شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 16

Jan 30, 2018 | 01:55 PM

جیسے جیسے وقت گزر تا جاتا،ویسے ویسے میرے ساتھی اور گاؤں کے لوگ میری طرف سے بد گمان ہوتے جارہے تھے۔لیکن مجھے نمعلوم کیوں یقین کامل تھا کہ اس بلا کے فنا ہونے کے دن قریب ہیں ۔اس کی تبا ہ کاری کو طویل عرصہ گزر چکا تھااور اب اس کے کمال کو زوال آنا لازمی تھا۔
ایک روز میں کوئی دس بجے کے قریب عبدالرحیم کو ساتھ لے کر جنگل کی طرف چلا ۔عبدالرحیم میری تھرٹی اسپرنگ فیلڈ اور اپنی بارہ بور کی بھری ہوئی بندوق لیے ہوئے تھا ۔میرے شانے پر حسب معمول چارسو پچاس بور کی رائفل تھی ۔ہم لوگ کھیتوں سے گزر کرنالہ پار کرکے پہاڑ پر چڑھ گئے اور دوسری طرف وادی میں اتر کر ابھی کچھ ہی دور چلے تھے کہ گاؤں کی طرف سے باگھ باگھ کی سہمی اور گھبرائی ہوئی آوازیں سنائی دیں ۔میں ٹھٹک گیا۔یہ بڑی تعجب خیز بات تھی ۔شیر گاؤں میں کیسے پہنچا؟

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 15 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میں فوراًواپس ہوا۔اور ابھی پہاڑ پر سے اتر ہی رہا تھا کہ گاؤں کی طرف سے دو تین جو ان بھاگتے ہوئے آئے اور بولے کہ شیر ایک عورت کو پکڑ کر سامنے والی پہاڑی پر چڑھ گیاہے۔یہ حیران کن بات تھی کہ اتنی اونچائی پر وہ عورت کو کیسے اٹھا کر لے گیا جبکہ وہ زخمی بھی تھا۔یہ پہاڑی گاؤں سے بمشکل میل دور ہوگی۔اور میں اس وقت دو ڈھائی میل پر تھا ۔بہر حال میں فوراًاسی طرف چلا۔اور پندرہ بیس منٹ میں ہی اس پہاڑی کے دامن میں آپہنچا،جس پر شیر چڑھا تھا۔میرے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی گاؤں والوں نے عورت کے کپڑوں کی دھجیوں اور خون کے نشانات سے شیر کے اس مقام تک آنے کا پتہ لگا لیا تھا۔یہاں پر ایک گہرا پہاڑی نالہ تھاجو اس زمانے میں خشک تھا اور شیر لاش لے کر نالہ پار کرکے پہاڑ کی طرف گیا تھا ۔لیکن اچانک خیال آیا کہ پہاڑ پر جانے کے بجائے شیر اسی نالے کے اندر موجود نہ ہو۔کچھ گاؤں والوں کا بھی یہ خیال تھا۔اسی وجہ سے کسی نے نالے میں اتر نے کی ہمت نہیں کی تھی ۔نالے کے دونوں کنارے عمودی تھے اور جابجا چٹانیں نالے کے اندر جھکیں ہوئی تھیں ۔
گاؤں والوں کو میں نے اس مقام پر ہی ٹھہرنے کا حکم دیا۔مسعود اور محمود بھی ان کے ساتھ آگئے تھے۔اُن کو اُن لوگوں کی نگرانی اور انتظام پر مامور کیا اور خود عبدالرحیم اور دلاور کو ساتھ لے کر نالے کے کنارے کنارے آگے بڑھتے گیا ۔ہم لوگ کچھ دور چل کر ٹھہر جاتے اور بغور کسی آواز یا نشان کی جستجو کرتے اور پھر آگے روانہ ہوجاتے ۔ابھی ہم بمشکل کوئی نصف میل گئے ہوں گے کہ ایک آواز پر میں ٹھٹک گیا۔یہ میرے لئے انتہائی خوفناک اور شرمناک بات تھی ۔میرے لئے ڈوب مرنے کا مقام تھا کہ اتنے دنوں میں آدم خور کو نہ مارسکا جو ناتواں عورتوں کا گوشت کھانے کا رسیا ہوگیا تھا ۔
چند ہی سیکنڈ بعد آواز پھر آئی ۔۔۔یہ ہڈی چبانے اور توڑنے کی آواز تھی اور نالے کے اندرسے ہی آئی تھی۔۔۔اس کا مطلب یہ تھا کہ شیر نالے کے اندرہے اور لاش کو کھا رہا ہے۔
ہڈی توڑنے کی یہ آواز چند لمحوں کے وقفے سے کئی دفعہ آئی اور نہ صرف میں نے ہی سنی بلکہ عبدالرحیم اور دلاور کو بھی سنا ئی دی۔
ہم لوگ فوراًگاؤں والوں کے پاس پہنچے ۔اس وقت تک وہاں بے شمار لوگ جمع ہو چکے تھے ۔لیکن سب خاموش اور پُرسکون تھے۔فوراًطے ہوا کہ ہانکا کیا جائے اور ہانکے کا رخ نالے سے پہاڑکی طرف ہو۔میں نے اپنے بارے میں فیصلہ کیا کہ میں آگے بڑھ کر کسی درخت پر چڑھ کر بیٹھ جاؤں ۔ان تمام فیصلوں پر فوراً عملدرآمد کیا گیا۔اسٹاپ مقرر کیے گئے ۔ہانکے کی قطار مرتب کی گئی اور میں عبدالرحیم اور دلاور کو ساتھ لے کر تیز تیز چلتا نالہ پار کر کے آگے بڑھ گیا ۔میرا رُخ پہاڑ کی طرف تھا۔
اس تمام انتظام میں بمشکل پندرہ منٹ صرف ہوئے ہوں گے ۔ہانکے والوں نے بڑے نظم و ضبط کا ثبوت دیا۔وہ لوگ چپ چاپ میرے اشارے کا انتظام کرنے لگے ۔طے یہ تھا کہ میں مناسب جگہ بیٹھنے کے بعد رومال ہلاؤں گا۔درخت پر بیٹھا ہوا ایک شخص اس اشارے پر فاختہ کی بولی بولے گا اور اسی آواز سے یہ اشارہ ہانکے والوں تک پہنچا دیا جائے گا۔
اتفاق سے پہاڑ کے دامن میں کوئی ایسا درخت نظر نہ آیا ۔جس پر میں اور میرے دونوں ساتھی چڑھ کر بہ اطمینان بیٹھ سکیں ۔لہٰذامیں نے زمین پر ہی ایک درخت اور جھاڑی کی آڑ میں اپنے بیٹھنے کے لیے جگہ تجویز کی ۔اورچند شاخیں توڑ کر سامنے ایک عارضی ٹٹی بنالی۔ہانکے کے شروع ہونے میں اب کوئی دیر نہ تھی۔میں ٹٹی کو درست کر رہا تھا ۔میری بڑی رائفل دلاور کے ہاتھ میں تھی ۔اچانک ہانکے والوں کی قطار کی طرف سے شور بلند ہوا۔شیر کو دھت دھت کرکے بھگانے کی خوفزدہ آوازیں اور پھر فوراًہی شیر کی زبردست بھبکی کی آواز آئی۔میں نے ٹٹی چھوڑ کر دلاور کے ہاتھ سے رائفل لی اور گھوڑے چڑھا دیے۔ان آوازوں کے ساتھ ہی ہانکے والوں نے جواب تک اشارے کے انتظار میں خاموش کھڑے تھے ۔اشارہ ملے بغیرہی پوری قوت سے چیخناشروع کردیا۔
میں مسلسل اسی جانب دیکھ رہا تھا،جدھر سے آواز آئی تھی اور جو قیاساًمجھ سے کوئی پانچ چھ سو گز کے فاصلے پر ہوگی۔ہرلحظ یہی امید تھی کہ اب شیر سامنے آیا ۔ذرا ہی دیر گزر ی تھی کہ ہانکے کی لائن آگے بڑھنے لگی اور شوروغل میں مزیدقوت پیدا ہوگئی۔اب میں نے نالے کی طرف نال کرکے رائفل شانے سے لگالی اور فائر کے لیے بالکل تیا ہوگیا۔
شاید اس حالت میں دو چار لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ عبدالرحیم نے میرے شانے پر ہاتھ رکھ کر ٹھیک نوے ڈگری پر دائیں طرف اشارہ کیا ۔میں فوراًاُدھر گھوم گیا۔اور غور سے اس طر ف دیکھا ،لیکن کچھ نظر نہ آیا ۔اس پر عبدالرحیم نے کسی قدر گھبر اکر کہا’’صاحب!سامنے کی گھاس ہلتی ہوئی نظر آئی تھی‘‘۔
میں نے سوچا ،اگر گھاس ہلتی نظر آ ئی تب بھی اس گھاس میں شیر تو نہیں ہو سکتا ۔کیونکہ ہانکے والے اس مقام سے چار پانچ سو گز کے فاصلہ پر تھے اور شیر کی آواز نالے میں سے آئی تھی ۔یہ گھاس نالے سے دور اور آواز کے مقام سے دہنی جانب ہٹ کر تھی ۔شیر کے ادھر آجانے کا کوئی امکان نہیں تھا۔پھر بھی میں نے ذرا دیر گھاس پر نظر رکھی۔
دس بارہ سیکنڈ ہی گزرے ہوں گے کہ مجھے گھاس ہلتی اور ہٹتی نظر آئی ۔اس متحرک گھاس کا فاصلہ مجھ سے کوئی سو گز ہوگا۔ابھی میں فاصلے کا اندازہ ہی کر رہا تھا کہ گھاس پھر متحرک ہوئی اور جب یہ حرکت ٹھہری تو مجھے ایسا معلوم ہوا جیسے میں نے چشم زدن سے بھی کم عرصے کے لیے کوئی میلی زردیا سفیدسی چیز دیکھی جو ایک دم غائب ہوگئی۔میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا تھا ۔بہر حال تقریباًدو لمحے بعد میں نے پھر اُسی شے کو گھاس اور جھاڑیوں میں حرکت کرتے دیکھااور کسی تائیدِ غیبی کے تحت اس مقام کا نشانہ لے لیا۔اس وقت میری پوری توجہ اسی حرکت کرتی ہوئی شے کی طرف تھی ۔(جاری ہے )

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 17 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں