روشنی اب مرے اندر بھی ہے باہر بھی ہے۔۔۔۔

Jun 30, 2024 | 01:51 PM

نظم 
اپنے خوابوں کے جزیرے میں سفر کرتے ہوئے
میں بہت دور بہت دور نکل آئی ہوں
ایک انجان سی وادی ہے اجالا سا ہے
میرے دل نے بھی ابھی خود کو سنبھالا سا ہے
ایسا منظر ہے کہ دیکھا ہی نہیں ہے پہلے
اس قدر پیار کہ سیکھا ہی نہیں ہے پہلے
ایسی چاہت کہ سنبھالی ہی نہ جائے مجھ سے
اس قدر نور کہ چہرے پہ اجالا آئے
ایسی خوشبو کہ بدن میرا معطر سا ہوا
ایسا لگتا ہے کہ مجھ سے میرا راضی ہے خدا
ایسا لگتا ہے میرا ختم نہ ہو گا یہ سفر
اب نگاہوں سے ہٹے گا نہ یہ پیارا منظر
میری مقبول ہوئی جاتی ہے ہر ایک دعا
روشنی اب مرے اندر بھی ہے باہر بھی ہے
میرے چہرے سے خوشی آج یہ ظاہر بھی ہے
جسم پر میرے کوئی نور کی چادر بھی ہے
اس کی رحمت پہ مرا دل ہے کہ شاکر بھی ہے
جو مرا وقت بدل دینے پہ قادر بھی ہے
میں رہوں یا نہ رہوں حرف مرے زندہ ہیں

کلام :ڈاکٹرفرزانہ فرحت (لندن)

مزیدخبریں