کیا پاکستانی سیاست میں پیپلز پارٹی مائنس ون فارمولے کی ابتداء کر چکی؟ کیا آصف علی زرداری پارٹی کو عملاً بلاول بھٹو کے سپرد کرنے پر تیار ہو چکے ہیں ؟۔ کیا بلاول بھٹو گہری عوامی جڑیں رکھنے والی پارٹی کو سکڑنے سے بچا سکیں گے ؟۔کیا اس محدودیت کو اسٹیبلشمنٹ یا عمران خان کی حکمت عملی سے نتھی کیا جا سکتا ہے؟ اور سب سے اہم بات یہ کہ کیا بلاول بھٹو واقعی پاکستان پیپلز پارٹی کو پنجاب میں نئی توانائیوں سے ہمکنار کر سکتے ہیں؟
قائم علی شاہ اور کابینہ کے بیشتر ارکان کو کچھ عرصہ قبل بدل دینا چاہئے تھا۔ سندھ کو نئی پرجوش قیادت کے حوالے کرتے کرتے آصف علی زرداری نے خود کو ضرورت سے زیادہ تھکا لیا۔ شاید بی بی کی شہادت کے بعد وہ بے اعتباریوں کے جنگل میں کھو چکے یا حد سے بڑھا اعتماد انہیں غلط سیاسی چالوں پر اکسا تارہا۔ پیپلز پارٹی ایک نظریے کے علاوہ منظم تنظیمی نیٹ ورک اور پولیٹیکل برین کا بھی نام تھی۔ نیٹ ورک بدستور ملک کے طول و عرض میں موجود ہے جبکہ برین سیاسی سرگرمیوں کا مناسب تعین نہ ہونے کے باعث متواتر زنگ آلود ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سندھ کے سوا تمام صوبوں میں پارٹی دفاتر پر سناٹوں کا راج ہے۔ آصف علی زرداری نے بالکل اسی طرح react کیا جیسا اسٹیبلشمنٹ یا عمران خان چاہتے تھے۔ حریف قوتوں کو معلوم تھا وہ فائٹر ہیں ، اچھالے گئے فقروں کا لفظوں کی بجائے عملی صورت میں جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ زرداری صاحب نے چھوٹے ایشوز میں الجھ کر توانائیاں ضائع کیں۔ یہ ایشوز اس قدر مہارت اور طاقتور امپریشن کے ساتھ منظر عام پر لائے جاتے رہے کہ زرداری صاحب سندھ کی متواتر تباہ ہوتی حکومتی ساکھ کو بچانے کی بجائے سیاسی بساط پرنت نئی چالیں بچھاتے رہے۔ ایسا کرتے ہوئے انہوں نے نہ پارٹی کے شاندار ماضی کو مدنظر رکھا اور نہ ہی عوامی نبض پڑھنے کی کوشش کی۔ پیپلز پارٹی کا کلچر قید و بند کی صعوبتوں سے بھرا پڑا ہے، اگر آج ڈاکٹر عاصم جیسے چند نان پارٹی فگرز کو کچھ عرصہ حراست میں گذارنا پڑ رہا ہے تو پوری پارٹی کی ساکھ داؤ پر لگانے سے کیا حاصل ہوگا ؟
یہ پیپلز پارٹی کی خوش نصیبی ہے عمران خان کی اڑان فی الوقت تھمی ہوئی ہے۔ ماضی قریب میں عمران خان پر ایک لمحہ ایسا آیا تھا جب وہ پنجاب ،خیبر پختونخوا کی حد تک پیپلز پارٹی کو ہائی جیک کر سکتے تھے۔ لیکن وہ لمحہ نکل گیا۔ عمران خان کو جوں جوں عروج نصیب ہوا وہ عوامی رابطہ مہم اور گلیوں،محلوں میں گھلنے ملنے سے اجتناب برتنے لگے۔ یہ وہ وقت تھا جب آصف علی زرداری حسب معمول نادیدہ دشمنوں سے ’’نمٹنے‘‘ کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے، جبکہ ان کے پرانے رفیق کار اس لاحاصل جنگ میں کودنے کی بجائے عمران خان کا لشکری بننے کی سوچ رہے تھے۔ تاہم آج یہ اپروچ کچھ حد تک کم ہوچکی ہے۔کم ہوتی مقبولیت تحریک انصاف کے لئے خوفناک سوال کی صورت سامنے آچکی ہے۔
اب آصف علی زرداری کو اس موقع سے کیا فائدہ اٹھانا چاہئے؟۔ ان کے سامنے دو راستے ہیں، یا تو وہ روایتی ’’فائٹنگ اپروچ،، کا مظاہرہ کریں اور نتیجے کے طور پر ایک نحیف و نزار پیپلز پارٹی کا بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری بھی قبول کریں اور یا وہ اس راستے کو اپنائیں جس پر شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بی بی شہید نے سفر کیا۔ اس سفر سے مراد مقام شہادت ہرگز نہیں بلکہ اس وسیع تنظیمی نیٹ ورک کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہونا ہے جو شہداء کے خون سے سینچا گیا۔ یہ نیٹ ورک ہی پیپلز پارٹی کا سب سے بڑا اثاثہ ہے۔ آصف علی زرداری فی الحال اسٹیبلشمنٹ، عمران خان اور دوستوں کے جھرمٹ کو وقتی طور پر بھول جائیں۔ بحیثیت سیاسی قائد ان کی پرائم ذمہ داری اس نیٹ ورک کی حفاظت ہے جو پیپلز پارٹی کے سینئر اکابرین کی طرف سے انہیں امانتا سونپا گیا۔ انہیں کوئی کچھ نہیں کہے گا اور نہ ہی کوئی ان کے پیچھے لگا ہوا ہے۔ سارے مصنوعی خوف کے بادل ہیں جنہیں جدید میڈیا تکنیک کے ذریعے زرداری صاحب کے آسمان قلب پر چھڑکا گیا۔
عالمی سطح پر نمودار ہوتی تبدیلیوں اور عمران خان کی مسلسل حماقتوں کی بدولت پیپلز پارٹی مستقبل میں ایک بار پھر فیصلہ کن طاقتوں کی چوائس ہوسکتی ہے۔زرداری صاحب نے ہیلری اور ٹرمپ دونوں کے کیمپس میں حاضری بھی لگوائی۔ نتیجتاً ہیلری کو بلاول بھٹو میں بی بی شہید کی جھلک بھی نظر آنے لگی۔شائد زرداری صاحب کو بھرپور پیغام مل چکا ہے آپ کا عرصہ گذر چکا اب بلاول کو آگے لایا جائے۔یہاں یہ سوچنا بے حد ضروری ہے کہ کیا ایک نئے این آر او کی بھی تیاریاں ہو رہی ہیں؟۔
اگر بلاول پنجاب میں پیپلز پارٹی کو نئے سرے سے زندہ کرنا چاہتے ہیں تو گلیوں،محلوں کے سنگم پر پرائمری یونٹس کے عہدیداروں کی ہمراہی میں خطابات، میل ملاقات کا طویل سلسلہ شروع کرنا پڑے گا۔ موجودہ حالات میں پیپلز پارٹی کے پاس اس کے سواء کوئی آپشن بھی نہیں۔ کیاشہید ذوالفقار علی بھٹو گلیوں، محلوں میں پنچائتیں جما کر نہیں بیٹھے، کیا انہوں نے مقامی چائے خانوں اور تنگ مکانوں میں کارکنوں کے ہمراہ کھانے نہیں کھائے؟۔ کیا بی بی شہید نے ٹوٹی پھوٹی گلیوں کے پیدل دورے نہیں کئے؟۔ کیا نصرت بھٹو پنجاب کے غریب کارکنوں کی شادیوں میں شریک نہیں ہوتی رہیں۔ ایسا سب کچھ ہوا اور انہی عوامل کی بدولت پیپلز پارٹی غریب پرور پارٹی بھی کہلوائی۔
پیپلز پارٹی کے احیاء کیلئے بلاول بھٹو کو نئے سرے سے خود کو متعارف کروانا پڑے گا۔ پارٹی قیادت مسلسل اس معاملے میں شدید کوتاہی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ کارکن اور لیڈر شپ میں دوری سیاسی موت کا دوسرا نام ہے۔پیپلزپارٹی کے پاس کارکن بھی ہیں،دفاتر بھی اور تنظیمی نیٹ ورک بھی لیکن بدقسمتی سے انہیں متحرک کرنے والا کوئی نہیں۔ ایک اور کوتاہی جس کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی وہ بلاول بھٹو کی تقریر کا انداز ہے۔ اتنی بڑی پارٹی کو اپنا چیئرمین کسی صورت میں اس وقت تک مرکزی سٹیج پر نہیں لانا چاہئے تھا جب تک کہ اسے الفاظ و خیال پر عبور حاصل نہ ہو جاتا۔ ایک طرف مسلم لیگ کے گھن گرج کرتے شریف برادران، دوسری طرف چھتیں اڑاتے عمران خان اور تیسری طرف گل خان کی طرح اردو بولتے بلاول بھٹو۔
عمران خان کی گرتی ہوئی ساکھ پیپلز پارٹی کے لئے نئی زندگی کی مانند ہے۔ عمران خان مضافاتی علاقوں میں مسلم لیگ(ن) کے مقابلے میں دھڑا تشکیل دینے میں بدستور دقت محسوس کر رہے ہیں۔ یہ دھڑا پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی صورت بدستور بلاول کے لئے انعام کی سی صورت رکھتا ہے۔ لیکن اس دھڑے کو متحرک کرنے سے قبل بلاول کو چند معاملات پر واضح لائحہ عمل اپنانا ہوگا۔ مثلا لوگ سندھ کے طرز حکمرانی سے نالاں ہیں۔ لوگ مسائل کے حل کی بجائے نوازنے اور بچانے کی پالیسی سے ناراض ہیں۔ لوگ اس جماعت کو کیونکر ووٹ دیں گے جسے چلانے والے انہیں ملنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ بلاول آگے بڑھیں۔ اپنی دوستی کارکنوں کے لئے مختص کر یں۔ انہیں بلائیں،پاس جائیں، غمی خوشی میں شریک ہوں تو واضح امکانات ہیں پیپلز پارٹی دوبارہ ابھر سکتی ہے۔
پنجاب میں ہزاروں کارکن اپنی لیڈر شپ کے منتظر ہیں۔ ڈھلوان کا سفر پارٹی قائدین نے خود چنا تھا۔ اگر یہ سفر اسی طرح جاری رہا تو پیپلز پارٹی بہت جلد اندرون سندھ کے چند علاقوں تک محدود ہوسکتی ہے۔ اب یا تو اس عمل کو وقوع پذیر ہوتا دیکھ لیں یا حقیقی ہیرو کی مانند پہلے سے موجود نیٹ ورک کو انقلابی بنیادوں پر متحرک کر لیں۔اگر عوامی رابطہ مہم شروع ہو تو بنیادی ایجنڈا وہ مسائل ہونے چاہئیں جن پر نہ تو مسلم لیگ (ن) توجہ دے رہی ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کی توجہ ہے۔مسلم لیگ( ن) بدستور بنیادی تبدیلیوں کو متعارف کروانے سے اجتناب برت رہی ہے۔ عمران خان جوش خطابت میں کہہ تو بہت کچھ دیتے ہیں مگر ان کے قریبی ساتھی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقلی کی مسلسل مخالفت کر رہے ہیں۔اگر بلاول بھٹو ان دونوں جماعتوں سے مایوس ہوتے لوگوں کی توجہ چاہتے ہیں تو ان بنیادی تبدیلیوں کے نعرے کے ساتھ باہر نکلیں جنہیں سننے کو لوگوں کے کان ترس گئے۔ ماضی کی پیپلز پارٹی میں یہ صلاحیت موجود تھی کہ اس نے روٹی،کپڑے اور مکان جیسے نعرے کے ساتھ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی۔ سسٹم سے ٹکر ائی۔اب دیکھتے ہیں بلاول کی قیادت میں کون سا ایسا منشور پیش کیا جاتا ہے جو جدید زمانوں سے ہم آہنگ ہو۔ بلاشبہ پنجاب میں تقریباً دم توڑتی پارٹی کا نیا جنم جان جوکھوں کا کام ہو گا،کیونکہ بلاول کو سنٹرل پنجاب میں ویلکم کہنے کے لئے شائد چند سو کارکن ہی میسر آ سکیں۔ کہاں وہ وقت جب ان علاقوں سے لاکھوں افراد بسوں، ٹرکوں، گاڑیوں، موٹر سائیکلوں پر سوار ہوکر بی بی شہید کے استقبال کو نکلتے تھے اور کہاں یہ وقت کہ کارکنوں کی صحیح رونق دکھائی نہیں دیتی۔ پارٹی کارکنوں کو نجانے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔