لاہور، ہسپتالوں اور ریستورانوں میں یکساں رش! 

Jul 30, 2024

مختار چودھری

کسی اور موضوع پر کالم لکھ چکا تھا کہ حکم ہوا کہ آج اتوار ہے اور ہم لاہور میں بھی ہیں تو لاہوری ناشتے سے محروم کیوں رہیں؟ فیملی لے کر اپنی سوسائٹی کی ناشتے کے لئے مشہور جگہوں کا رخ کیا تو پھر میرے کالم کا موضوع بھی بدل گیا، پیٹ بھر کر ایک پارک میں آ بیٹھا اور نیا کالم لکھ مارا ہے۔

اس خاکسار نے بیسیوں بار یہ مشاہدہ کیا ہے کہ لاہور میں جدھر دیکھیں گندے ترین ریستورانوں پر لوگوں کا بے ہنگم رش لگا ہوتا ہے،بالخصوص اتوار کے دن تو انتہا ہو جاتی ہے، ریستورانوں کے اندر بیٹھے کے لئے لوگ بمعہ فیملیاں لمبا انتظار کرتے ہیں اور کھانا گھروں میں لے جانے والوں کی الگ قطار لگی ہوتی ہے۔ یہاں ہمارے لوگوں میں ایک ایسی سوچ ہے کہ ایک بار کہیں سے سن لیتے ہیں کہ فلاں کے چنے بہت مزے کے ہیں تو پھر سارے اسی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور جب کسی جگہ رش لگ جائے تو پھر ہر بندہ ادھر ہی کا رخ کرتا ہے۔ ہمارے عوام کی یہ ایک مخصوص سوچ ہے کہ جدھر رش دیکھتے ہیں اسی طرف ہو جاتے ہیں اس سوچ کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان جس وقت کرکٹ کی دنیا کا بے تاج بادشاہ تھا فلاحی کام بھی کر رہا تھا اسی دور میں جب اس نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو لگتا تھا کہ لوگ دیوانہ وار اس کی طرف جائیں گے، لیکن جب انتخابات ہوئے تو وہ ایک سیٹ بھی نہ لے سکا پھر اس کی 22سالہ جدوجہد بھی رائیگاں رہی، لیکن جب استادوں نے اس کا ایک جلسہ کامیاب کروا دیا تو اس کے بعد رش لگ گیا اور اب استاد بھی زور لگا چکے ہیں کہ اس طرف رش کم ہو جائے، لیکن لوگ ہیں کہ ان کی محبت میں بڑھتے ہی جا رہے ہیں اسی طرح مذہبی جماعتوں کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے،لیکن ہم بات کر رہے تھے لاہور کے ریستورانوں کی لاہوریے کھانے کے لئے مشہور تو ہیں لیکن کھانا کیا ہے، صحت کے لئے کونسی غذا اچھی ہوتی ہے، صفائی کی اہمیت کیا ہے ان چیزوں سے نابلد لگتے ہیں بس انہیں کھابے چاہئیں۔

جو چیزیں میرے مشاہدے میں آئی ہیں وہ یہ کہ کسی بھی ریستوران پر جہاں رش ہوتا ہے وہاں صفائی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، کیونکہ جہاں دس لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش ہو وہاں پچاس بندے بیٹھیں گے تو پھر صفائی رکھنا ممکن ہی نہیں ہو سکے گا، جو لوگ ناشتہ یا کھانا گھروں کو لے کر جاتے ہیں ان سب کو گرم سالن مومی لفافوں میں ڈال کر دیا جاتا ہے اسی طرح نان اور روٹیاں گندے کاغذات یا وہ بھی مومی لفافوں میں دبا کر دے دی جاتی ہیں، حیرانی کی بات یہ ہے کہ لفافوں میں کھانے لینے والوں کی اکثریت پڑھے لکھے اور خوشحال لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے، لیکن انہیں یہ علم ہی نہیں کہ پلاسٹک میں گرم چیز ڈال کر کھانے سے کینسر ہونے کے کتنے چانسز ہوتے ہیں کینسر کے علاوہ معدے کی کئی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔

وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز نے پلاسٹک کے شاپر بیگز پر پابندی لگا رکھی ہے جس کا اطلاق جون سے ہو چکا ہے، لیکن ابھی تک کسی بھی ریسٹورنٹ پر یہ اطلاق نہیں ہوا ہے۔ میں نے خود ایک ریسٹورنٹ والے سے پوچھا کہ وزیراعلیٰ کے حکم کے مطابق تو یہ پلاسٹک بیگز استعمال نہیں ہو سکتے پھر آپ کیوں کر رہے ہیں تو اس نے تمسخرانہ انداز میں جواب دیا ”چھڈو جی وزیراعلیٰ کو کون پوچھتا ہے؟“

ہمارے ہاں صفائی کی سوچ ہی نہیں ہے نہ ذہن صاف نہ جسم صاف، ہم نے آب و ہوا صاف رہنے دی ہے نہ اپنی گلیوں سڑکوں کو صاف چھوڑا ہے. ہمارے گٹر، مین ہول کھلے رہتے ہیں اور لاہور کا بڑا گندہ نالہ پورے شہر کے بیچوں بیچ دندناتا پھرتا ہے ہم نے گندے نالے کو اپنے ایڈریس بتانے کے لئے رکھا ہوا ہے کہ گندے نالے کی اس طرف ہمارا گھر یا دکان ہے۔

جب صفائی کی یہ صورتحال ہو تو پھر ہمارے ہسپتالوں میں رش کیوں نہ ہو؟آپ لاہور کے کسی بھی نجی ہسپتال میں چلے جائیں وہاں لوگوں کا رش لگا ہوگا، سرکاری ہسپتالوں کا تو ذکر بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ سرکاری ہسپتالوں کا نام لینے سے خوف آتا ہے کہ کہیں نام لیتے ہی ہم بیمار نہ ہو جائیں، اگر درست سوچا جائے تو اس دنیا میں صحت سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہے۔ آپ کوئی بھی کام کرتے ہیں تو اس میں صحت کا کردار اہم ہوتا ہے، لیکن ہمارے لوگ صحت کی قدر کرتے ہیں نہ اہمیت دیتے ہیں۔

اور یہ بات طے ہے کہ جب تک گندے ریستورانوں پر لوگوں کا رش رہے گا، جب تک گلیوں اور سڑکوں پر گند رہے گا، جب تک ہمارے گٹر کھلے رہیں گے اور جب تک ہماری سوچ سے گند نہیں نکلے گا اس وقت تک ہسپتالوں میں بھی رش لگا رہے گا، ہمارے ملک میں خوشحالی آئے گی نہ ہم ترقی کر سکیں گے، ہمارے تعلیمی اداروں (انگریزی ہوں یا مذہبی) میں بھی صحت و صفائی کا کوئی مضمون نہیں پڑھایا جاتا  نہ ہی مساجد کے خطیبوں نے کبھی صحت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے مسجدوں میں پاکی ناپاکی پر تو بہت بات ہوتی ہے، مگر جسمانی اور روحانی صفائی کا کوئی درس نہیں ہوتا۔

یاد رکھو جن قوموں کے افراد گندے رہتے ہیں، جن کے جسم گندے، کھانا گندہ، آب و ہوا گندی ان کی سوچ بھی پراگندہ ہو جاتی ہے اس حوالے سے ایک بڑا مسئلہ ہماری بے ہنگم بڑھتی آبادی ہے ہم بچے پیدا کرنے میں دنیا کے سرفہرست ممالک میں آتے ہیں، جبکہ بچوں کی تربیت کرنے انہیں تعلیم و ہنر سیکھانے میں دنیا کے آخری ممالک میں ہمارا نام آتا ہے خود سوچئے کہ جس گھر میں پانچ لوگوں کے رہنے کی گنجائش ہو اس گھر میں بیس بندوں کو ٹھونس دیا جائے تو پھر کیا ہوگا؟ وہاں صفائی رکھی جا سکے گی؟ وہاں کھانے کے اصول نہیں کھانے کے حصول کی فکر ہوگی، وہاں کوئی صحت کا نہیں بس جسم و روح کے رشتے کا ہی سوچ سکے گا۔

آخر میں وزیراعلیٰ پنجاب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے پلاسٹک لفافوں کے ختم کرنے کے حکم کی تعمیل کروائیں۔

  

مزیدخبریں