آج کے کالم کے لئے اہم ترین ایشو موجود تھے فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا، کس کو موضوع بنایا جائے،کیونکہ اسرائیل، جارحیت اور دہشت گردی کی تمام حدیں پار کر رہا ہے غزہ میں نسل کشی جاری ہے تباہ کن بمباری سے سب کچھ ملیا میٹ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف پاک سعودیہ دفاعی معاہدے کے بعد خطے کی تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال، نیٹو کی طرز پر نئے اسلامی بلاکس کے لئے جوڑ توڑ جیسے اہم موضوع میرے سامنے تھے،حالانکہ اِن موضوعات پر کچھ نہ کچھ تحریر کر چکا ہوں۔ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا، پھر فیصلہ کیا چار دن بعد پنجاب بھر کے قیام پاکستان سے اب تک دیہات اور شہروں میں تاریخ رقم کرنے والے 52ہزار سے زائد سکولوں کی قسمت کا فیصلہ ہونے جا رہا ہے پتہ نہیں پنجاب حکومت کی کون سی مجبوری ہے، پنجاب بھر کے اساتذہ اور اساتذہ کی تنظیموں کے گزشتہ کئی ماہ سے جاری احتجاج بڑے بڑے کالم نویسوں کے دلائل اور ماہرین تعلیم کی طرف سے سرکاری سکولوں کو این جی او کے سپرد کرنے کی مخالفت اور اس کے منفی اثرات کے حوالے سے جاری بحث کو یکسر نظر انداز کر کے ہر صورت تمام سرکاری سکولوں کو آؤٹ سورس کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے،حالانکہ گزشتہ ایک سال سے نجکاری کی مہم کے دو مرحلوں میں سینکڑوں سکولز این جی او بڑی چین اور بہت سے انفرادی طور پر اہم شخصیات کے سپرد کئے جا چکے ہیں اب آخری مرحلے میں چند ہزار سکول جو بچے ہیں ان تمام کو یکم اکتوبر 2025ء سے پرائیویٹ سیکٹر کے سپرد کرنے کی ڈیڈ لائن دے دی گئی ہے، میں یہ نہیں کہتا میرے کالم سے پنجاب پنجاب کے نجکاری یا ٹھیکیداری نظام میں کوئی رکاوٹ ہو گی،مگر یہ یقین ضرور ہے ہر فرد نے اپنا حساب دینا ہے، قلم کی حرمت تقاضا کرتی ہے اس کا حق ادا کیا جائے آج کے کالم کو فرض سمجھ کر فرض ادا کر رہا ہوں۔
سرکاری سکولوں کی نجکاری کے حوالے سے پہلے کالم لکھ چکا ہوں حکومت کی ہٹ دھرمی کہہ لیں یا مجبوری؟ کم از کم مجھے ذاتی طور پر محسوس ہو رہا ہے خواہش سے زیادہ مجبوری نظر آتی ہے،جس کے تحت وفاق سمیت صوبوں میں ایئر پورٹ سے لے کر موٹروے تک کو ٹھیکے پر دیا جا رہا ہے یہ آزادی کی کون سی شق ہے ملک کے قیمتی اثاثے ایک ایک کر کے ایسے افراد اور اداروں کے سپرد کر دیئے جائیں جو اپنی مرضی سے چلائیں گے، ہماری حیثیت کیا ہو گی، غلامی یا خود مختاری کے اس نقطہ پر اُٹھنے والے سوال کا جواب اگر کوئی دے سکے تو خوشی ہو گی۔
گزشتہ سال پنجاب حکومت نے آتے ہی سرکاری سکولوں کو تین مرحلوں میں پرائیویٹ سیکٹر کو دینے کا اعلان کیا تھا اس میں سب سے پہلے ٹارگٹ ان سکولوں کو کیا گیا تھا جن سکولوں میں بچے کم تھے۔ دوسرے مرحلے میں بچوں کی تعداد اور سکولوں کے تعلیمی نتائج کو جواز بنایا گیا اور دونوں مرحلوں میں اشتہار بازی کے ذریعے اعلان کیا گیا،حکومت سرکاری ادارے این جی اوز، بڑی تعلیمی اداروں کی چین اور انفرادی طور پر کام کرنے والوں کو دینے کی خواہش رکھتی ہے تمام سکولز ان کے سپرد کریں گے، گورنمنٹ فی بچہ600 روپے دے گی باقی اخراجات اور تعلیمی خدمات دینے والے سکولز خود مختار ہوں گے۔
دلچسپ صورتحال ہے گزشتہ دو حکومتیں وہ تحریک انصاف کی ہو یا نگران حکومت وہ بھی اسی قسم کا ایجنڈا دے چکی تھیں انہیں عملدرآمد کا موقع نہیں ملا۔ البتہ وزیراعلیٰ مریم نواز صاحبہ کو پورا موقع مل گیا وہ ورلڈ بنک اور عالمی اداروں کے ایجنڈے پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں یہی وجہ ہے پہلے دن سے آج تک 52 ہزار سرکاری سکولوں میں سے بیشتر کے پرنسپل نہیں ہیں،ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ کی کمی ہے ان سکولوں کے لئے بجٹ مختص نہیں کیا جا رہا۔ حقائق بتاتے ہیں 52ہزار بچے بچیوں کے سکولوں میں چار لاکھ20ہزار اساتذہ ایک کروڑ25لاکھ طلبہ طالبات کو پڑھا رہے ہیں۔ تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایک کروڑ70لاکھ بچے سکول نہیں جا رہے اندھیر نگری ہے ایک کروڑ70لاکھ کو سکولوں میں لانے کی بجائے پہلے سے پڑھنے والے ایک کروڑ20لاکھ بچے بچیوں پر بھی گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے حقائق سامنے آئے ہیں موجودہ حکومت سے پہلے اور اس حکومت کے ابتدائی دِنوں میں رپورٹ شائع ہو چکی ہے۔ سرکاری سکولوں کو پف کے سپرد کرنے کا منصوبہ بُری طرح ناکام رہا ہے اس کے بعد این جی او اور چین کا منصوبہ سامنے آیا۔ این جی او کے کردار اور ساخت پربات کرنا مقصود نہیں ہے۔ میرے سامنے این جی او بنی ہیں سکولز چین نے منصوبہ بندی کی ہے انفرادی افراد نے سکولز ہتھیانے کے منصوبے بنائے ہیں۔گزشتہ کالم میں لکھ چکا ہوں پنجاب سمیت ملک بھر کے دیہات، قصبات میں اب بھی جو سرکاری سکولز موجود ہیں وہ کنالوں میں نہیں ہیں درجنوں ایکڑوں پر مشتمل ہیں بیشتر سکولوں کے ساتھ درجنوں ایکڑ زرعی زمین بھی موجود ہے اگر بہتر منصوبہ بندی کی جاتی، خود مختاری کا نظام مقامی افراد کے سرپرستی میں لانے کی کوشش کی جاتی تو حکومت کو ایک آنہ بھی نہ لگانا پڑتا۔ افسوس کہ سرکاری مشینری سارے سکولوں سے چھٹکارا پانے کا فیصلہ کر چکی ہے اس کی ترجیحی یہی ہے 30ستمبر تک عمل درآمد مکمل کرنا ہے افسوس دو مرحلوں میں این جی او اہم شخصیات اور سکول چین کے سپرد کیے گئے سکولوں کی کارکردگی بھی زیر بحث نہیں لائی گئی،حالانکہ بڑے بڑے سکولوں کے فرنیچر، کولر،درخت چوری کرنے کی خبریں شائع ہو چکی ہیں اُونے پونے میں سکولز حاصل کرنے والوں نے کیا کیا کاروبار شروع کر لئے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے اساتذہ کی ملک گیر نمائندہ تنظیم اساتذہ کے صدر پروفیسر الطاف لنگڑیال اور ٹیچرز ایسوسی ایشن اتحاد اگیگا کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبران چودھری افضل بھنڈر، ملک لطیف شہزاد، چودھری ساجد رندھاوا، شفقت رسول سندھو کو ساتھیوں سمیت گزشتہ دو سال سے سڑکوں پر دیکھ رہا ہوں جو سکولوں کی نجکاری کے لئے سراپا احتجاج ہیں،سکولوں کے پرنسپل اور اساتذہ بھرتی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں، پنشن اصلاحات گریجویٹی سکیم میں تبدیلی نامنظور کر رہے ہیں،مگر کوئی ان کی شنوائی نہیں ہے،52ہزار سرکاری سکول اب تک کروڑوں بچے بچیوں کو تعلیم سے آراستہ کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں، پرائیویٹ سکولز نے پہلے ہی تعلیم کو تجارت بنا دیا ہے اب اگر سرکاری سکول بھی ان کو دے دیئے گئے غریب تو کیا متوسط طبقہ اپنے بچوں کو نہیں پڑھا سکے گا،حکومت نجکاری کا فیصلہ واپس لے۔
٭٭٭٭٭