روشنی اب مرے اندر بھی ہے باہر بھی ہے۔۔۔۔

روشنی اب مرے اندر بھی ہے باہر بھی ہے۔۔۔۔
روشنی اب مرے اندر بھی ہے باہر بھی ہے۔۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نظم 
اپنے خوابوں کے جزیرے میں سفر کرتے ہوئے
میں بہت دور بہت دور نکل آئی ہوں
ایک انجان سی وادی ہے اجالا سا ہے
میرے دل نے بھی ابھی خود کو سنبھالا سا ہے
ایسا منظر ہے کہ دیکھا ہی نہیں ہے پہلے
اس قدر پیار کہ سیکھا ہی نہیں ہے پہلے
ایسی چاہت کہ سنبھالی ہی نہ جائے مجھ سے
اس قدر نور کہ چہرے پہ اجالا آئے
ایسی خوشبو کہ بدن میرا معطر سا ہوا
ایسا لگتا ہے کہ مجھ سے میرا راضی ہے خدا
ایسا لگتا ہے میرا ختم نہ ہو گا یہ سفر
اب نگاہوں سے ہٹے گا نہ یہ پیارا منظر
میری مقبول ہوئی جاتی ہے ہر ایک دعا
روشنی اب مرے اندر بھی ہے باہر بھی ہے
میرے چہرے سے خوشی آج یہ ظاہر بھی ہے
جسم پر میرے کوئی نور کی چادر بھی ہے
اس کی رحمت پہ مرا دل ہے کہ شاکر بھی ہے
جو مرا وقت بدل دینے پہ قادر بھی ہے
میں رہوں یا نہ رہوں حرف مرے زندہ ہیں

کلام :ڈاکٹرفرزانہ فرحت (لندن)

مزید :

شاعری -