قومی اتحاد و یکجہتی ۔۔۔ملک دشمن سازشوں کا توڑ

 قومی اتحاد و یکجہتی ۔۔۔ملک دشمن سازشوں کا توڑ
 قومی اتحاد و یکجہتی ۔۔۔ملک دشمن سازشوں کا توڑ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پاکستان کی ترقی اور خوشحالی بیرونی وطن دشمن عناصر کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔پھلتی پھولتی ملکی معیشت بھی ٹھنڈے پیٹوں برداشت نہیں ہوتی۔پاکستان کیخلاف سازشوں کا سلسلہ ازل سے جاری ہے ۔وطن عزیز کو اس وقت بھی کئی اایک اندرونی اور بیرونی سازشوں کا سامناہے۔جن میں سے سب اہم مسئلہ بلوچستان میں امن و امان کا قیام ہے۔یہ حقیقت ہے کہ بلوچ عوام کے محرومیوں سے متعلق مسائل ہر دورِ حکومت میں اجاگر ہوتے رہے ہیں جنہیں بلوچ قوم پرست لیڈران اپنی سیاست کیلئے بروئے کار لاتے رہے۔

بلوچ قوم پرستوں کے بقول انہیں بلوچستان کی سرزمین پر موجود قدرتی وسائل کو بلوچستان کی پسماندگی دور کرنے اور بلوچستان کی ترقی کیلئے بروئے کار نہیں لانے دیا جاتا۔ بلوچ قوم پرست لیڈران ایک عرصہ تک سوئی گیس کی رائلٹی کے بھی متقاضی رہے اور وہ گیس پائپ لائن میں خلل ڈلوا کر بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے رہے جبکہ بلوچستان کے بعض حلقوں کی یہ رائے بھی سامنے آتی رہی کہ بلوچستان کو پسماندہ رکھنے میں خود بلوچ قوم پرست لیڈران کا عمل دخل ہے جو محض اپنے سیاسی فائدے کیلئے بلوچ عوام کو وسائل سے محروم کئے جانے کا ایشو اچھالتے رہے اور وفاق کے ساتھ بلوچستان کی دوری کا تاثر پیدا کرتے رہے، اس سے بالخصوص پنجاب کے ساتھ بلوچستان میں منافرت کی فضا پروان چڑھی جسے بلوچ قوم پرست لیڈروں نے زیادہ ہوا دی۔ 

وفاق پاکستان کی کی ایک اہم اکائی ہونے کے ناطے بلوچستان کی اہمیت اس لئے بھی زیادہ ہے کہ قلات کے والی نے قیام پاکستان سے بھی ایک ماہ قبل خودمختار ریاست قلات کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر دیا تھا اس لئے بلوچ قوم کی پاکستان کے ساتھ محبت پر کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی۔بلوچستان میں خرابی صرف اس وقت پیدا ہوئی جب ایوب خان کے دور میں پورے مغربی پاکستان کو ون یونٹ قرار دے کر یہاں ’’پیرٹی‘‘ کا اصول لاگو کیا گیا۔یہ’علاقائیت کے خاتمے‘ کے نام پر کیا گیا فیصلہ جو آج بھی پاکستان کو پریشان کر رہا ہے۔ اس قباحت نے ہی بلوچ عوام میں محرومیوں کا احساس اجاگر کیا جسے بلوچستان کے مفاد پرست سیاست دانوں نے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔

بے شک آئین پاکستان میں اس وطن عزیز کا روشن چہرہ وفاق اور اسکی چار اکائیوں کی شکل میں ایک گلدستے کی صورت میں اجاگر کیا گیا ہے جس کے تحت وفاق کی ہر اکائی کو ترقی کے مساوی مواقع حاصل ہوتے ہیں۔ بلوچستان کی سرزمین چونکہ تیل‘ گیس اور قیمتی دھاتوں کی صورت میں قدرتی وسائل سے مالامال ہے اس لئے بلوچ قوم اپنے تئیں یہ سمجھتی ہے کہ بلوچستان کے وسائل پر پہلا حق انہی کا ہے۔ اس حوالے سے مارشل لاء ادوار میں بلوچ عوام کی آواز کو دبانے کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات سے بھی بلوچ عوام میں وفاق اور پنجاب کے ساتھ غلط فہمیاں پیدا ہوئیں کیونکہ بلوچ قوم پرست لیڈران اسٹیبلشمنٹ کو پنجاب کے ساتھ جوڑ کر اپنی سیاست چمکاتے ہیں اور اسی تناظر میں انہوں نے منافرت کی سیاست کو ہوا دی جسے جنرل پرویز مشرف کے دور میں زیادہ تقویت حاصل ہوئی جب ایک  اپریشن کے دوران بلوچستان کے سابق گورنر اور وزیراعلیٰ نواب اکبر بگتی کی ہلاکت ہوئی۔ 

اسی کے ردعمل میں ناراض بلوچ نوجوانوں نے بی ایل اے اور بی ایل ایف کے پلیٹ فارموں پر علیحدگی کی تحریک کا آغاز کردیا تو پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت نے اس موقع کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشوں کی تکمیل کیلئے غنیمت جانا اور بلوچستان کے علیحدگی پسند عناصر کی فنڈنگ‘ سرپرستی اور سہولت کاری کرکے انہیں پاکستان کی آزادی اور خودمختاری کے خلاف  استعمال کرنا شروع کر دیا۔ جب ان عناصر کیخلاف سکیورٹی فورسز کے اپریشنز کا آغاز ہوا تو بھارتی شہ پر ہی ان عناصر کی جانب سے ’’مسنگ پرسنز‘‘ کے ایشو کو ہوا دی جانے لگی جس کا سپریم کورٹ نے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس بھی لیا مگر علیحدگی پسند عناصر بھارت اور پاکستان کے دوسرے بدخواہوں کے ہاتھوں میں ہی کھیلتے رہے۔ یہی عناصر بھارتی ایماء پر پاکستان بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں بھی ملوث ہوئے اور پنجابی آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ بھی انکی منافرت والی سیاست کا حصہ بن گئی۔ 

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت نےاپنے ادوار حکومت میں بلوچستان کے پیدا شدہ مسائل کے حل کیلئے عملی اقدامات اٹھائے۔سابق وزیراعظم نوازشریف نے بلوچستان میں بیٹھ کر بلوچ عوام کی محرومیوں کے ازالہ اور سکیورٹی فورسز کے تعاون سے بلوچستان میں امن و امان کے قیام کے اقدامات اٹھائے تاہم بھارتی سرپرستی میں اور ملک کی ایک مخصوص سیاسی جماعت کے انتشاری ایجنڈے کے تحت آج بلوچستان میں ’’مسنگ پرسنز‘‘ کے ایشو پر سیاست کو زیادہ ہوا دی جا رہی ہے جس کیلئے ایک علیحدگی پسند بلوچ لیڈر‘ جو دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہے‘ کی بیٹی ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں بدامنی کی حالیہ فضا اسی کی پیدا کردہ ہے۔ لہذا ملک کی آزادی‘ خودمختاری اور ااس کے  دفاع پر کسی قسم کی مفاہمت نہیں ہو سکتی اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے اسی تناظر میں ’’ہارڈ سٹیٹ‘‘ کے تصور کو اجاگر کیا ہے تاہم بلوچ قوم کی محرومیوں کا ازالہ ایک الگ ایشو ہے جسے قومی سیاسی قیادتیں باہم مل بیٹھ کر افہام و تفہیم سے طے کر سکتی ہیں۔

بلوچستان کا مسئلہ سیاسی نوعیت کا ہے اور اس کا حل بھی سیاسی طریقے سے نکالا جانا چاہیے۔ اس کیلئے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے بھی سٹیک ہولڈرز کو ڈائیلاگ کی دعوت دیکر اہم پیش رفت کی ہے ۔سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی گزشتہ دنوں جاتی امرمیں ایک ملاقات میں بلوچستان کے مسائل کے حل کیلئے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو کردار ادا کرنے پر آمادہ کرکے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ ڈائیلاگ کا راستہ نکالا ہے جو ہماری مستقبل کی سیاست پر یقیناً خوش آئند اثرات مرتب کریگا۔

 اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کے مسائل کو سنجیدگی سے لیا جائے اور ان کے حل کیلئے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے جائیں۔ اگر سندھ اور وفاق میں بھی پیدا ہونے والے تنازعات اسی خوش اسلوبی سے حل کرلئے جائیں جس کے قوی آثار پیدا بھی ہو چکے ہیں‘ تو وفاق اور ا اس کی اکائیوں کا گلدستہ پورے ملک کی فضا کو معطر بنا دیگا۔ بے شک دشمنوں کی سازشوں کا قومی اتحاد و یکجہتی سے ہی توڑ کیا جا سکتا ہے۔لہذاوطن عزیز کے تمام سٹیک ہولڈرز کو  مل  بیٹھ کرصدق دل اور ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہوگا،کیونکہ مکار دشمن ہر لمحے ایک نئی سازش کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ہم سب کو مل کر وطن عزیزکی سلامتی اور سالمیت کا دفاع کرنا ہوگا۔

۔

نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -