قرآن کریم میں اللہ رب العزت انسان کی تخلیق کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ انسان وجن کو صرف عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے اور دعا کو حدیث مبارکہ میں عبادت کا مغز کہا گیا ہے۔ (سنن ترمذی) دعا ایک الگ سے مستقل عبادت بھی ہے اس کے کرنے پہ اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں اور نہ کرنے پہ ناراض ہوتے ہیں، اسی کے ساتھ نبی کریم ؐ فرماتے ہیں کہ جو آدمی اللہ تعالیٰ سے نہیں مانگتا اللہ تعالیٰ اس سے نا خوش ہوتا ہے۔(مسند احمد)ورنہ دنیا کا اصول ہے کہ جس سے مانگا جائے وہ ایک دو مرتبہ کے بعد ناراض ہونے لگتا ہے یا کنارہ کشی کرنے لگتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے جس قدر مانگا جائے اللہ تعالیٰ اس سے بہت زیادہ خوش ہوتے ہیں۔
دعا عبودیت کی علامت ہے۔ اس کے وسیلے سے بندہ اللہ کی توجہ طلب کرتا اور اس سے مدد اور رحمت حاصل کرتا ہے۔ اس کے ذریعے وہ اپنی حاجت کی درخواست اور بے بسی کا اظہار کرتا ہے۔ غیر اللہ کی طاقت و قوت سے براء ت کا اظہار کرتا ہے۔ چنانچہ ہمیں قرآن مجید کے آغاز میں بھی دعا ملے گی اور اختتام میں بھی دعا ملے گی۔ سورہئ فاتحہ میں بندہ اللہ تعالیٰ کی تعریف کے ساتھ اس کے سامنے اپنی درخواست پیش کرتا ہے۔ اسی طرح معوذتین میں بھی وہ اللہ کی پناہ طلب کرتا ہے۔
دعا کا شمار بھی ان چند عبادات میں ہوتا ہے جن کے کرنے کا اللہ رب العزت نے حکم دیا ہے، اللہ رب العزت ارشاد فرماتے ہیں: ”تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا بیشک وہ جو میری عبادت سے اونچے کھنچتے(تکبر کرتے) ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ذلیل ہوکر“(سورۃ المومن: 60)۔اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے واضح الفاظ میں حکم ارشاد فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا کرو مجھ ہی سے مانگو اور نہ مانگنے والوں کے لیے وعید کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا کا درجہ بہت زیادہ ہے۔دعااللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام چیزوں سے بہتر ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا: کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے نزدیک دعا سے بہتر نہیں ہے۔ (ابن ماجہ) اسی طرح ایک روایت میں نبی کریمؐ نے فرمایا: دعا عبادت کا مغز ہے۔ (سنن ترمذی) جو دعائیں اللہ تعالیٰ سے یقین کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ مانگی جائیں گی ان دعاوؤں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ قضاء کو بھی بدل دیتی ہیں، نبی کریمؐ نے فرمایا: تقدیر کو دعا ہی پھیر سکتی ہے۔(سنن ترمذی)اور فرمایا کہ تمہارا ربہت ہی حیا وکرم والا ہے، جب کوئی بندہ دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے اور مانگتا ہے تو اس کو خالی ہاتھ واپس کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔(سنن ابوداؤد)
انسان جب بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے وہ ہی چیز دے یہ ضروری نہیں ہوتا بلکہ ملتا وہ ہے جو اس کے لیے مناسب اور بہتر ہوتا ہے ورنہ وہ دعا آخرت کے لیے ذخیرہ ہو جاتی ہے۔ نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا: ”جو اللہ سے سوال کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ان تین چیزوں میں سے ایک ضرور دیتا ہے، (۱) وہ ہی چیز دیتا ہے جو انسان مانگتا ہے، (۲) یا اس کے لیے آخرت میں ذخیرہ کر لیتا ہے،(۳)یا اس کے ذریعے سے اس پر آنے والی کوئی مصیبت دور کر دیتا ہے“۔ (مسند احمد)
ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ دعا کرے اور قبول ہو، مطلوبہ چیز اسے حاصل ہو جائے، اللہ تعالیٰ دعا سے خوش بھی ہوتے ہیں جو بھی مانگتا ہے اسے دیتے بھی ہیں، لیکن یہ سب اسی وقت ہو گا جب انسان دعا کے آداب وشرائط کو مد نظر رکھ کر اس کی پوری پوری پابندی کرے، ورنہ قبولیت کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ دعا کرنے والا بیمار کی طرح ہوتا ہے، بیمار اگر تندرستی چاہتا ہے تو اس کے لیے دواؤں کے ساتھ پرہیز کرنا اور نقصان دینے والی چیزوں سے بچنا بھی ضروری ہے، اگر دوا کھاتا رہا اور پرہیز نہ کیا تو صحت یابی مشکل ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر کوئی دعا کرنے والا چاہتا ہے کہ میری دعا قبول ہو تو اس کے لیے دعامانگنے کی شرائط کو پورا کرنا اور آداب کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے۔
دعا کرنے کے چند آداب وشرائط کو ذہن نشین کر لیں تا کہ جب بھی آپ دعا کریں تو یہ ذہن میں ہوں گے تو ان شاء اللہ دعا کے جلد قبول ہونے کے امکانات زیادہ ہوں گے، دعا کرنے والا ان پر ضرور عمل کرے تا کہ اس کی کوششیں کامیاب ہوں:
1) انسان کا ایمان کامل کے ساتھ اخلاص بھی ضروری ہے، یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی کا خیال دل ودماغ اور زبان پر ہو غیر کا خیال بالکل نہ ہو، کیونکہ بلا اخلاص کے کوئی عمل قبول نہیں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ”اللہ تعالیٰ کو اخلاص سے پکارو اور دعا کرو“۔(سورۃ المومن:65)
2) کھانا،پہننا وغیرہ سب کچھ حلال ہو اس میں حرام کا شیبہ بھی نہ ہو، اگر حرام کی آمیزش ہو گی تو دعا قبول نہیں ہو گی۔ حدیث میں رسول اللہؐ فرماتے ہیں: ”ایک شخص جو طویل سفر کرتا ہے، جس کے بال بکھرے ہوئے اور بدن غبار آلود ہے (یعنی اس کی حالت ایسی ہے کہ جو دعا کرے وہ قبول ہو)اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یارب! یارب! کہتا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام، غذا حرام، پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی“۔ (صحیح مسلم)
3) دعا کرنے والا جھوٹ بولنے، مکر وفریب کرنے، قمار بازی، شراب نوشی، حسد، تکبر، کینہ، غیبت وچغلی وغیرہ گناہ کرنے سے بچے، کیونکہ یہ سب گناہ کبیرہ ہیں اور قرآن وحدیث میں ان کی بہت برائی بیان کی گئی ہے۔
چند آداب جو دعا کرنے والے کے لیے ضروری ہیں:
1) عاجزی وانکساری اور خشوع وخضوع کے ساتھ دعا کرے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں خود یہ آداب سکھاتا ہے کہ ”ادعوا ربکم تضرعا“ اپنے رب کو گڑگڑا کر پکارو۔ اور یہ یقین رکھو کہ میرا رب میری بات کو سنتا بھی ہے اور مجھے دیکھتا بھی ہے وہ میرے سامنے موجود ہے اور وہ ایسی ذات ہے کہ مانگنے والوں کو ضرور دیتا ہے۔
2)دعاؤں میں اپنے گناہوں کا اقرار کیجیے اور اس بات سے توبہ کیجیے کہ آئندہ ہر گز ایسا کام نہیں کریں گے۔ حدیث میں مذکور دعاؤں میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ پہلے اپنے گناہوں کا اعتراف کرے پھر اللہ تعالیٰ سے توبہ کر کے دعا مانگے۔ حدیث شریف میں آتا ہے:(ظلمت نفسی واعترفت بذنبی)میں نے اپنے نفس پہ ظلم کیا اور اپنے گناہوں کا اقرار کیا۔(صحیح مسلم)
3) اپنے نیک کاموں کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو، جیسے نبی کریمؐ نے تین آدمیوں کا قصہ بیان کیا کہ تین آدمی دوران سفر میں بارش کی وجہ سے پہاڑ کے ایک غار میں پناہ کے لیے گئے۔ ایک چٹان گرنے کی وجہ سے غار کا منہ بند ہو گیا۔ ہر ایک نے اپنے نیک اعمال کا واسطہ دے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی پروردگار نے ان کو مصیبت سے نجات دی۔ (صحیح بخاری)
4) اللہ تعالیٰ سے مانگنے سے پہلے وضو کر لیں، نبی کریم ؐ نے بھی ابو عامر کے لیے دعائے مغفرت وضو کر کے کی تھی۔(صحیح بخاری)
5)دعا کرتے وقت منہ قبلہ کی طرف کیجیے کیونکہ شریعت نے نماز کا رخ اسی کو بنایا ہے اور رسول اللہ ؐ بھی دعا کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کرتے تھے جیسا کہ جنگ بدر اور استسقاء میں کیا تھا۔ (صحیح بخاری)
6)دعا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعریف کیجیے، پھر رسول اللہ ؐ پر درود بھیجیے، پھر دعا کریں اور اللہ کی تعریف اور نبی کریم ؐ پر درود کے ساتھ ختم کیجیے، دعا سے پہلے اور بعد میں حمد وصلوٰۃ ہونا چاہیے۔ رسول اکرمؐ فرماتے ہیں: جب کوئی دعا کرے تو پہلے حمد وثناء کرے پھر آپؐ پر درود بھیجیے اور پھر جو چاہے دعا مانگے۔ (سنن ترمذی)
7) دونوں ہاتھ کشادہ کر کے چہرے اور دونوں کندھوں کے برابر اٹھائے، رسول اللہ ؐ اسی طرح اٹھاتے تھے اور فرماتے تھے کہ: اللہ تعالیٰ کے سامنے جب کوئی ہاتھ اٹھا کر دعا کرتا ہے تو خالی ہاتھ واپس کرتے ہوئے اسے شرم آتی ہے۔ (سنن ابو داؤد)
8) دعا کے الفاظ کو دو دو تین تین بار پڑھیں، نبی کریم ؐ تین بار دعا فرماتے تھے۔
9)دعا میں جلدی نہیں کرنی چاہیے، جب تک دعا قبول نہ ہو کرتے رہنا چاہیے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اتنے دنوں سے دعا کر رہا ہوں قبول نہیں ہوتی۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ”تمہاری دعا قبول کی جاتی ہے جب تک کہ جلدی نہ کرو اور جلدی یہ ہے کہ کہے جی میں دعا کرتا ہوں قبول نہیں ہوتی“۔ (صحیح بخاری)
10)دعا کو آمین اور حمد وثناء پر ختم کرنا چاہیے۔
دعا کرنا اور اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہر انسان کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی خالق ورازق نہیں ہے وہ ہی ایک ذات ہے جو بغیر کسی استحقاق کے ہمیں وافر مقدار میں رزق اور دیگر ضرورت کی اشیاء مہیا کرتی ہے۔ لہٰذا جب مانگنا اسی سے ہے اور دینا بھی اسی نے ہے تو ہمیں چاہیے کہ اس طریقہ سے مانگیں جو طریقہ نبی کریمؐ نے ہمیں بتایا ہے اور ان شرائط اور آداب کا خیال رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے التجا کریں۔آج ہم مسلمانوں کو دعا کی اہمیت و فضیلت معلوم ہی نہیں۔ اللہ ہمیں اس کی اہمیت کو جاننے کی توفیق دے اور اپنے رب سے بار بار اور خوب مانگنے والے بن جائیں۔ اللہ کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں وہ ہمیں اپنے خزانوں سے لینے والا بنادے۔ آمین!
٭٭٭