رہی جو زندگی میری تو شہرِ ظلمت میں...
گلی گلی یوں محبت کے خواب بیچوں گا
میں رکھ کے ریڑھی پہ تازہ گلاب بیچوں گا
رہی جو زندگی میری تو شہرِ ظلمت میں
چراغ بیچوں گا اور بے حساب بیچوں گا
مرا اجالوں کا بیوپار بس چمک جائے
فلک پہ بیٹھ کے میں آفتاب بیچوں گا
کشید کر کے قلندر کی مست آنکھوں سے
شرابیوں کو میں " حق کی شراب" بیچوں گا
سنائی دے گا جسے میری روح کا نغمہ
میں ایسے شخص کو دل کا رباب بیچوں گا
لگا کے آگ میں رکھ دوں گا " فکرِ نفرت" کو
کباڑیوں کو میں اس کا نصاب بیچوں گا
میں گردہ بیچ کے چھپواؤں گا اسے واصف
پھر اک "واہ" کے بدلے کتاب بیچوں گا
کلام : جبار واصف