وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر52

Aug 27, 2017 | 12:30 PM

شاہد نذیر چودھری

یہ حادثہ کیا تھا، قیامت صغریٰ تھی۔ ہندوستان میں صف ماتم بچھ گئی۔ حریفانہ چشمک بالائے طاق رکھ کر تمام دفیں جھاروالی پہنچ گئیں اور گاموں بالی والا کے غم میں برابر کی شریک ہوئیں۔ حمیدا پہلوان رستم ہند اور بھولو بھی اپنے حریف کے ماتمی جلوس میں شریک ہوئے۔دونوں پچھاڑیں مار مار کر روئے۔ حمیدا پہلوان نے تو کہا۔
’’آج سے اکھاڑے ویران ہو گئے ہیں۔گونگے تو نے جانے میں اتنی جلدی کیوں کی‘‘۔

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر51 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔

یہ غم اتنا بڑھا کہ اکھاڑے کئی ماہ تک ویران رہے۔ پھر آہستہ آہستہ ان میں رونق جمنے لگی۔ بھولو تو اس صدمہ سے بڑا دلبرداشتہ ہو گیا۔ اس نے ایک طرح سے ریاضت بھی چھوڑ دی۔ جب اس کو زور کرنے کیلئے کہا جاتا تو کہتا۔
’’میرا دل کھٹا ہو گیا ہے۔ اب کس کیلئے زور کروں‘‘۔
’’مگر پہلوان جی اس طرح دل تو نہیں چھوڑتے۔ آپ نے ریاضت نہ کی تو چھوٹے درجہ کے پہلوان آپ کو للکارنے لگیں گے‘‘۔
بھولو کو کافی سمجھایا گیا اور پھرکہیں جا کر اس کا دل دوبارہ اکھاڑوں میں لگنے لگا۔ انہی دنوں حمیدا پہلوان کو ریاست اجین کے مسلمان کا ایک پیغام ملا جس میں انہوں نے بتایا تھا۔ترن تارن کا ہندو نژاد پہلوان پورن سنگھ عرف چھوٹا پورن مسلمانوں کی پگڑیاں اچھال رہا ہے۔ حمیدا پہلوان کو بڑا طیش آیا۔ اس نے بھولو کو کوچ کا حکم دیا اور فیل مست پورن سنگھ کو بھولو کا چیلنج دے دیا۔ پورن سنگھ دیوقامت اور گوشت کا پہاڑ تھا۔ اس نے بھولو کے چرچے سن رکھے تھے۔
اس نے اجین کے مسلمانوں سے کہا۔
’’بڑا ناز ہے تمہیں بھولو پر۔۔۔ ذرا میری داڑھ تلے تو آنے دو‘‘۔
پورن سنگھ سے مقابلہ پاؤ اور سیر کا تھا۔ وہ بھولو سے مقابلہ کیلئے دو ہزار روپے پر لڑنے کیلئے تیار ہوا۔ (ذرا چشم تصور سے اندازہ کریں اس دور کے دو ہزار آج کے کتنے روپوں کے برابر ہوں گے) حمیدا پہلوان نے بھولو کو راتوں رات امرتسر سے اٹھایا اور اجین کیلئے کوچ کیا۔ مسلمانوں نے ان کا دیدہ و دل سے استقبال کیا۔ انہوں نے بھولو پہلوان سے کہا۔
’’بھولو جی! اس سورمے کو نتھ ڈال کر جائیے گا۔ہندو اسکی پوجا کرتے ہیں جس سے اس کا دماغ اوپر جا پہنچا ہے۔ کسی کو خاطر میں ہی نہیں لاتا‘‘۔
بھولو نے متبسّم ہو کر تسلی دی۔ ’’اوپر والے نے چاہا تو اچھا ہی ہو گا‘‘۔
دو روز بعد ہتھ جوڑی کی تقریب میں پورن سنگھ اور بھولو آمنے سامنے ہوئے۔پورن سنگھ نے بھولو کو دیکھ کر تمسخر اڑایا اور اپنے ساتھیوں سے کہا۔
’’اوئے ذرا دیکھو تو! مسلمان ایک بلبل کو دیو کے ساتھ لڑانے لائے ہیں‘‘۔
بھولو اور اس کے حواریوں نے کسی تعلّی کا مظاہرہ نہ کیا۔ پھر عین جب دنگل شروع ہوا پورن سنگھ نے رومالی باندھنے سے انکار کر دیا اور کہا۔
’’مجھے دو ہزار نہیں تین ہزار دو تب لڑوں گا‘‘۔
اس دوران چھوٹی جوڑیں ہو رہی تھیں۔دنگل کا مزہ کرکرا ہو کر رہ گیا۔پورن سنگھ کی ہٹ دھرمی اور لالچ نے ٹھیکیداروں کی دوڑ لگوا دی۔وہ سب حمیدا پہلوان کے پاس پہنچے اور سارا معاملہ سنایا۔
’’حمیدا پہلوان گہرے تفکر میں ڈوب گیا تو بھولو نے جھٹ سے کہا۔
’’ماما جی! فکر نہ کریں آپ میرے حصّے میں سے ایک ہزار اس کو دے دیں۔ میں اس کو بھاگنے نہیں دوں گا۔اوپر سے شام ہو رہی ہے۔اب آپ جلدی کریں‘‘۔
حمیدا پہلوان نے اپنے شیر دل بھانجے کو تسلی دی۔’’جیتے رہو بھولو! تو نے مسلمانوں کا مان رکھ لیا ہے‘‘۔
بھولو اپنے حصے کا ایک ہزار پورن سنگھ کو دے کر اسے اکھاڑے میں کھینچ لایا۔ پورن سنگھ جھومتا ہوا بھولو کے سامنے آیا اور ٹانگیں پھیلا کر یوں اکھاڑے میں ایستادہ ہو گیا جیسے اسے اپنے حریف کی ذرا برابر پروا نہیں۔ منصف اجازت دے چکا تھا۔ بھولو نے اس تعلی باز پہلوان کو یوں شان بے اعتنائی سے کھڑا دیکھا تو اسے ایک شرارت سوجھی۔ اس نے پورن سنگھ کی آگے بڑھی ٹانگ پر انی ماری۔ بھولو کا یہ حملہ تیز دھار تلوار جیسا تھا۔پورن سنگھ کو یوں لگا جیسے اس کی گھٹنے اور ٹخنے کے درمیان سے ٹانگ کٹ گئی ہو۔اس نے بلبلا کر وہ ٹانگ پیچھے کی تو غیر ارادی طور پر اس کی دوسری ٹانگ آگے آ گئی۔بھولو نے اس ٹانگ پر بھی انی ماری تو ردعمل کے طور پر پورن سنگھ دھڑام سے اکھاڑے میں گر گیا۔ بھولو نے اسے نیچے رکھ لیا۔ وہ ہاتھی پر چیتا بن کر سوار ہو گیا تھا اور اسے چت کرنے لگا اور پھر چند ہی لمحوں بعد بھولو پورن سنگھ کو چاروں شانے چت کر چکا تھا۔
اجین کے مسلمانوں میں زندگی کی لہر دوڑ گئی اور انہوں نے بھولو کو اکھاڑے سے اٹھایا اور اس کو کاندھوں پر اٹھا کر جلوس نکالا۔
جنگ عظیم دم توڑ رہی تھی جب بھولو کامیابیوں اور کامرانیوں کی سیڑھیاں چڑھتا جا رہا تھا۔ انگریز سرکار نے جنگ کیلئے ایندھن اکٹھا کرنے کیلئے پہلوانوں کو بھی میدان میں دھکیل دیا تھا اور راجے مہاراجے، نوابین اپنی ریاستوں کے چھوٹے بڑے شہروں دیہاتوں میں وار فنڈ کیلئے دنگل کرانے لگے تھے۔ جنگ عظیم کے آخری دنوں میں بھولو نے بڑے بڑے شاہ زور چت کر دئیے تھے۔ وہ 23 برس کا ایک فنکار شاہ زور بن چکا تھا جب اس کی ایک بڑی کشتی قصور کے دربارا سنگھ سے طے پائی۔ دربارا سنگھ اونچے پائے کا فنکار شاہ زور تھا مگر اس کی بدبختی یہ تھی کہ وہ شوباز بھی تھا۔ وہ طاقت اور فن کے نشے میں چور ہو کر خود کو سب سے بڑا شاہ زور گرداننے لگا تھا۔ وار فنڈ کے سلسلے میں جب اس کی جوڑوں کی بات چلی تو وہ بڑے نخرے سے بولا تھا۔
’’آپاں تے رستم زماں نال گھلنا اے‘‘۔
رستم زماں گاماں سے کشتی اتنی آسان نہیں تھی۔حمیدا پہلوان نے جب یہ سنا تو پیغام بھجوایا۔
’’دربارے سنگھ! پہلے بھولو سے دو دو ہاتھ کرو پھر اوپر کی طرف دیکھنا تمہیں گاماں جی جیسا فن کا کوہ گراں سر کرنے سے پہلے کئی پہاڑ سر کرنے ہوں گے‘‘۔
دربارا سنگھ نے جواباً کہا۔ ’’میں تاں اوس بوہل دے نال گھلنے نوں تیار آں۔ پراو وی تیار اے کہ نئیں‘‘۔
حمیدا پہلوان رستم ہند نے کہا۔ ’’جگہ کا تعین تم کرو، بھولو آنے کو تیار ہے‘‘۔
یوں وار فنڈ کا یہ دنگل بھولو اور دربارا سنگھ کے نام سے خوب مشہور ہوا۔ دربارا سنگھ طاقت کا طوفان تھا۔ وہ سکھوں کے ایک بڑے جلوس کے درمیان اکھاڑے میں پہنچا۔ اکثر سکھ ’’ٹن‘‘ ہو کر نعرے لگا رہے تھے۔ انہوں نے جب بھولو کو دیکھا تو وہ تمسخر اڑاتے ہوئے کہنے لگے۔
’’اوئے مسلیو! اے بلبل دربارے دا بھار ناں چک سکے گی‘‘۔
سکھوں کے نعروں میں ایک طرح سے حقیقت بھی نظر آ رہی تھی۔ بھولو اور دربارا سنگھ میں پاؤ اور سیر کا مقابلہ تھا۔ اس موقع پر سٹے بازوں کا کاروبار بھی خوب چمک اٹھا تھا۔ انہیں اب کی بار بھولو کی شکست صاف نظر آنے لگی تھی لیکن یہاں ایسے شرط بازوں کا بھی ہجوم تھا جو بھولو کی فنکاری اور شاہ زوری پر ایمان رکھتے تھے۔ کشتی سے قبل ہی شرطوں میں اضافہ ہو گیا۔
دربارا سنگھ مست ہاتھی کی مانند جھومتا ہوا اکھاڑے میں پہنچا۔ بھولو بھی تیز سپاٹے لگاتا اس کے مقابل آن کھڑا ہوا۔ منصف کی اجازت پاتے ہی دربارا سنگھ نے بھولو کو نظروں میں تولا اور اسے ایک چڑیا کی مانند تصور کرتے ہوئے عقاب بن کر دبوچ لیا۔ بھولو بھی ’’گھنا‘‘ بن گیا اور یونہی ساکن و جامد رہا۔ دربارا سنگھ نے اسے اپنے بازوؤں کے حصار میں لے کر سینے کے ساتھ کھینچ لیا پھر اسے طاقت کے زور پر نیچے جھکانے لگا۔ اسے یقین تھا کہ بھولو شاخ نازک کی طرح جھک جائے گا اور وہ اسے توڑ کر گرانے میں کامیاب ہو جائیگا لیکن وہ بھولو کو ذرا بھر بھی جھکا نہ سکا۔ دربارا سنگھ نے یہ عمل ترک کیا اور جونہی دوسرے داؤ کی تیاری کرنے لگا بھولو نے اس کی ہاتھوں کی انگلیوں میں اپنی انگلیاں پھنسا کر زور سے اپنے ہاتھوں کو اندر کی طرف جھٹکا دیا۔ دربارا سنگھ نے ردعمل کے طور پر اپنے ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچے تو انگلیاں ہاتھوں کی جڑوں سے اکھڑتی محسوس ہوئیں۔ بھولو نے ایک بار پھر جھٹکا دیا تو دربارا سنگھ نے دوبارہ انگلیاں چھڑانے کی کوشش میں الٹے قدموں زور لگایا۔ اسی لمحہ بھولو نے جان بوجھ کر انگلیاں آزاد کر دیں تو دربارا سنگھ لڑکھڑا کر اکھاڑے میں گر گیا لیکن حیران کن طور پر وہ جھٹ سے کھڑا ہو گیا۔ اب دربارا سنگھ وحشی ہو گیا تھا۔ اپنے ہی علاقے میں یوں رسوائی دیکھ کر وہ مرنے مارنے پر اتر آیا۔ اس نے بھولو کو یکے بعد دیگرے تین چار کسوٹے رسید کر دئیے۔ دربارا سنگھ کا طرز کشتی فن کی بجائے محض طاقت کا روپ اختیار کر گیا تھا۔ بھولو نے البتہ اپنا فن قائم رکھا۔دربارا سنگھ جب بھولو پر تابڑ توڑ کسوٹے برسا رہا تھا، بھولو نے اس کی ٹیکیں بھر کر ایسا الٹا مارا کہ دربارا سنگھ صاف چت ہو گیا۔شکست کے بعد دربارا سنگھ مارے ندامت کے سر اٹھانے سے گریزاں رہا۔
بھولو کے عقب میں اچھا پہلوان بھی اکھاڑے پر اکھاڑے فتح کرتا چلا آ رہا تھا۔ محمد اسلم المعروف اچھا پہلوان بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھا لیکن شاہ زوری اور فن میں بھولو کے بعد کوئی تھا تو اچھا پہلوان کا نام ہی لیا جاتا۔یوں تو اسلم، اکرم اور گوگا کا فن بھی باکمال تھا مگر اچھا پہلوان کی چڑھائی کے پیچھے گاماں پہلوان عظیم شاہ زور کی طاقت اور فن تھا۔امام بخش پہلوان رستم ہند اپنے عاشق زار بھائی گاماں پہلوان کے پسینے پر خون بہانے والا بھائی تھا۔ اسی دور میں گاماں پہلوان رستم زماں کا آخری فرزند جلال وفات پا گیا۔ گاماں کیلئے بیٹے کی موت برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ اس سے قبل گاماں پہلوان کے چار بیٹے اپنی پیدائش کے فوری بعد مالک حقیقی سے جا ملے تھے۔ امام بخش نے اپنے بیٹے اچھا پہلوان کو گاماں پہلوان کے حوالے کر دیا تھا اور اس کے تمام حقوق بھی گاماں پہلوان کے نام کر دئیے تھے۔ مگر گاماں پہلوان کیلئے اپنے بیٹے جلال کی موت بہت بڑا صدمہ تھی۔ (جاری ہے)

وہ پہلوان جنہوں نے تاریخ رقم کی۔ ۔ ۔ قسط نمبر53 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں