ اگر یہ رپورٹ وقت پر شائع ہوجاتی تو 1971ء کے بعد اس ملک کو کبھی بھی آمریت کے سیاہ دور سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔ آمریت نے ہمیشہ ملک کی ترقی کو روکا، عدالتی نظام کو مفلوج کیا اور اسلامی قانون کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ ڈالی اور پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کیا۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بدکردار لوگوں کے ہاتھوں میں جب بھی پاکستان کی باگ ڈور آئی سب سے پہلے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کو نقصان پہنچا۔ پھر آمریت میں شامل ہنود و یہو دکی فکر کا حامل گروہ ملک کو نظام مصطفی ﷺ سے ایک طے شدہ ایجنڈا کے تحت بہت دور لے گیا۔
اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جب 313 صحابہ نبی پاک ﷺ کی کمانڈ میں بدر کے مقام پر کفار کے مقابلہ میں اترے تو حضور اقدس ﷺ کے ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں فتح ونصرت کے لئے اٹھ گئے۔ اس جنگ میں نہ صرف 313 کو فتح ہوئی بلکہ کفار کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جن مسلمان لشکروں کے کمانڈر اللہ کے ہاں عاجری و انکساری سے رجوع کرتے ہیں، خدا رہتی دنیا تک ان کی غیبی مدد کرتا ہے۔ مگر جس گروہ کے کمانڈر رات کی تاریکی میں میدان جنگ میں بنائے ہوئے بنکرز میں بیٹھ کر اللہ کی یاد سے غافل ہوکر تمام رات عیش و عشرت کی محفلیں سجائیں تو ایسے کمانڈروں کے لئے اللہ کے ہاں ذلت آمیز شکست کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ آج 28 سال بعد قوم مطالبہ کرتی ہے کہ ان غداران اسلام کی بوسیدہ ہڈیوں کو ان کی قبروں سے نکال کر باہر پھینک دو کیونکہ ان کی مدہوشی اور غفلت کے نتیجہ مییں ہمارے ماتھے پر ذلت آمیز شکست کا دھبہ لگا ہوا ہے۔ تاریخ کا سب سے بڑا مذاق یہ ہے کہ جس شخص نے میدان جنگ میں پیٹھ پھیر کر سلطنت خدا داد پاکستان کو دولخت کروایا اسے اپنے ملک کے عظیم پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا گیا۔ یہ اپنی اسلامی روایات کی خلاف ورزی نہیں تو اور کیا ہے۔ سقوط ڈھاکہ کے ذمہ دار لوگوں کا وجود یا ان کا تابوت اس پاک دھرتی پر ناقابل برداشت بوجھ ہے۔
حمود الرحمن کمیشن نے سقوط ڈھاکہ کا لہو ان عاقبت نااندیش لوگوں کے ہاتھوں پر تلاش کرلیا تھا۔ مگر قوم کو دھوکہ دے کر اس رپورٹ کو منظر عام پر نہ آنے دیا گیا۔ ایسے بدکار اور میدان جنگ میں مدہوش لوگوں پر سوچی سمجھی سازش کے تحت پردہ ڈالا گیا۔ مطبوعہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے کردار کا اصل چہرہ بے نقاب کرنے کی کسی نے کوشش ہی نہیں کی تھی۔ یہ لوگ اسلام کی تعلیمات سے کتنے دور تھے۔ بزدل دشمن کے آگے ہتھیار ڈال کر وطن عزیز کا ایک بازو تن سے جدا کردیا گیا اور اب کشمیر کو بغیر ہتھیار اٹھائے دشمن کی جھولی میں ڈالنے کی ناپاک ساز ش کی جارہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا کرنے والے اس سازش میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ (ان شاء اللہ) میں خود ساختہ چیف ایگزیکٹو کو خبردار کررہی ہوں کہ پاکستان کے عوام کسی بھی ایسی کوشش کو قبول نہیں کریں گے جو قومی مفاد کے خلاف ہو اور اصولوں پر سودے بازی کہلائے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ دورہ امریکہ کے موقع پر وقت کے آمر سی ٹی بی ٹی کے حوالے سے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے کوئی خفیہ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس پر ایک نہیں سوبار غو رکرلیں، ملک کے عوام ہی نہیں دلیر پاک فوج بھی ان کا ساتھ نہیں دے گی اور اگر ایسا کوئی خفیہ معاہدہ کیا گیا تو پاکستانی قوم اسے قبول کرے گی اور نہ ہی اس کی پاسداری اس پر لازم ہوگی۔
سقوط ڈھاکہ سے تو پردہ اٹھ ہی گیا، وقت قریب آگیا ہے کہ کارگل سازش اور جہاد کشمیر سے غداری کرنے والوں کے چہروں سے بھی بہت جلد پردہ اٹھ جائے گا۔ اب قوم کسی کمیشن کی رپورٹ کا انتظار کے بغیر ہی اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہے کہ یہ سازشیں پاکستان کے خلاف کس ملک میں تیار ہوتی ہیں اور کن کے ذریعہ پایہ تکمیل تک پہنچتی ہیں۔
میں شہدائے اسلام، شہدائے پاکستان کی روحوں کو سلام پیش کرتی ہوں اور آج اس فورم سے اعلان کرتی ہوں کہ میں 1971ء کی جنگ کے ہیر ومیجر محمد اکرم شہید نشان حیدر کا جسد خاکی بنگلہ دیش سے لاکر 14 کروڑ عوام کی سلامی کے ساتھ پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر ان کے آبائی گاؤں میں سپردخاک کروں گی اور اس سپوت کو خراج عقیدت پیش کروں گی جس نے ہلی محاذ پر دشمن کے دانت کھٹے کئے اور اپنی جرأت و بہادری کا لوہا منوایا۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ میں بھی اس سپوت کی قربانی کے صلہ میں ملنے والی فتح کو سنہری الفاظ میں لکھا گیا ہے۔ ایسے محب وطن جانثاروں پر قوم ناز کرتی ہے، ان کے مزارات پر آج بھی اللہ کی رحت کا نزول ہورہا ہے۔
میں 6ستمبر کو پاک دھرتی پر جان دینے والے اپنے فوجی بھائیوں کے مزارات پر حاضری دوں گی اور اسیر وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جانب سے پھولوں کی چادریں چڑھاؤں گی اور ساری قوم کے ساتھ اس عزم کا ارادہ کروں گی کہ جس وطن کی سالمیت اور استحکام کے لئے میرے ان عظیم بزرگوں اور سپوتوں نے جام شہادت نوش کیا تھا اس وطن کی حفاظت کے لئے کسی بھی بڑی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ظلم اور جبر سے مسلم لیگ کے لیڈروں اور کارکنوں پر رات کے اندھیروں میں تشدد کرکے انہیں اپنی منزل سے روکا جاسکتا ہے تو یہ ان کی بھول ہے۔ ہم ہر بڑی قربانی دے کر پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کا تحفظ کریں گے۔
یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ ایک شکست خوردہ جنرل کو بغیر کسی سزا کے ملک کے مختلف ریسٹ ہاؤسوں میں پناہ دئیے رکھی اور جب مرا تو قومی اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ ڈھاکہ میوزیم میں جنرل نیازی کے پسٹل کے نیچے جو جنرل اروڑہ کو پیش کرکے ہتھیار پھینکنے کی علامت بنایا گیا تھا، لکھی ہوئی عبارت پڑھ کر دل میں ٹیس اٹھتی ہے کہ یہ وہ میدان ہے جس میں ہماری سب سے بڑی ذلت آمیز شکست کا جنازہ اٹھا تھا۔ کاش اس میوزیم میں یہ لکھا ہوتا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں جنرل نیازی آخری گولی تک لڑتا ہوا ملک پر قربان ہوگیا۔ تاریخ کی سب سے بڑی اس شکست کے بدنما دھبے کو مٹانے کے لئے جب نواز شریف نے جہاد کشمیر کے اندر قدم بڑھایا اور ایٹمی دھماکے کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تو وہ مجاہد اسلام پہلے تو کارگل سازش کا شکار ہوا اور پھر 12 اکتوبر کی ’’پاکستان کمزور کرو‘‘ سازش سے دوچار ہوکر آج پاکستان کو حقیقی اسلامی ملک بنانے کے عزم کے ’’جرم‘‘ میں پابند سلاسل ہے۔
ملک پر ہمیشہ وہ نثار ہوتے ہیں جن کا شہادت کے بعد کی ابدی اور پرلطف زندگی پر ایمان ہوتا ہے۔ کیا یہ ملک آمروں کی عیاشی اور من مانی کے لئے معرض وجود میں آیا تھا؟ اس طرح کے شکست خوردہ ذہن آج تک اس ملک میں نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ شہداء کے بچے تو فوجی فاؤنڈیشن کے وظائف پر زندگی گزاریں مگر 20ہزار تنخواہ لینے والے ریٹائرڈ جنرل کا بیٹا یورپ میں زندگی گزارے۔ واہ احتساب کرنے والو! گتا ہے انصاف صرف محشر پر موقوف ہے۔ جو سیاستدان سز ایافتہ ہو وہ تو کسی عہدے کے حق سے محروم ہوجائے مگر ملک سے غداری کا مجرم ٹھہرایا جانے والا اور پاک فوج سے سزا یافتہ فاروق آدم آج حکومت میں چیف پراسیکیوٹر بنا بیٹھا ہے۔ جس نے محب وطن لوگوں کو سزائیں دلوانے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ قوم یہ سوال حکومت کے ترجمان خاص سے پوچھ رہی ہے۔ آج کل حکومت اور حکومت کے ترجمان کی حمود الرحمان کمیشن پر معنی خیز خاموشی 14 کروڑ عوام کو ورطہ حیرت میں مبتلا کئے ہوئے ہے۔ اگر یہ رپورٹ صحیح نہیں تو حکومت کو اس کی تردید کرنی چاہیے تھی اور اصل رپورٹ شائع کرنی چاہیے۔
بے روزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں عوام کے لئے جینا مشکل ہوگیا ہے۔ پاکستانی روپے کی قیمت روز بروز گررہی ہے۔ آٹے، چینی اور دال کی قیمتوں میں اضافے اور یوٹیلٹی بلوں کی بھاری رقوم کی وجہ سے آئے دن خود سوزیوں میں اضافہ ہورہا ہے، فاقہ کشی گھر کی دہلیز پر آپہنچی ہے۔ مگر چیف ایگزیکٹو صاحب آمریت کے عطا کئے ہوئے اور عوام کے مسترد کئے ہوئے بوسیدہ نظام کو ری کنڈیشن کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔
جنرل نقوی صاحب! ملک پرانی فائلوں پر چھاپے لگا کر نہیں چلائے جاسکتے۔ قوموں کی تقدیر بدلنے کے لئے جامع اور ٹھوس پروگرام بنائے جاتے ہیں۔ 14کروڑ عوام اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اور 12اکتوبر سے اب تک مایوسی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ وہ وقت قریب ہے جب عوام سڑکوں پر آکر حکومت وقت سے اپنا حق مانگیں گے جس کا سامنا کرنا حکومت کے لئے پھر مشکل ہوگا۔
میں تمام اسیران جمہوریت کو سلام پیش کرتی ہوں کہ وہ کوٹ لکھپت کی جیل اور حکومت کے ٹارچرسیلوں میں حق کی آواز بلند کرنے کے جرم میں اپنے ہی ملک میں ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنے ہیں۔ میری بہن تہمینہ کو کوٹ لکھپت جیل میں آمریت کے چہرے پر لگایا گیا طمانچہ اس کی حب الوطنی اور فروغ جمہوریت پر مکمل اعتمادی کی دلیل ہے۔ کیا یہ ہتھکڑیاں اور بیٹریاں ان کو ان کی حب الوطنی کے ’’جرم‘‘ میں لگائی جارہی ہیں؟ ہتھکڑیاں اور بیٹریاں تو سقوط ڈھاکہ کے مجرموں کا حق ہے۔ کیا 12اکتوبر کا شب خون کسی کمیشن کی رپورٹ سے بچنے کے لئے مارا گیا تھا؟ ایک دن تو حقائق سامنے آئیں گے۔ تاریخ اور مورخ کسی کو معاف نہیں کیا کرتے اور جنہیں تاریخ معاف نہ کرے انہیں آئندہ آنے والی نسلیں بھی معاف نہیں کرتیں بلکہ وہ انتقام قدرت سے بھی بچ نہیں پاتے۔
حال ہی میں ماڈل ٹاؤن تھانہ کے اندر محبان وطن، اسیران جمہوریت مخدوم جاوید ہاشمی، تہمینہ دولتانہ، خواجہ سعد رفیق، خواجہ احمد حسان اور ڈپٹی میئر آفتاب اصغر ڈار جو اپنی خاندانی تاریخ کے حوالے سے دو قومی نظریہ، پاکستان کے اندر اسلامی نظام اور اس ملک میں حقیقی اور سچی جمہوریت کے فروغ کی کوششوں میں کسی سے کم نہیں ہیں، رات کے وقت ان پر بے انتہا ظلم و تشد دکیا گیا جس سے پورے تھانہ میں سوئے ہوئے پولیس والے بھی لرزہ اٹھے۔ یہ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں انوکھا واقعہ ہے کہ دفعہ 188 کے تحت پانچ روزہ جسمانی ریمانڈ کو ہتھیار بنا کر انصاف اور اعلیٰ عدالتوں کا مذاق اڑایا گیا۔ جن لوگوں نے رات کے اندھیرے میں ان محبان وطن کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر ظلم و تشدد کیا، لگتا ہے کہ یہ ٹریننگ انہوں نے شاید 1971ء کے بعد دشمن ملک بھارت کے ٹارچر سیلوں سے حاصل کی تھی جو اپنے بھائیوں پر آزمائی جارہی تھی۔
خدا کے لئے ریٹائرڈ جنرل صاحب! اپنے رفقائے خاص کے ذریعہ نفرت کا وہ بیج نہ بوئیں جو پہلے مشرقی پاکستان میں ایک تنا آور درخت بنا جس کی وجہ سے ذلت کا داغ آج بھی ہمارے ماتھے پر ہے۔
میں حکومت وقت سے پوچھ رہی ہوں، کیا یہ نفرتوں کو پروان چڑھانے کا وہ پرانا ایجنڈا نہیں جس پر 71ء میں یحییٰ خان کے ذریعہ اور آج آپ کے ذریعہ ملک کی سرحدوں کو کمزور کیا جارہا ہے۔
12 اکتوبر کو آپ نے اسلام آباد کو تو فتح کرلیا مگر پاکستان میں اسلام کو کمزور کرنے کی سازش میں آپ کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور اب پہلے کی طرح قوم اور فوج ایک ہو چکی ہے۔ 14کروڑ عوام کے قائد میاں نواز شریف، قائداعظم کے اسی مشن کی تکمیل کے لئے سرگرم تھے اور وہ وقت قریب تھا جب پاکستان صحیح معنوں میں اسلامی، فلاحی، جمہوری مملکت کے طور پر دنیا میں ایک نمونہ عمل بن کر ابھرتا، کہ ایک منصوبے اورسازش کے تحت ملک کی ترقی کی راہ میں قید و بند کی دیوار کھڑی کردی گئی لیکن ایسا نہیں ہوگا اور یہ دیوار بہت جلد گرجائے گی اور آپ کا قائد آپ کے ساتھ اپنی منزل کی جناب رواں دواں ہوگا۔ انشاء اللہ۔‘‘
’’پاکستان پائندہ باد، مسلم لیگ زندہ باد‘‘
(خطاب: 3 ستمبر 2000ء)
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)