اس کی آواز بھاری اور خوفناک تھی، تھوڑے رکھ رکھاؤ سے ملتا رہا، اب لوگوں کی آمدو رفت شروع ہوگئی جو ہمارے لئے پریشانی کا باعث بن رہی تھی
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:68
چونکہ اب کسی پہلو تجسس کا عنصر باقی نہیں رہا تھا، اس لئے میں آرام سے ایک بنچ پر بیٹھ کرا پنے ہم سفروں کو دیکھنے لگا۔ اس بار ہمیں جو نشست ملی تھی اس کے بالکل سامنے بنچ پر ایک فربہ سا ادھیڑ عمر شخص اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا، جس نے بے تحاشہ مونچھیں بڑھا رکھی تھیں اور سر پر روایتی مصری کلہ اور ڈھیلی سی پگڑی باندھ رکھی تھی۔ جب وہ عجیب سی نظروں سے دیکھتا تو لگتا کہ اس کی آنکھیں کہیں اندر کھبی جا رہی ہیں۔ اس کے آس پاس بیٹھے ہوئے اس کے ساتھی کسی پیر ہی کی طرح ہر وقت اس کے آگے پیچھے گھومتے رہتے تھے۔ ابھی کچھ ہی دیر قبل اس کے ساتھ آئے ہوئے ایک شخص نے اس کا حقہ تازہ کیا تھا اور اب وہ پھلوں کے رس کا گلاس لیے اس کے سامنے باادب کھڑا تھا۔ اس کی آواز بھی بھاری اور خوفناک تھی۔ جیسے ہی وہ کچھ بات کرتا اس کے سارے چیلے چانٹے ہوشیار ہو کر اس کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ وہ قہقہے لگاتا تو دوسری بھی تمام لوگ پاگلوں کی طرح ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر زور زور سے ہنستے اور اس کا ساتھ دیتے تھے۔
کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ آس پاس کی بنچوں سے بھی اٹھ کر لوگ اس کے قریب آنے لگے اور اسے خیر مقدمی کلمات کہہ کر بڑی عزت اور تکریم کے ساتھ اس سے مصافحہ کرتے۔وہ بھی ہر ایک کے ساتھ خوش دلی مگر تھوڑے رکھ رکھاؤ سے ملتا رہا۔ احمد نے مجھے بتایا کہ یہ وہاں کے ایک قریبی گاؤں کا کوئی معزز شخص ہے اور یہ سب لوگ نہ صرف اس کی سماجی حیثیت کو سمجھتے ہیں بلکہ اس سے پوری طرح متاثر ہیں۔ اس لئے ہر کوئی آکر اس سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہا ہے۔
اس شخص کی وہاں موجودگی کی بناء پر وہاں اب کافی لوگوں کی آمدو رفت شروع ہوگئی تھی، جو ہمارے لئے پریشانی کا باعث بن رہی تھی، اس لئے میں احمد کو لے کر وہاں سے کچھ دور جا کر ایک اور جگہ بیٹھ گیا۔ جہاں چلتی ہوئی کشتی میں سے دریائے نیل کے ٹھنڈے پانیوں میں ہاتھ ڈالنے کا اپنا ہی ایک مزہ تھا۔ ابھی کوئی پندرہ منٹ کا سفر باقی تھا کہ کسی نے کھڑے ہو کر مغرب کی اذان دی اور عبادت گزار بندے وہیں خالی جگہوں پر صفیں بنا کر اپنے عظیم رب کے سامنے سر جھکا کر کھڑے ہوگئے۔
ہمارا سفر اور مغرب کی نماز ایک ساتھ ہی ختم ہوئے تھے۔ کشتی سے اتر کر ہم پیدل ہی اپنے ہوٹل کی طرف روانہ ہوئے۔ احمد کو میں نے چائے پر مدعو کیا۔ پھر ہم وہاں بیٹھے بڑی دیر تک اس علاقے کی تاریخ کھنگالتے رہے۔ احمد بخوشی اور کسی حد تک فخریہ طور پر اس علاقے کے بارے میں تفصیل سے بتا ئے جا رہا تھا۔وہ ایک قریبی گاؤں کا رہنے والا تھا اور اس کو یہاں کے چپے چپے کا علم تھا اور رہی سہی کسر اس کو تاریخ کے اس علم کی بدولت نکل گئی جو اس نے دوران تعلیم اور تربیت اور بعدازاں کئی سالوں پر محیط عملی تجربے کی بناء پرحاصل کیا تھا۔ وہ واقعی ہی ایک بڑا مؤثر اور شاندار گائیڈ تھا اور یہاں الأقصر میں اس کے پاس دکھانے اور بتانے کے لئے بڑا کچھ تھا لہٰذا وہ ہمیشہ ہی اپنے کام میں مصروف رہتا اور آنے جانے والے سیاحوں کے علم میں اضافے کا ایک بڑا ذریعہ بنتا۔
کل میرا الأقصر میں آخری دن تھا۔ اس لئے میں نے احمد سے سرسری سا پوچھا کہ کل وہ مجھے کہاں لے جانا چاہتا ہے اور اس کے بارے میں سرسری سی تاریخ بتانے کا بھی کہا تاکہ حالات واقعات اور تاریخ و جغرافیہ وغیرہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ اس نے بتایا کہ ہمارا کل کا دن بہت مصروف ہونے جا رہا تھا۔ہم اعلیٰ الصبح نکلیں گے اور دن ڈھلے ہی واپسی ممکن ہوسکے گی کیونکہ یہی اس سفر کا سب سے خوبصورت اور قابلِ دید حصہ ہے۔ (جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں