عزمِ پاکستان سے اُڑان پاکستان تک

آٹھ فروری 2024 ءکو پاکستان میں عام انتخابات منعقد ہو ئے ، جس کے بعد ملک میں سیاسی، اقتصادی اور سماجی سطح پر اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ الیکشن سے قبل سیاسی ماحول خاصہ غیر یقینی تھا۔ پاکستانی معیشت شدید بحران کا شکار تھی، روپے کی قدر کمزور، مہنگائی بےقابو، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا میاب یا ناکام کوئی واضح منظر نامہ نہ تھا ۔معیشت کا پہیہ بالکل جام ہوچکا تھا۔ملک میں مقامی اور بین الاقوامی تاجروں کا اعتماد نہ ہونے کے برابرتھا ۔دوسری جانب سب سے بڑامسئلہ فیک نیوز اور پروپگنڈہ کا شکار عوام کا سسٹم پر عدم اعتماد تھا، جسے بحال کرنے کیلئے حکومت کوکم وقت میں بہت زیادہ ڈیلورکرناتھا۔
انتخابی نتائج کے بعد نئی حکومت بنی تو مشکل حالات میں محمد شہباز شریف کے سر پر وزارت عظمی کی پگ باندھی گئی۔جس کے بعد مرد بحران محمد شہباز شریف نے اپنی مضبوط ٹیم بنائی ،اور اپنے قابل اور بااعتماد ساتھیوں کو ٹارگٹ دیئے،اس کے ساتھ ہی ملک کو معاشی ٹریک پر لانے کے لیے بڑے دوررس فیصلے کیے گئے ۔معاشی بحالی کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات کیے گئے، سرمایہ کاری کے فروغ کی کوششیں کیں۔ امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے، عدالتی اور قانونی نظام میں اصلاحات، اور عوامی مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کیے۔ مہنگائی 30-40% تک پہنچ چکی تھی، اسے کنٹرول کیا ،پیٹرول، بجلی اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو عوامی دسترس میں لانے کے اقدامات کیے گئے ۔
شریف برادران کی ایک خاصیت جوانہیں تمام ترسیاستدانوں سے ممتازکرتی ہے کہ نہ صرف مسلم ممالک بلکہ اقوام عالم شریف برادران پربھرپور اعتماد کرتے ہیں اور معیشت کے حوالے سے جب بھی پاکستان پر مشکل وقت آیانہ صرف اسلامی ممالک،دوست ممالک بلکہ اقوام عالم نے اِن کی سربراہی میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔سی پیک منصوبہ میاں محمد نوازشریف اور چینی قیادت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 2024ء کے آغاز تک اِس میگا منصوبے پر بھی کام سست روی کا شکار ہوچکا تھا۔چین کی قیادت بھی پاکستان کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات سے بخوبی واقف تھی۔جونہی وزیر اعظم محمد شہبازشریف نے قلمدان سنبھالا توسب سے پہلے اپنی مضبوط معاشی ٹیم بنائی اور نئے چہرے متعارف کروائے۔
وفاقی وزیر برائے خزانہ محمد اورنگزیب کی قیادت میں معاشی ٹیم کے ہمراہ آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع کئے، جوچند دنوں میں ہی نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ حکومت کے ابتدائی دِنوں کی کامیاب معاشی پالیسی کی بدولت آئی ایم ایف نے بھی پاکستان پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔وزیر اعظم محمد شہبازشریف نے آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کے بعد سب سے پہلے دوست ممالک سعودی عرب،چین،متحدہ عرب امارات کے دورے کئے، وزیر اعظم کے دوروں کا مقصد بھی پاکستان کی ہچکولے کھاتی معیشت کو مضبوط بنانا اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو پاکستان لانا تھا۔سعودی عرب نے ہمیشہ کی طرح پاکستان کابھائی ہونے کا حق اداکیا ۔وزیر اعظم محمد شہبازشریف کے کامیاب دورہ چین میں سی پیک کے اگلے مرحلہ سمیت کئی تجارتی معاہدے ہوئے ،جس کے نتیجے میں گوادرائیرپورٹ سمیت دیگر میگاپراجیکٹس پر بھی کام شروع کیا گیا بلکہ گوادر ائیرپورٹ فنکشنل ہو گیا۔
شہباز شریف نے اقوام متحدہ سمیت دیگر بڑے پلیٹ فارمز پر نائب وزیر اعظم اوروزیرخارجہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں پاکستان کابین الاقوامی پلیٹ فارمز پر موقف پیش کیا۔ مسئلہ کشمیراورفلسطین کی اقوام عالم نے بھرپور تائید کی ۔معاشی اور خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے حکومت نے انتہائی قلیل مدت میں عوام کانہ صرف اعتماد بحال کیا بلکہ وزیر اعظم محمد شہبازشریف اور اِن کی کابینہ کی دِن رات کاوشوں کی بدولت ایس سی اوجیسامیگاایونٹ بھی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں منعقد ہوا، جہاں اقوام عالم نے نہ صرف پاکستان کی بھرپور میزبانی اور کامیاب ایونٹ پر نہ صرف بھرپور پزیرائی کی بلکہ اِسی پلیٹ فارم کی بدولت دیگر ممالک سے بھی نئے تجارتی معاہدے تشکیل پائے۔ آذربائیجان، بیلا روس ،ایران،چین،سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کی قیادتوں نے پاکستان کے کامیاب دورے کئے۔
اگر ملک کے اندورنی معاملات کو دیکھا جائے تو آئی ایم ایف کے مطالبے کے مطابق ’رائٹ سائزنگ‘ کی جس کے نتیجے میں حال ہی میں ڈیڑھ لاکھ وفاقی آسامیوں کو ختم کیں۔ وفاقی حکومت کے ملازمین کے تازہ ترین سالانہ شماریاتی بلیٹن برائے 23-2022 کے مطابق وفاقی حکومت اور اس سے منسلک محکموں اور خود مختار اداروں کی کُل منظور شدہ تعداد 12 لاکھ 39 ہزار 619 سے زائد ہے، لیکن مالی سال 23-2022 تک اس کے ملازمین کی تعداد 9 لاکھ 47 ہزار 610 تھی۔ان میں سے تقریباً آدھے عہدوں کو حال ہی میں ختم کر دیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ 24 ریاستی ملکیتی اداروں کی نجکاری پر کام جاری ہے ۔جن میں قومی ایئر لائن پی آئی اے، روزویلٹ ہوٹل، فرسٹ وومن بینک، یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن اور دیگر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے وفاقی وزارتوں کے 80 اداروں کی تعداد نصف کرکے 40 کی ہے، ان میں سے کچھ اداروں کو ضم کیا گیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی، کامرس ڈویژن، ہاؤسنگ اینڈ ورکس اور نیشنل فوڈ سکیورٹی ریسرچ کے 60 ذیلی اداروں میں سے 25 اداروں کو ختم کرنے 20 میں کمی اور 9 کو ضم کرنے پر کام جاری ہے۔ فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفینشنل ٹریننگ، انفارمیشن اینڈ براڈکاسٹنگ، پاور ڈویژن، فنانس ڈویژن اور نیشنل ہیریٹیج اینڈ کلچر کو ضم کرنے پر بھی کام جاری ہے ۔ان وزارتوں میں سرمایہ کاری کے بدلے میں حکومت کو ہر سال اوسطاً تقریباً ایک ہزار ارب روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
سیاسی لحاظ سے بھی وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان محمد شہبازشریف نے اپوزیشن سمیت سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے ذریعے مسائل کاحل نکالنے کوترجیح دی۔حکومت کاپہلا سال جہاں انتہائی مشکل اور کٹھن تھا حکومت نے اپنی بھرپور کارکردگی سے جہاں تمام مسائل پرقابو پایا وہیں پاکستان کے لیے مزید خوشخبریاں بھی لائیں۔وزیر اعظم نے مستقبل کومدنظررکھتے ہوئے ’’اْڑان پاکستان‘‘جیسے میگامنصوبے کا بھی آغاز کردیا ہے، عزم پاکستان سے شروع ہونے والا سفر اُڑان پاکستان کے ساتھ کامیابی سے جاری ہے ،اس سے انشا اللہ پاکستان ایک نئے دورمیں داخل ہوگا۔
حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر قوم کےلیے خوشخبریوں کی لائن ہے جن میں کھیلوں کے ویران میدان آباد ہوں گے نوجوانوں کو باوقار روزگار دیا جائے گا۔ پرامن پاکستان نفرت تقسیم اور اناء سے پاک قیادت مل رہی ہے وہیں ملک کی جڑیں کھوکھلا کرنے والے عناصر کی سرکوبی اور پروپگنڈہ کرنے والے انتشاریوں کےلیے سخت قانون سازی کر کے سب کی عزت اور پاکستان کے وقار کی حفاظت کی جا رہی ہے کیونکہ اڑان پاکستان ہی پاکستانیو کی منزل ہے جس میں ہر شہری باوقار زندگی گزارنے کےساتھ اپنی منزل کو پانے کی ناصف جستجو کرےگا بلکہ حکومت کے عملی اقدامات سے وہ معاشی سماجی اڑان بڑھے گا۔
۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
۔
اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔