حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر76

Apr 27, 2018 | 03:36 PM

سید سلیم گیلانی

اُن کے بعد
اُس دن کے بعد میں نے اذان دینا بند کر دی۔ یہ نہیں کہ میرا جی نہیں چاہتا تھا۔ میں اللہ کے آخری رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام کا نامزد مؤذن آج بھی دل میں وہی تڑپ رکھتا تھا۔ اُن کے تعریفی کلمات آج بھی میری حیات کا عزیز ترین سرمایہ تھے۔ اُن کا فرمان آج بھی میرے لئے ہر چیز پر مقدم تھا۔ ثواب کا آج بھی میں اتنا ہی مستحق تھا، جتنا آج سے پہلے۔ اشاعتِ دین میں میرا حقیر سا حصہ آج بھی میری روح کی تسکین کا سامان تھا۔ میں بھی وہی تھا۔ میری آواز بھی وہی تھی۔ آج بھی میرے سروں میں وہی گونج تھی۔ میرے لہجے میں وہی کھنک اور اسلام کے اولیں دنوں کا وقار اور دبدبہ تھا۔ اذان کے الفاظ آج بھی لہو کی طرح میری رگوں میں رواں تھے۔ اُس کا لحن آج بھی میرے سارے وجود کو مترنم کئے ہوئے تھا۔ آج بھی میری زندگی کی سب سے بڑی آرزو یہی تھی کہ میں بلند آواز سے توصیف الٰہی بیان کروں، رسالتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت دوں، ایمان والوں کو نماز کے لئے پکاروں، نیکی کی طرف بلاؤں۔ مگر نہ جانے کیا ہو گیا تھا، ایسے لگتا تھا کچھ اندر سے ٹوٹ گیا ہے۔ کوئی ایسی چیز جس کے ٹوٹنے سے میری ساری صلاحیتیں بجھ گئی ہیں اور جو کچھ ٹوٹا ہے دوبارہ جڑ نہیں سکتا۔ اب سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کچھ نہیں تھا۔ اب اسی اثبات و نفی کے عالم میں زندہ رہنا میرا مقدر تھا۔ میں بے بس تھا۔
ایک دن علیؓ اور ابوذرؓ نے بہت زور دے کر مجھے اذان کے لئے چھت پر چڑھا دیا۔ میری ٹانگیں ساتھ نہیں دے رہی تھیں مگر دونوں نے سہارا دیا۔ ابھی میرے منہ سے ’اللہ اکبر‘ ہی نکلا تھا کہ میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ مجھے الفاظ کا دروبست بھول گیا تھا۔ کبھی کوئی لفظ نکلتا، کبھی کوئی۔ سب الفاظ آگے پیچھے ہو رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک آتے ہی مجھ پر رقت طاری ہو گئی میں اٹک گیا۔ پھر دوبارہ شروع سے اذان دینے لگا، پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام آتے ہی رُک گیا۔ چار دفعہ میں نے اذان شروع کی اور چاروں مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ میں لفظ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اکثر اُن کو دیکھ کر ادا کیا کرتا تھا۔ وہ سامنے ہوتے تھے یا پاس ہوتے تھے تو میں اُن کی طرف اشارہ کر کے اُن کی رسالت کی شہادت دیا کرتا تھا۔ آج میری آنکھوں سے آنسوؤں کا تاربندھا ہوا تھا۔ زبان ساتھ دے رہی تھی نہ ذہن۔ آخر علیؓ اور ابوذرؓ دونوں نے ترس کھایا اور مجھے نیچے اُتار لائے۔

۔۔

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر75 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
بیت المقدس کی تسخیر کے موقعے پر جب امیر المومنین حضرت عمرِ فاروقؓ نے جابیہ میں عیسائیوں سے صلح کا معاہدہ کیا تو اُس موقع پر انہوں نے ایک نہایت جامع اور بلیغ خطبہ دیا۔ سامعین میں میں بھی تھا۔
تقریر ختم کر کے انہوں نے میری طرف دیکھ کر کہا:
’’اے ہمارے سردار بلال! آج اسلام کے قبلۂ اول پر اسلام کا پرچم لہرایا ہے۔ اس تاریخی موقع پر اگر آپ اذان دیں تو بہت مناسب ہو گا‘‘۔
عمرؓ کا یہ کہنا تھا کہ ایک لمحے میں کتنی ہی باتیں میرے ذہن میں پھر گئیں۔ مجھ پر وہ ہمیشہ بڑی شفقت فرماتے تھے۔ جب ملتے مجھے ’سیدنا‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا:
’’ابوبکر سیدنا واعتق سَیدنا یعنی بلالاً ‘‘
ابوبکر ہمارے سردار ہیں جنہوں نے ہمارے سردار بلال کو آزاد کرایا۔
ایک اور موقع پر جب وہ خلافت کے منصب پر فائز تھے تو قریش کے سرداروں کا ایک وفد اُن سے ملاقات کے لئے آیا۔ میں بھی کسی کام کے سلسلے میں اُن کے پاس حاضر ہوا تھا۔ انہوں نے مجھے اُن سے پہلے اندر بلوایا تو اکابرِ قریش کو بہت ناگوار گزرا۔ انہوں نے کہہ بھی دیا کہ شرفائے قریش تو انتظار کر رہے ہیں اور ایک حبشی کو اندر بلا لیا گیا ہے۔ اس موقع پر سہیل بن عمروؓ نے یہ کہہ کر بات سنبھالی کہ دعوتِ حق ہم سب کو ایک ساتھ ملی تھی مگر بلال ہم پر سبقت لے گئے۔ یہی اوّلیت اُن کا شرف ہے۔ ہمیں شکایت کا کوئی حق نہیں۔
اُس دن جب ہم مدت بعد ملے تھے اور میں نے عمرؓ کی زبان سے اپنا نام سنا تو میں اُٹھ کر کھڑا ہو گیا اور میں نے نہایت ادب سے عرض کی:
’’امیر المومنین آپ جانتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کبھی اذان نہیں دی لیکن اگر آپ کا حکم ہے تو میں تعمیل کروں گا۔‘‘
میں اذان دینے کھڑا ہوا تو فتح مکہ کی اذان کا نقشہ میرے ذہن میں اُبھر آیا۔ قبلہء اول پر مسلمانوں کا قبضہ بھی ایک ویسا ہی باعظمت موقع تھا۔ ہزاروں فرزندانِ توحید جمع تھے اور سب کے دل بارگاہِ الٰہی میں اسلام کی اس تاریخی کامیابی پر شکر سے لبریز تھے۔ میرے سامنے کئی صحابہء کرام بیٹھے تھے، میرے منہ سے ’اللہ اکبر، اللہ اکبر‘ کے الفاظ کا نکلنا تھا کہ محفل پر رقت طاری ہو گئی۔ میری آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو گئے۔ شہادتِ رسالت دی تو صحابہء کرام کا حال دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ہزاروں کے مجمعے میں صرف حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی بیٹھے ہیں اور میں جابیہ میں نہیں مسجد نبوی میں اذان دے رہا ہوں۔ عمرؓ کی تو روتے روتے ہچکی بندھ گئی۔ آخری بار میں نے انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر اس طرح زار و قطار روتے دیکھا تھا۔ یہی حال ابوعبیدہؓ کا تھا۔ بار بار پنا ہاتھ فرش پر مارتے اور روتے جاتے۔ ایک طرف معاذ بن جبلؓ، جن کا حسین و جمیل چہرہ صرف ہنسنے کے لئے بنا تھا، اس شدت سے گریہ و زاری کر رہے تھے کہ بے حال ہوتے جا رہے تھے، ساتھ بیٹھے ہوئے لوگ انہیں سنبھال رہے تھے۔ ہر شخص فراقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تڑپ رہا تھا، ہر صحابی کے ذہن میں دورِ نبوی کی تصویر کھینچ گئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابھی ابھی ہم سے رخصت ہوئے ہوں۔ اذان ختم ہونے کے دیر بعد لوگوں کو قرار آیا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکرؓ خلافت کے منصب پر فائز ہوئے اور رفتہ رفتہ تمام کاروبارِ حیات معمول کے مطابق چلنے لگا مگر میری اپنی یہ حالت تھی کہ میری نظریں اب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تلاش کرتی رہتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے ابھی کہیں سے آ جائیں گے، اُسی طرح مسکراتے ہوئے۔ انہیں سامنے نہ پا کر میں بھری دنیا میں تنہا ہو گیا تھا۔ میری زندگی میں ایسا خلاء پیدا ہو گیا تھا کہ مجھے شب و روز کا ہوش نہیں رہا تھا۔ اذان کے علاوہ میرے معمولات وہی تھے مگر لگتا تھا جیسے زندگی کا کوئی مقصد نہیں رہا۔ جیسے میں کسی خزاں رسیدہ شاخ سے گرا ہوا ایک پتہ تھا جسے ہوائیں اِدھر اُدھر لڑکائے پھر رہی تھیں، جس کی اپنی کوئی منزل نہیں تھی۔ زندگی میں اگر کچھ تھا تو اُن کی یادیں، اُن کی تربیت، اُن کے ارشادات، اُن کی دی ہوئی تعلیم اور ان کی بے پناہ شفقت کا احساس۔(جاری ہے )

حضرت بلالؓ کی ایمان افروز داستان حیات ۔۔۔ قسط نمبر77 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں