جسٹس منصور علی شاہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں ایسے جج بن گئے ہیں، جنہیں چار روز پہلے آئین میں ترمیم کر کے چیف جسٹس بننے سے روک دیا گیا،وہ اس وقت بھی سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج ہیں اور ریٹائرمنٹ تک سینئر ہی رہیں گے۔ یہ توقع رکھنا کہ وہ اِس زیادتی کو بھول جائیں ایک غیر منطقی بات ہے۔انسان کے پاس عہدہ جو بھی ہو پہلے وہ انسان ہوتا ہے، جس کے ناتے وہ اپنے اندر ردعمل کو ہر وقت کنٹرول نہیں کر سکتا۔ آج کل ان کا یہ جملہ بہت زبان زدِ عام ہوا ہے کہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو لکھے گئے ایک خط میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے لوگ ہمارے اعمال دیکھتے ہیں اور اُن کی رائے تاریخ بناتی ہے،اُن کی زبانوں کو بعض لوگ ایک دِل جلے کی بھڑاس بھی کہہ سکتے ہیں،مگر اس میں تو کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ تاریخ واقعی کبھی معاف نہیں کرتی، مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کوئی تاریخ سے سبق سیکھنے کو تیار ہوتا ہے اور نہ اس پر یقین رکھتا ہے کہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔اصل میں انسان کی کوتاہ نظری جب اقتدار کے حصار میں مقید ہو جاتی ہے تو اُسے اِس بات کا دھیان ہی نہیں رہتا کہ وقت کتنی تیزی سے گذرجاتا ہے۔ دنیائے عالم کی تاریخ ایسے واقعات اور شخصیات سے بھری پڑی ہے،جنہوں نے اس بات کو ثابت کیا وہ تاریخ کے جبر اور اُس کی سفاکیت سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔وہ اپنے عہد کو اس خوش فہمی میں گزارتے رہے کہ تاریخ کی آنکھیں بند ہیں یا ہم جو تاریخ رقم کریں گے ہی تاریخ مانی جائے گی۔ اب یزید کے معاملے ہی کو دیکھ لیں جس وقت وہ قافلہئ حسینی پر ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کر رہا تھا تو اس خوش فہمی نے اُسے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا،جو کچھ بھی ہو گا میری مرضی سے ہو گا۔جیسی تاریخ میں بتاؤں گا وہی تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہو گی،حالانکہ تاریخ کسی کے بھی ہاتھ میں نہیں ہوتی۔وہ ہوائیں ایک لہر کی صورت میں چلتی ہیں اور اپنے نقوش چھوڑتی چلی جاتی ہیں۔ہم اپنے پاکستان کی تاریخ میں دیکھ لیں، کوئی بتائے کہ اس نے کس کو معاف کیا ہے۔بڑے بڑے آمروں، عوام کے نام پر اقتدار حاصل کرنے والے لیڈروں اور اپنے وقت کے فرعونوں کو تاریخ نے کس طرح روند کے نہیں رکھ دیا۔سامنے کی حقیقتیں ہیں، مگر کوئی اُس وقت تک نہیں مانتا جب تک تاریخ کے ستم کا خود شکار نہیں ہو جاتا۔ جب انسان کے اقتدار کا سورج نصف النہار پر ہوتا ہے تو اسے اس کا ذرا احتمال نہیں ہوتا یہ ڈوبنے کی طرف بھی جائے گا۔کیا ضیاء الحق تاریخ کے جبر کا شکار نہیں ہوئے؟ گیارہ برس تک ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہنے والا تاریخ کا پہیہ اپنی طرف نہیں گھما سکا،آج گڑھی خدا بخش میں بھٹو زندہ ہے اور فیصل مسجد اسلام آباد میں ضیاء الحق وقت کی نذر ہو چکا ہے۔عدالتی تاریخ میں اُن کروڑوں کو جو قدر و منزلت ملی جنہوں نے آئین اور قانون کا پرچم بلند رکھا،وہ بھی ایک تاریخ ہے اور جن کرداروں کو تاریخ نے معتوب قرار دیا،وہ بھی سب کے سامنے ہیں جن ججوں نے پی سی اوز کے تحت مارشل لاء ادوار میں حلف اٹھائے وہ تاریخ کے بدنما خانے میں جگہ بنا گئے اور جنہوں نے حرفِ انکار کیا وہ آج بھی احترام کے مقام پر تاریخ کے صفحات میں موجود ہیں۔
کالج کے زمانے میں ہمارے ایک استادِ محترم تھے اردو پڑھاتے اور شعری مثالوں سے بات سمجھاتے کہ سیدھی دِل پر نقش ہو جاتی۔ اُن کا اسمِ گرامی سید اقبال عباس نقوی تھا۔ وہ ہمیشہ وقت سے پہلے کلاس روم میں موجود ہوتے۔ایک منٹ بھی پہلے کلاس نہیں چھوڑتے تھے۔ایک دن انہوں نے پوچھا میرا وقت پر آنا آپ کو کیسا لگتا ہے؟پھر خود ہی کہنے لگے اچھا نہیں لگتا ہو گا،کیونکہ نوجوانی میں ایسی سختی بُری لگتی ہے۔پھر انہوں نے کہا دیکھو جب انسان کو کوئی رتبہ یا منصب ملتا ہے تو اس کے سامنے دو راستے کھلتے ہیں۔اُس منصب کو اپنے لئے عزت و وقار کا باعث بنا لے یا پھر وقتی مفاد یا سہولتوں کے لئے اُسے قربان کر دے۔میں بھی سٹاف روم میں بیٹھ کے چائے کے مزے لے سکتا ہوں، پیریڈ میں دس منٹ تاخیر سے بھی آ جاؤں تو آپ نے کچھ نہیں کہنا،نہ ہی پرنسپل صاحب مجھ سے پوچھیں گے،لیکن یاد رکھنا تاریخ مجھے ضرور پوچھے گی۔وہ تاریخ آپ ہیں،جب آپ یہاں سے چلے جائیں گے،عملی زندگی گزار رہے ہوں گے تو مجھے یاد کرتے ہوئے کہیں گے نقوی صاحب بہت کام چور پروفیسر تھے۔اکثر لیٹ آتے اور وقت سے پہلے چلے جاتے تھے۔اب آپ یہ بتائیں اگر میں عزت کے لئے ملنے والے پیغمبری منصب کو اپنی زندگی میں خود ہی بے توقیر کر دیتا ہوں تو کیا مجھ سے زیادہ بدنصیب اور احمق بھی کوئی ہو گا۔اس لئے کبھی اپنے منصب اور فرائض سے یہ سوچ کر روگردانی نہ کریں کہ مجھے کس نے پوچھنا ہے،میں تو بڑا بااختیار ہوں۔آپ کو کوئی پوجھے نہ پوچھے تاریخ ضرور پوچھے گی۔
بات کسی ایک شعبے کی نہیں،تاریخ کی دسترس تو ہر شعبے پر محیط ہوتی ہے اب وہ پتھر کا زمانہ تو ہے نہیں کہ تاریخ مورخین کے ذریعے سامنے آئے۔اب تو لمحے لمحے کی خبر جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے ملتی ہے اور اپنا اچھا یا بُرا نقش چھوڑ جاتی ہے۔ماضی قریب میں جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ چھ سال تک سیاہ و سفید کے مالک رہے۔اُس وقت انہوں نے سوچا بھی نہیں ہو گا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب وہ دنیا بھر میں اپنی شناخت کے ساتھ آزادانہ سفر نہیں کر سکیں گے جو منصب اُن کے لئے عزت اور وقار کا باعث ہونا چاہئے تھا وہ اُن کے لئے عوامی نفرت کا باعث بن جائے گا۔ تاریخ کا پہیہ جب گذر جاتا ہے تو کوئی وضاحت کوئی صفائی اسے اُلٹا نہیں چلا سکتی۔اب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا معاملہ بھی تاریخ کے حوالے ہو گیا ہے وہ تاریخ جو بہت بے رحم ہے اور جس پر پلٹ کے مٹی بھی نہیں ڈالی جا سکتی۔اُن کے حامی انہیں تاریخ کا بہترین چیف جسٹس کہتے ہیں،اُن کے پاس اپنے دلائل موجود ہیں، مگر سوال یہ ہے اُن کی شخصیت اتنی متنازعہ کیوں بنی کہ آج اُن کے جانے پر جشن منانے والوں کی بھی کمی نہیں وہ پہلے چیف جسٹس تھے جن کے اپنے ساتھی جج اُن کے ساتھ بینچ میں بیٹھنے سے انکاری ہوئے۔وہ اِس حوالے سے بھی بڑے فیصلے نہیں کر سکے کہ اُن پر جب ایک کلائنٹ نے عدم اعتماد کیا اور درخواست دی کہ وہ اُن کے کیسز نہ سنیں تو انہوں نے عدلیہ کی اعلیٰ روایات کو پیش نظر رکھنے کی بجائے چُن چُن کے اُن کیسوں میں موجودگی کو یقینی بنایا۔ اُن کے دور میں بنیادی انسانی حقوق کی صریحاً پامالی ہوئی۔عدلیہ کو خوف و ہراس میں مبتلا کیا گیا اور ججوں نے تاریخ میں پہلی بار باقاعدہ خطوط لکھ کر انہیں آگاہ کیا،مگر وہ اُن کے تحفظ کا ذریعہ نہ بن سکے۔ابھی وہ منصب پر تھے کہ بلاول بھٹو نے کہہ دیا 26آئینی ترمیم قاضی فائز عیسیٰ کے بغیر ممکن نہ تھی اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے پہیہ کس طرح اُلٹا چلتا ہے۔
٭٭٭٭٭